آسٹریلوی پاکستانی ٹیم سے خفا

سلیم خالق  اتوار 10 نومبر 2019
پاکستان میں فٹبال کی پروموشن کے لیے بھرپورتعاون کی یقین دہانی کراتے ہیں، انٹرنیشنل فٹبالرز۔ فوٹو: فائل

پاکستان میں فٹبال کی پروموشن کے لیے بھرپورتعاون کی یقین دہانی کراتے ہیں، انٹرنیشنل فٹبالرز۔ فوٹو: فائل

’’پاکستان واپس جا کر تم سب سے زیادہ کس چیز کو مس کرو گے‘‘ سڈنی کے ریسٹورنٹ میں جب فہد نے مجھ سے یہ سوال پوچھا تو میرا جواب تھا کہ یہاں کی سیکیورٹی اور صفائی ستھرائی، میں آسٹریلیا میں کئی دن سے رہ رہا ہوں لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ موبائل فون چھپا کر رکھنا پڑا ہوِ، کوڑے دان کراچی میں بھی ہوتے ہیں مگر ان میں  سے کوڑا نہیں اٹھایا جاتا جس کی وجہ سے وہ پھیل کر سڑک تک آ جاتا ہے، مگر پھر بھی میں پاکستان میں ہی رہنا پسند کرتا ہوں۔

میری فیملی، دوست سب وہیں ہیں،چند روز بعد ہی گھر کی یاد آنے لگتی تو فوراً واپس چلا جاتا ہوں، کبھی کبھی بیرون ملک آنے کا موقع مل جاتا ہے اور میرے لیے وہی بہت ہے،ہم ’’بفرزونیوں‘‘ کی ری یونین سڈنی کے ریسٹورنٹ ’’اسٹوڈنٹ بریانی‘‘ پر سجی تھی، میرے ساتھ فہد، فواد اور احمد موجود تھے، بچپن میں ہم سب کراچی کے علاقے بفرزون میں رہتے تھے، کرکٹ، ہاکی، فٹبال، ٹیبل ٹینس، بیڈ منٹن سمیت کوئی ایسا کھیل نہیں جو ہم نے نہیں کھیلا۔

بدقسمتی سے آج کل کے بچے اسپورٹس کی سرگرمیوں سے دور اور زیادہ وقت موبائل فون اور ٹی وی دیکھ کر ہی گذارتے ہیں، فہد اب سڈنی ٹرین میں ملازم ہیں، وہ ایک دن مجھے اپنے دفترلے کر گئے تومیں حیران رہ گیا،وہاں کسی کی کوئی سیٹ مختص نہیں جہاں مرضی ہو لیپ ٹاپ لے کربیٹھو اور کام شروع کردو، کمروں میں گملے موجود اورایسے کئی مقامات تھے جہاں آپ تھکاوٹ کی صورت میں آرام کر سکیں۔

مسلمانوں کیلیے بھی سہولتیں موجود اور نماز کی جگہ مختص کی گئی ہے،کام کے اوقات کی پابندی ضروری نہیں بس ہفتے میں مخصوص گھنٹے  دفتر میں گذارنا لازم ہے، فواد اب ڈاکٹر بن چکے اور ایک اسپتال میں فرائض نبھاتے ہیں، احمد بھی ایک بڑی کمپنی میں ملازم ہیں، اپنے  دوستوں کو سیٹ دیکھ کرمجھے بہت خوشی ہوئی، میری یہاں کئی دیگر ایسے پاکستانیوں سے بھی ملاقات ہوئی جو بڑے  بڑے عہدوں پر فائز ہیں۔

اگر ہم انھیں اپنے ملک میں ہی اچھی ملازمتیں فراہم کر دیا کریں تو اچھے دماغ ملک سے باہر نہ جائیں، مگر کیا کریں یہاں سفارشیوں کو تو فوراً بڑی تنخواہوں پر ملازمت مل جاتی ہے مگر اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ہاتھ ملتے رہتے ہیں، زیادہ دور کیوں جائیں کرکٹ  بورڈ کی ہی مثال دیکھ لیں جہاں پہلے کسی کا تقررکرتے ہیں پھر اسی کو ذہن میں رکھ کر اشتہار دیا جاتا ہے،اسی لیے اب ہماری کرکٹ کا یہ حال ہے۔

مجھ سے کئی پاکستانیوں نے ان میڈیا رپورٹس کا تذکرہ کیا جس میں بے روزگاری کا شکار ہونے والے کرکٹرزکے ٹیکسی چلانے یا کوچز و کیوریٹرز کے اچانک انتقال کا ذکر تھا،  ان لوگوں کا یہی کہنا تھا کہ پانی سر سے اونچا ہونے لگا ہے، وزیر اعظم عمران خان کو پی سی بی میں بدانتظامیوں کا نوٹس لیتے ہوئے اہل افراد کو آگے لانا چاہیے، ٹیم کا حال بھی سب کے سامنے ہے۔

مصباح الحق کی بطور کھلاڑی خدمات سے کسی کو انکار نہیں، مگر بورڈ نے انھیں اتنی ساری ذمہ داریاں سونپ دیں جنھیں وہ سنبھال نہیں پا رہے اس کے اثرات کھلاڑیوں کی کارکردگی میں نظر آنے لگے ہیں، نمبر ون پوزیشن اب چند دنوں کی ہی مہمان لگتی ہے، خیر آج میں نے سوچا ہے کہ کرکٹ سے زیادہ آپ کو آسٹریلیا کی باتیں بتاؤں گا، اگر آپ پاکستان سے وہاں جائیں تو ہر چیز مہنگی لگتی ہے۔

جیسے کراچی میں اگر کوئی پھل والا کہے کہ  کیلا 60 روپے درجن ہے تو ہم فوراً بحث کرتے ہوئے کہتے ہیں 50روپے کے دیتے ہو تو دو، وہاں ایک کیلا ہی تقریباً150روپے کا پڑتا ہے، جب میں پہلی بار 2005میں آسٹریلیا گیا تو ڈالر 45 روپے کا تھا، اب تقریباً107 روپے کا ہو گیا، جو وہاں رہتے ہوئے کمارہے ہیں ان کے لیے تو سب اچھا ہے لیکن پاکستان سے جانے والے مشکل میں پڑجاتے ہیں۔

مجھے میرے دوستوں نے بتایا کہ تقریباً 40 فیصد تنخواہ ٹیکس میں چلی جاتی ہے لیکن مفت علاج معالجے کی سہولتیں اور مفت تعلیم سمیت اتنی زیادہ سہولتیں ہیں کہ یہ ٹیکس گراں نہیں گذرتا، بے روزگاری کی صورت میں ماہانہ اخراجات کیلیے حکومت کی جانب سے رقم ملتی ہے، اس وقت میں سوچنے لگا کہ ہماری حکومت ٹیکس کیلیے اتنی سختی کر رہی ہے مگر بدلے میں ایک عام پاکستانی کو ملتا کیا ہے۔

آسٹریلینز کھیلوں کے بہت شوقین ہیں،کرکٹ سمیت آسٹریلین رولز فٹبال اور رگبی کا انھیں بہت شوق ہے، جگہ جگہ گراؤنڈز موجود جہاں بچے کھیلتے دکھائی دیتے ہیں، پاکستانی اور بھارتی والدین کی بڑی کوشش ہوتی ہے کہ ان کی اولاد بھی آسٹریلیا کی نمائندگی کرے، اس لیے وہ ہر ہفتے انھیں کوچنگ و میچز کیلیے لے کر جاتے ہیں،  یہاں پیدا ہونے والے بچے پاکستان اور آسٹریلیا کے میچ میں میزبان ٹیم کو سپورٹ کرتے ہیں جبکہ ان کے والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ گرین شرٹس  کے سپورٹر بنیں۔

ایسے کئی دلچسپ مناظر میں نے ٹی ٹوئنٹی میچزکے دوران دیکھے،  لوگ اسپورٹس ایونٹس کے دوران خوب انجوائے کرتے ہیں، پرتھ اسٹیڈیم کے باہر میچ سے ایک دن قبل’’ہیلوون پارٹی‘‘ بھی جاری تھی جس میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں خوفناک روپ دھارے گھوم رہے تھے، بچوں کیلیے تفریح کے بھی بے پناہ مواقع موجود تھے، میچ میں شکست کے بعد پاکستانی شائقین ٹیم سے خفا نظر آئے، ان کو اب اس بات کا خدشہ ستا رہا ہے کہ یہ کمزور ٹیم ٹیسٹ میچز میں کیا کرے گی، ہم کہتے ہیں کہ آسٹریلوی میڈیا اور شائقین پاکستانی ٹیم کو زیادہ لفٹ نہیں کرا رہے لیکن یہ نہیں سوچتے کہ اس کی اصل وجہ اپنی کارکردگی ہی ہے۔

اب ٹیم پرتھ میں ہی وارم اپ میچ کھیلے گی، جیسا کہ پہلے بتایا کہ دبئی سے آئے ہوئے ڈائریکٹر میڈیا نے مصباح الحق اور کھلاڑیوں کو سات پردوں میں چھپالیا اور ان کا زور بیانیے پر ہے، اپنی مرضی کی ویڈیو یا آڈیو جاری کر دیتے ہیں، صحافیوں کے سامنے انھیں اس لیے نہیں لاتے کہ ناقص کارکردگی کا دفاع کیسے ہو سکے گا،خیراب دیکھتے ہیں کہ دورے  کے بقیہ میچز میں ٹیم کی پرفارمنس کیسی رہتی ہے، دل کہتا ہے کہ کھلاڑی اچھا پرفارم کریں گے مگر دماغ کہتا ہے خود کو جھوٹی آس نہ دلاؤ۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔