لمبی جدائی

وجاہت علی عباسی  اتوار 10 نومبر 2013
wabbasi@yahoo.com

[email protected]

چھ مہینے پہلے میری زندگی کا سب سے اہم شخص مجھے ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر چلا گیا۔ میرے والد قمر علی عباسی وہ انسان جن کی انگلی پکڑ کر میں نے چلنا سیکھا، زندگی کیسے گزارتے ہیں، آگے کیسے بڑھتے ہیں، کیا صحیح کیا غلط ہے کی سیکھ مجھے دے کر اپنی زندگی کے اس سفر پر نکل گئے جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔

قمر علی عباسی ریڈیو، ٹی وی اور سفر نامہ نگاری کا ایک مقبول نام ہے۔ دنیا بھر میں ان کے چاہنے والے موجود ہیں لیکن کیوں کہ میں ان کا بیٹا ہوں اس لیے مجھے لگتا تھا کہ میں اور میری فیملی جس دکھ اور غم سے گزر رہے ہیں دوسرا کوئی اسے اس حد تک محسوس نہیں کرسکتا، کوئی ان کو اتنا مس نہیں کرسکتا۔ لیکن میں غلط تھا۔

جیسے ہی لوگوں کو ان کی رحلت کا پتہ چلا لوگوں کے گھر آنے کا اور دنیا بھر سے فون آنے کا سلسلہ تھما نہیں۔ لاہور سے زیبا علی، مصطفیٰ قریشی، کراچی سے قاضی ماجد، راجو جمیل، طلعت حسین، بشریٰ انصاری، قاسم جلالی، دوست محمد فیضی، رضوان صدیقی، جمیل الدین عالی جی، حیدرآباد سے فہمیدہ حسین، دبئی سے خالد عزیز، لندن سے عقیل دانش اور ان گنت ایسے نام جنہوں نے اپنے غم کے اظہار سے یہ احساس دلایا کہ یہ صرف ہمارا نہیں ان کا بھی بہت بڑا نقصان ہے۔ کتنے ان کو پڑھنے والے لوگ جو انھیں ذاتی طور پر نہیں جانتے تھے فون کرکے ایسے آنسو بہاتے جیسے ان کا کوئی اپنا بچھڑ گیا ہو۔

مجھے یاد ہے جب 22 اپریل 2011 کو معین اختر انکل کا انتقال ہوا تھا اور ان کے بچے ایک ٹی وی شو پر آئے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ ان کے والد مشہور تھے لیکن وہ حیران تھے جب انھوں نے لوگوں کا وہ ساتھ دیکھا جو انھوں نے اپنے والد کی زندگی میں بھی نہیں دیکھا ہوگا۔ ہم خوش تھے کہ لوگ معین انکل سے اتنا پیار کرتے ہیں اور سوچ رہے تھے کہ کاش وہ اپنے لیے اتنا زیادہ پیار دیکھ پاتے، ٹھیک یہی جذبات ہمارے اپنے والد کے لیے بھی تھے جب ہم نے ان کے لیے لوگوں کے دلوں میں اتنا پیار دیکھا۔

پچھلے چھ مہینوں میں جگہ جگہ ایسے جلسے ہوئے جو قمر علی عباسی کی یاد میں منعقد کیے گئے تھے، کچھ مہینے پہلے کراچی پریس کلب، آرٹس کونسل اور حال ہی میں حیدرآباد پریس کلب میں بہت بڑی تعداد میں لوگ ان کو خراج تحسین وعقیدت پیش کرنے جمع ہوئے۔ آرٹسٹوں اور صحافیوں کے بارے میں عموماً لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ جہاں ان کا مطلب نہیں ہوتا وہ نہیں جاتے لیکن پریس کلب اور آرٹس کونسل میں بیٹھے لوگوں کی رنجیدہ شکلیں دیکھ کر اندازہ ہورہا تھا کہ یہ سچ مچ دل سے اداس ہیں۔ آج پاکستان میں ہمیں لگتا ہے کہ ہر کوئی صرف اپنے مطلب کے لیے کام کرتا ہے لیکن ایسے لوگ ابھی موجود ہیں جو بغیر اپنے کسی ذاتی مفاد کے ایسے کام کررہے ہیں جس سے نظر آتا ہے کہ چلے جانے والے کے لیے ان کے دل میں سچ مچ پیار ہے۔

قمر علی عباسی کا پاکستان کے شہر حیدرآباد میں جس سڑک پر گھر تھا، اس سڑک کا ان کے نام کردینا یہ دکھاتا ہے کہ ہماری قوم اپنے لوگوں سے پیار کرتی ہے، احترام کرتی ہے اور انھیں بھلاتی نہیں۔

کچھ دن پہلے نیویارک میں قمر علی عباسی کی یاد میں منعقدہ جلسے میں ہم بیٹھے تھے۔ رات ایک بجے تک ہال میں لوگ موجود تھے۔ وہاں کوئی محفل موسیقی، کوئی ورائٹی پروگرام یا مشاعرہ نہیں ہورہا تھا لیکن پھر بھی کوئی شخص اس وقت تک اپنی نشست سے نہیں ہلا جب تک جلسہ ختم نہیں ہوگیا۔ ہر مقرر کی آواز میں رقت اور ہر دوسرے اسپیکر کی آنکھیں چھلک جانا اس بات کا احساس دلاتا تھا کہ ہمارے والد کی کمی محسوس کرنے والے سیکڑوں نہیں ہزاروں لوگ ہیں۔

کچھ دن پہلے پاکستان کا ایک ایسا نام ایسی شخصیت جدا ہوگئی جو ہمارے ملک کا تشخص تھا، بلبل صحرا گلوکارہ ریشماں ایک طویل بیماری کے بعد کچھ دن پہلے الوداع کہہ کر ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے رخصت ہوگئیں۔

ریشماں نوعمری سے ریڈیو، ٹی وی کے لیے نغمہ سرا تھیں۔ ’’لال میری پت رکھیو‘‘ جیسے ہی ان کی آواز میں ریڈیو سے نشر ہوا وہ راتوں رات مشہور ہوگئیں۔ شہرت کا وہ سلسلہ جو رکا نہیں، دمادم مست قلندر، ہائے او رباں مینوں لگدا دل میرا سن چکرادی مٹی، وے میں چوری چوری، ان کے مشہور گانوں میں سے ہیں۔ نہ صرف پاکستان بلکہ ریشماں ہندوستان میں بھی ہر دلعزیز تھیں، فلم ہیرو کے لیے ان کا گانا ’’لمبی جدائی‘‘ نہ صرف 80 کی دہائی میں مشہور تھا بلکہ آج بھی اسی طرح مقبول ہے۔ ان کو ہندوستان کی وزیراعظم مسز اندرا گاندھی نے خصوصی دعوت نامہ بھیج کر ہندوستان بلایا تھا۔

2006 میں پاکستان سے ہندوستان جانے والی پہلی بس میں جہاں چھبیس سیٹوں میں سے پندرہ آفیشلز تھے وہیں ریشماں اور ان کی فیملی کی سات سیٹیں تھیں۔

ریشماں کی بیماری وقت کے ساتھ بڑھتی گئی اور پچھلے کچھ برسوں میں وہ بہت زیادہ بیمار ہوگئیں۔ پچھلے دو ایک سال سے ان کی کوئی خاص خیر خبر نہیں ملی، کوئی اخبار، کوئی نیوز چینل، کوئی مارننگ شو ان کی طبیعت سے تعلق اپ ڈیٹ نہیں کرتا، کبھی میڈیا سے تعلق رکھنے والے کسی شخص سے ریشماں جی کے متعلق جاننا چاہا تو کوئی صورت حال واضح نہیں ہوئی۔

3 نومبر 2013 کو ریشماں کی کامیاب زندگی کا سفر اختتام کو پہنچا۔ کچھ ہی گھنٹوں میں تمام ٹی وی چینلز، ریڈیو پروگرام ریشماں کی بات کرنے لگے، نیوز پیپرز، انٹرنیٹ سائٹس پر ان کے متعلق آرٹیکلز کی بھرمار ہوگئی۔ پاکستان سے لے کر ہندوستان تک جن لوگوں نے ان کے ساتھ کام کیا بتاتا نظر آرہا تھا کہ وہ کیسے ان کی کمی محسوس کررہا ہے۔ پچھلے دنوں ریشماں پر کئی پروگرام ہوچکے ہیں، کچھ ایسا ہی پیار لوگوں نے دکھایا جیسے وہ کئی بار دکھا چکے ہیں، جیسے مہدی حسن کے لیے، ریشماں جی پر پروگرام دیکھ کر اور پچھلے چھ ماہ میں اسی چیز سے گزرنے کے بعد دل میں خیال آیا کہ ہم اپنا پیار کسی کے جانے کے بعد کیوں دکھاتے ہیں۔ اس کی زندگی میں کیوں نہیں؟

آج ریشماں کے بارے میں ہر کوئی بات کررہا ہے، ان کو کس طرح خراج عقیدت پیش کیا جائے، سوچ رہے ہیں لیکن یہی لوگ اپنی زندگی میں اتنے مصروف ہیں کہ چھ مہینے پہلے ان سے پوچھا جاتا کہ ریشماں کہاں ہیں، تو ان کے پاس جواب نہیں ہوتا۔ اپنے آس پاس اپنے Legends خصوصاً وہ جو اپنی زندگی کا بڑا حصہ گزار چکے ہیں، انھیں اپنا پیار آج دکھائیں۔ پیار دکھانے کے لیے کسی ’’لمبی جدائی‘‘ کا انتظار مت کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔