آئی ایم ناٹ ملالہ

وجاہت علی عباسی  اتوار 17 نومبر 2013
wabbasi@yahoo.com

[email protected]

تین ہفتے پہلے سفر کے دوران ہمارا دنیا کے تین بڑے ایئر پورٹس پر جانے کا اتفاق ہوا۔ نیو یارک، لندن اور ہانک کانگ دنیا کے معروف ترین ہوائی اڈے ہیں جو ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں۔ دکانیں، کھانے، آس پاس نظر آنیوالے لوگ۔۔۔ تینوں ہوائی اڈوں پر ایک دوسرے سے مختلف لیکن ایک بات ان تینوں پر مشترک تھی اور وہ تھی ملالہ کی موجودگی، ان سب کے بک اسٹورز کے بیسٹ سیلر کے اسٹینڈ پر “I am Malala” نظر آرہی تھی۔ یہ ملالہ یوسف زئی کی خود نوشت ہے جو حال ہی میں منظر عام پر آئی ہے، اس وقت انٹرنیٹ پبلی کیشنز یعنی آئی بکس اور کینڈل جیسے پلیٹ فارمز پر کوئی بھی اپنی کتاب آسانی سے ریلیز کروا سکتا ہے جس کی وجہ سے کتابیں چھپوانے کے لیے رائٹرز میں مقابلہ بہت بڑھ گیا ہے ایسے میں ہر جگہ اس کتاب کا نمبر ون ہونا یہ بتاتا ہے کہ دنیا بھر میں لوگ اس کتاب کو بہت زیادہ پڑھ رہے ہیں۔کوئی چار گھنٹے تھے ہماری فلائٹ میں جب ہم ’’آئی ایم ملالہ‘‘ کا مطالعہ ہانگ کانگ ایئر پورٹ کے ایک بک اسٹور پر کر رہے تھے۔ ایک گوری خاتون جن کے ہاتھ میں غالباً برٹش پاسپورٹ تھا شیلف سے کتاب اٹھاتے ہوئے ہم سے کہنے لگیں ’’یہ کتاب اچھی ہے۔۔۔۔ لے لو‘‘

’’مگر آپ نے جب یہ کتاب پڑھی ہوئی ہے تو اب کیوں خرید رہی ہیں؟‘‘ ہمارا ان سے سوال، انھوں نے جواب دیا ’’میں یہ اپنی بیٹی کے لیے خرید رہی ہوں۔ یہ کہانی ہے ایک مجبور پاکستانی لڑکی کی جو اپنی مشکلات کے بارے میں بتاتی ہے، میری بیٹی اس کتاب کے ذریعے ایک عام پاکستانی لڑکی سے واقف ہوگی۔‘‘ خاتون کو ہم شاید ہندوستانی لگے ہوں گے۔ اسی لیے پاکستانی لڑکی کا ذکر ہم سے ایسے کر رہی تھیں جس طرح کچھ دن پہلے چائنا میں چینی ہم سے دیوار چین کا ذکر کر رہے تھے، گھر کی مرغی سمجھ کر تیس ڈالر کی جس کتاب کو ہم واپس رکھنے والے تھے یہ سوچ کر خرید لی کہ چلو دیکھتے ہیں کہ ہاتھ میں فارن پاسپورٹ پکڑے دنیا کے یہ لوگ ایک عام پاکستانی لڑکی کو کیسے دیکھ رہے ہیں؟چائنیز ایئر لائن Cathay Pacific ایک اچھی ایئر لائن ہے آس پاس بیٹھے چینی مسافر ایسے سو جاتے ہیں جیسے کئی سال سے نہیں سوئے اور اب کبھی نہیں اٹھیں گے، جہاز کا عملہ آپ کی خدمت میں ایسے لگ جاتا ہے جیسے ہمیں سروس پسند نہیں آئی تو جہاز سے اترتے ہی پاک چین دوستی ختم کر دینگے۔

جہاز اڑا اور ہم نے کتاب ’’آئی ایم ملالہ‘‘ کا پہلا صفحہ کھولا جہاز تو ہماری منزل کی طرف ہی بڑھ رہا تھا مگر اس کتاب کے ذریعے ہم سفر ملالہ کے ساتھ کر رہے تھے۔سب سے پہلی بات تو یہ کہ یہ کتاب صرف ملالہ نے نہیں لکھی ایک برطانوی صحافی کرسٹین لیمب نے اس میں معاونت کی ہے ساتھ ہی ملالہ کے والد کا بھی اس میں بڑا حصہ ہے، کتاب کے کچھ ہی صفحے پلٹنے پر یہ صاف ہوجاتا ہے کہ لکھنے والے نے کسی طرح بھی پاکستان کے امیج کا خیال رکھتے ہوئے یہ کتاب نہیں لکھی، کئی لوگ نہیں جانتے کہ کرسٹین لیمب پاکستان سے شدید نفرت کرتی ہیں، 10 نومبر 2001 کو رپورٹنگ کرتے وقت کرسٹین کو پاکستان سے باقاعدہ ڈی پورٹ کر دیا گیا تھا جب انھوں نے آئی ایس آئی پر یہ الزام لگایا تھا کہ وہ طالبان کو اسلحہ فراہم کر رہے ہیں۔ ڈی پورٹیشن کی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ وہ بغیر کسی اجازت نامے آئی ایس آئی کی سیکیورٹی توڑنے کی کوشش کر رہی ہیں، بغیر کسی نوٹس کے ان کے ہوٹل کے کمرے سے لے جاکر آفیشلز نے انھیں لندن جانے والی فلائٹ پر بٹھا دیا تھا جس کے بعد انھوں نے پاکستان کے خلاف کئی باتیں کی تھیں اب کرسٹین لیمب کتاب پر ملالہ کی تصویر لگا کر دنیا کو دکھا رہی ہیں۔

کتاب شروع ہوتی ہے اس دن سے جس دن ملالہ پر حملہ ہوا جس کے بعد کتاب ان کی زندگی ان کے خاندان اور خصوصاً ان کے والد کی زندگی پر روشنی ڈالتی ہے، سوات میں طالبان سے پہلے اور پھر ان کے آ جانے کے بعد کے حالات کا ذکر ہے۔ وہ اپنی پسند اور نا پسند کی بات کرتی ہیں جیسے ان کے پسندیدہ انڈین اور امریکن ٹی وی شوز وغیرہ جس کے بعد بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ ہوتا ہے یعنی کہ ملالہ کے والد ضیا الدین یوسف زئی کی زندگی کی کہانی شروع ہوجاتی ہے جیسے جب وہ پی ایس ایف کے کارکن تھے ساتھ ہی کتاب کا ایک حصہ جنرل ضیا الحق کے بارے میں بھی ہے اور ملالہ لکھتی ہیں کہ جنرل ضیا الحق ایک ڈراؤنے انسان تھے جن کی آنکھوں میں گہرے حلقے تھے بڑے بڑے دانت تھے اور سر پر بال اچھی طرح چپکے رہتے تھے یعنی آسان لفظوں میں وہ پی ٹی وی کے کسی بچوں کے شو کے جن لگتے تھے، مزید وہ لکھتی ہیں کہ جنرل ضیا الحق کے آنے کے بعد پاکستان میں نصاب کی کتابیں دوبارہ لکھی گئیں جس سے یہ لگتا ہے کہ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے اور لکھتی ہیں کہ ان ٹیکسٹ بکس کو پڑھ کر لگتا ہے کہ پاکستان 1947 میں نہیں اس سے بہت پہلے بن گیا تھا۔ کتاب میں کئی قابل اعتراض باتیں ہیں جیسے صفحہ 55 پر لکھتی ہیں کہ ہم پختون پاکستان افغانستان کے بیچ سرحد کو نہیں مانتے۔ صفحہ 45 پر لکھتی ہیں کہ میرے والد اور ان کے دوستوں نے پاکستان کی پچاسویں سالگرہ پر بازوؤں پر کالی پٹیاں باندھ کر پاکستان بننے کے خلاف مظاہرے کیے تھے جو ملالہ کے حساب سے صحیح ہیں اور سب سے حیران کن بات صفحہ 62 پر ملتی ہے جہاں وہ لکھتی ہیں کہ اب آپ سمجھ سکتے ہیں کہ سوات کے لوگوں کو پاکستان کا بننا درست نہیں لگتا۔

ملالہ خود کو مجبور اور پاکستان کو غلط دکھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتیں، جہاز ہانگ کانگ سے دور ہوتا جارہا تھا،ایئر پورٹ کے بک اسٹور پر ملی خاتون ماضی کا صرف ایک لمحہ تھیں، دل کیا کاش انھیں بتا سکوں کہ پاکستانی ایسے نہیں جیسا ملالہ نے انھیں دکھایا ہے، ہم اپنی ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کو رتبہ دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے، 179 ملین پاکستانیوں میں سے ہزار لوگوں کے غلط ہوجانے سے پوری قوم غلط نہیں ہوجاتی۔ پاکستانی پرائیویٹ اسکول ایسوسی ایشن جس کے تحت چار ہزار اسکول آتے ہیں نے اپنے کورس اور لائبریریوں سے ’’آئی ایم ملالہ‘‘ پر پابندی لگا دی ہے۔

اتھارٹیز کو لگتا ہے کہ ملالہ مغرب کی کٹھ پتلی ہیں جو دنیا کو پاکستان کا غلط تاثر دینے کے مشن پر ہیں اس لیے یہ کتاب پورے پاکستان میں BAN ہونی چاہیے۔

پروفیشنل شوٹرز کی گولی دو فٹ سے چلا کر بھی مس ہوگئی ہم نے یہ مانا۔ بغیر سر سے بال ہٹائے دماغ کی سرجری ہوگئی یہ بھی مانا اس کے بعد یاد داشت کا کوئی مسئلہ نہیں ہوا ہم نے مانا، بغیر کچھ ایسا کیے نوبل پرائز کے لیے نامزد ہونا یہ بھی ہم نے مانا لیکن پاکستان بننا صحیح نہیں تھا یہ کیسے مان لیں؟

اگر یہی ہیں ملالہ تو کتاب پڑھ کر خیال آتا ہے کہ ’’آئی ایم ناٹ ملالہ۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔