نابینا افراد کو الفاظ دکھانے والا نیا دماغی ’پیوند‘

ویب ڈیسک  اتوار 17 مئ 2020
امریکی ماہرین نے بصارت سے محروم افراد کے لیے برقی امپلانٹ بنایا ہے جو انہیں بعض الفاظ اور اشکال دیکھنے کے قابل بناتا ہے۔ فوٹو: بشکریہ بیلر کالج

امریکی ماہرین نے بصارت سے محروم افراد کے لیے برقی امپلانٹ بنایا ہے جو انہیں بعض الفاظ اور اشکال دیکھنے کے قابل بناتا ہے۔ فوٹو: بشکریہ بیلر کالج

ہوسٹن: اب ماہرین نے ایک ایسا الیکٹرانک امپلانٹ (پیوند) بنایا ہے جو آنکھوں کو باقاعدہ نظر انداز کرتے ہوئے بصارت کے سگنل براہِ راست دماغ تک پہنچاتا ہے۔ دماغ میں لگانے کے بعد یہ پیوند براہِ راست بینا اور نابینا افراد کو مختلف الفاظ اور جملے دکھاسکتا ہے لیکن اس کے لیے آنکھوں کی ضرورت نہیں رہے گی۔

یہ پیوند ہیوسٹن میں واقع بیلر کالج آف میڈیسن کے سائنسدانوں نے تیار کیا ہے جس کی بدولت نابینا افراد مختلف الفاظ دیکھ سکتے ہیں۔ اس کی تفصیلات جرنل سیل میں شائع ہوئی ہے۔ تفصیلات کے تحت اس میں ایک حساس کیمرہ استعمال ہوتا ہے جو منظر کو دیکھتا ہےہ اور الیکٹروڈ (برقیروں) کے تحت براہِ راست اس کی معلومات دماغ تک جاتی ہے۔ ماہرین نے اس عمل کو ’وژول پروستھیٹک‘ کا نام دیا ہے۔ جس میں اندھے پن کے شکار بہت حد تک دیکھنے کے قابل ہوجائیں گے۔ لیکن ہر انسان کے لیے اس کی منزل ابھی بہت دور ہے۔

ابتدائی درجے میں نابینا افراد مختلف اشیا کے کنارے اور الفاظ کی تفصیلات محسوس کرنے لگے تھے کیونکہ برقی سگنل کا ڈیٹا اور تفصیلات ان تک جارہی تھیں۔ کئی نابینا شرکا نے الفاظ کو اچھی طرح شناخت کرلیا ۔ اکثر رضاکاروں نے کہا کہ انہیں الفاظ روشن کناروں کی طرح دکھائی دے رہے ہیں گویا کسی نے رات کی تاریکی میں آسمان پر کچھ لکھ دیا ہے۔

اس کے تحت کوئی بھی شخص چھونے کے عمل سے الفاظ کو محسوس کرسکتا ہے۔ اسطرح نابینا افراد اپنے گھر کے افراد کے خدوخال پہچان سکیں گے۔ آزادانہ گھوم پھرسکیں گے اور ہاتھوں سے کسی شے کو چھوکر اس کی ممکنہ شکل کو براہِ راست دماغ سے دیکھ سکیں گے۔

ہاتھوں کی بصارت کو یقینی بنانے کے لیے الیکٹروڈ کو دماغ کے بصری حصے ’وژول کارٹیکس‘ میں لگائے گئے ہیں لیکن اب تک تمام حصے پر سارے الیکٹروڈز نہیں لگے ہیں۔ امید ہے کہ پیوند کے اگلے ماڈل میں مزید کچھ بہتری سامنے آسکے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔