آئی بی اے سکھر اپنے وائس چانسلر کا انتخاب خود کرے گا

صفدر رضوی  منگل 28 جولائی 2020
آئی بی اے سکھر کے ایکٹ 2017 کے تحت یونیورسٹی کی سینیٹ وائس چانسلر کے انتخاب کے لیے کمیٹی خود بنائے  گی

آئی بی اے سکھر کے ایکٹ 2017 کے تحت یونیورسٹی کی سینیٹ وائس چانسلر کے انتخاب کے لیے کمیٹی خود بنائے گی

 کراچی: آئی بی اے سکھر اپنے وائس چانسلر کا انتخاب خود کرے گا۔

متنازعہ اور انوکھے قانون کے سبب آئی بی اے سکھر سندھ کی وہ واحد یونیورسٹی بن کر سامنے آئی ہے جو صوبے کی دیگر سرکاری جامعات کے برعکس اپنے وائس چانسلر کا انتخاب خود ہی کرے گی اورسندھ میں سرکاری جامعات کے وائس چانسلر کے انتخاب کے لیے قائم “تلاش کمیٹی”(سرچ کمیٹی) کو آئی بی اے سکھر کے نئے وائس چانسلر کے تقرر کے لیے موزوں امیدواروں کے انتخاب کے عمل سے لاتعلق رکھا جائے گا۔

اس سرچ کمیٹی کے بجائے آئی بی اے سکھر کی سینیٹ خود اپنی تلاش کمیٹی تشکیل دے گی جس کے 50 فیصد سے زائد اراکین کا تعلق کسی نہ کسی طور پر خود آئی بی اے سے ہوگا اور آئی بی اے سکھر کی سینیٹ کی جانب سے تشکیل دی گئی تلاش کمیٹی اپنے ادارے کے لیے وائس چانسلر کا انتخاب کرے گی۔

آئی بی اے سکھر کی سینیٹ کو اس بات کا استحقاق خود یونیورسٹی کے 2017 میں منظور کیے گئے ایکٹ میں دیا گیا ہے اور حیرت انگیز طور پر جب 2018 میں سندھ کی تمام سرکاری جامعات کے ایکٹ میں ترمیم کرتے ہوئے تمام جامعات کے ایکٹ کو یکساں حیثیت دی گئی تو اس ترمیمی ایکٹ 2018 میں بھی آئی بی اے سکھر میں وائس چانسلر کے انتخاب اور تقرر کے طریقہ کار کو سندھ کی دیگر جامعات کے وائس چانسلرز کے طریقہ انتخاب سے جدا رکھا گیا۔

آئی بی اے سکھر کے موجودہ رجسٹرار زاہد حسین کھنڈ نے وائس چانسلر کے انتخاب کے سلسلے میں یونیورسٹی سینیٹ کی جانب سے کمیٹی بنانے کا اختیار ایکٹ کے ذریعے سے حاصل ہونے کی تصدیق کردی ہے “ایکسپریس” نے جب اس حوالے سے ان سے رابطہ کیا تو رجسٹرار آئی بی اے سکھر نے بتایا کہ “ترمیمی ایکٹ کے سیکشن 15 کی شق 2اور 3 کے تحت یہ اختیار تاحال یونیورسٹی سینیٹ کے پاس ہے تاہم ترمیمی ایکٹ کے بعد اب یونیورسٹی سینیٹ کا چیئرمین حاضر سروس جج کے بجائے وزیر اعلی سندھ ہیں۔

ایکٹ میں وائس چانسلر کے انتخاب سے متعلق سیکشن 15 کی دیگر شقیں جہاں چانسلر کے الفاظ استعمال ہورہے تھے وہاں چیف منسٹر کے الفاظ سے تو تبدیل کردیا گیا اور کچھ شقوں کو ختم بھی کردیا گیا تاہم وائس چانسلر کے انتخاب سے متعلق سیکشن 15 کی دونوں شقوں 2 اور 3 میں کسی قسم کی ترمیم نہیں کی گئی ان دونوں شقوں کو آئی بی اے سکھر کے ایکٹ 2017 کے مطابق ہی چھوڑ دیا گیا جس کے مطابق آئی بی اے کی سینیٹ خود اپنی تلاش کمیٹی تشکیل دے گی اور یہ تلاش کمیٹی وائس چانسلر کا انتخاب کرے گی۔

واضح رہے کہ آئی بی اے کراچی سمیت سندھ کے باقی تمام سرکاری جامعات میں وائس چانسلر کے تقرر کے لیے موزوں امیدوار کا انتخاب کنڑولنگ اتھارٹی وزیر اعلی سندھ کی جانب سے قائم کردہ تلاش کمیٹی کرتی ہے۔

“ایکسپریس” کو معلوم ہوا ہے کہ منگل آئی بی اے کے قائم مقام وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر میر محمد شاہ کی تقرری کا نوٹیفکیشن جاری ہوا تو اس کے ساتھ ہی ساتھ وزیر اعلی سندھ نے آئی بی اے سکھر کے نئے مستقل وائس چانسلر کے انتخاب کے لیے اشتہار جاری کرنے کی منظوری بھی دے دی تاہم حکومت سندھ کا محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز اس مشکل سے نہیں نکل پارہا کہ ایکٹ میں موجود طریقہ کار کے مطابق اشتہار کس طرح جاری کیا جائے اور سندھ حکومت اس مخمصے کا شکار ہے کہ آخر کس طرح صوبے کی دیگر جامعات کے لئے رائج طریقہ کار کے برعکس آئی بی اے سکھر میں علیحدہ طریقہ کار کے تحت وائس چانسلر کا تقرر کیا جائے کیونکہ اس طریقہ کار سے تقرری کے عمل کی شفافیت پر سوالات اٹھ سکتے ہیں ڈاکٹر میر محمد شاہ کی بحیثیت قائم مقام وائس چانسلر تقرری کا جو نوٹیفکیشن محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز نے جاری کیا ہے اس میں کہا گیا ہے کہ مستقل وائس چانسلر کا تقرر سرچ کمیٹی کے ذریعے ہوگا تاہم معلوم ہوا ہے کہ اب سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈز ریاض الدین خود اس الجھن کا شکار ہیں کہ آخر حکومت سندھ کی سرچ کمیٹی آئی بی اے سکھر کے وائس چانسلر کا انتخاب کس طرح کرے گی۔

” ایکسپریس” کو آئی بی اے سکھر کے ترمیمی ایکٹ 2018 کے حوالے سے ملنے والی معمولات کے مطابق سیکشن 15 کی شق 2 میں وائس چانسلر کے انتخاب اور تقرر کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ وائس چانسلر کے انتخاب کے لیے سینیٹ تلاش کمیٹی قائم کرے گی اور سینیٹ کے چیئرمین اس کمیٹی کی رکنیت کے لیے دو ممتاز شخصیت کو نامزد کرے گا ان دو شخصیات میں سے کوئی ایک اس تلاش کمیٹی کا کنوینر بھی ہوگا مزید براں مزید اراکین کے لیے ایکٹ میں بتایا گیا ہے کہ کمیٹی کے مزید دو اراکین سینیٹ ہی سے لیے جائیں گے جبکہ دو ممتاز اساتذہ آئی بی اے سکھر ہی سے لیے جائیں گے تاہم یہ دونوں ہی اساتذہ سینیٹ کے رکن نہیں ہونگے تلاش کمیٹی کے لیے 7واں اور آخری رکن کوئی ماہر تعلیم ہوگا جو آئی بی اے سکھر کا ملازم نہ ہو اس طرح 7 رکنی اس تلاش کمیٹی کے آدھے سے زیادہ یعنی 4 اراکین کا تعلق آئی بی اے سکھر سے ہی ہوگا۔

علاوہ ازیں سیکشن 15 کی شق 3 کے مطابق سینیٹ جن دو یونیورسٹی اساتذہ کا انتخاب تلاش کمیٹی کے لیے کرے گی ان اساتذہ کے نام یونیورسٹی کے اساتذہ ہی تجویز کریں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔