نئے ٹیلنٹ کی نرسریاں پامال ہونے کا خدشہ

عباس رضا  اتوار 27 ستمبر 2020
ڈومیسٹک کرکٹ سٹرکچر کا عبوری دور کب ختم ہوگا؟ فوٹو: فائل

ڈومیسٹک کرکٹ سٹرکچر کا عبوری دور کب ختم ہوگا؟ فوٹو: فائل

کرکٹ کو محدود کر کے قوم کو بے پناہ ٹیلنٹ کی تلاش کا خواب دکھانے والا پی سی بی مسلسل ’’تبدیلی‘‘ کے سفر پر گامزن ہے۔

ہیڈکوچ و چیف سلیکٹر مصباح الحق، ٹیسٹ کپتان اظہر علی اور آل راؤنڈر محمد حفیظ نے وزیراعظم اور بورڈ کے پیٹرن عمران خان سے ملاقات میں ڈپارٹمنٹل کرکٹ کی بحالی کا کیس پیش کیا اور ناکام ہو کر واپس آ گئے، میٹنگ میں موجود پی سی بی کے چیئرمین احسان مانی اور چیف ایگزیکٹو وسیم خان نے بے روزگار کرکٹر سے اظہار ہمدردی یا کوئی لائحہ عمل دینے کے بجائے سب اچھا ہے کی رپورٹ دی۔

وزیراعظم نے کرکٹرز کو اچھی طرح ’’سمجھا‘‘ دیا، دوسری طرف یہ ملاقات مصباح الحق اور اظہر علی کے گلے پڑ گئی، پی سی بی کا تنخواہ دار ہونے کے باوجود پیٹرن سے میٹنگ طے کرنے پر انہیں وضاحت پیش کرنا پڑ گئی۔

بہرحال یہ تو پی سی کے بڑوں کا آپس میں معاملہ ہے، چند سوال جواب ہونگے اور قصہ ختم ہو جائے گا، مسئلہ تو ان سیکڑوں کرکٹرز کا ہے جو بے روزگار ہو چکے یا ہونے والے ہیں،اپنے مستقبل کو محفوظ سمجھتے ہوئے یکسوئی کے ساتھ کرکٹ کھیلنے والے نوجوانوں میں سے اگر کسی کو پی سی بی کی جانب سے کنٹریکٹ مل بھی گیا ہے تو غیر یقینی کی کیفیت ختم نہیں ہوئی، مسلسل ایک تلوار سر پر لٹک رہی ہے کہ ذرا سی بھی اونچ نیچ ہوئی تو اگلے سال بے روزگاری مقدر بن جائے گی،حیرت کی بات یہ ہے کہ دوسرے سیزن میں بھی 6 ایسوسی ایشنز کی ٹیمیں بن گئیں،انڈر19 کے ٹرائلز بھی ہوگئے لیکن کلبز سمیت جن نرسریوں سے ٹیلنٹ آتا وہاں سرگرمیاں معطل ہیں،نوجوان نسل مواقع کو ترس رہی ہے۔

دوسری جانب پہلے سے دستیاب پول میں شامل کھلاڑیوں کو مختلف ٹیموں کا حصہ بنایا یا پھر بے روزگاری کیمپ کا راستہ دکھایا جا رہا ہے،ایسوسی ایشنز کی ٹیموں کے انتخاب میں بھی کوچز نے کئی کمال کے فیصلے کیے، نوجوان پرفارمرز نظر انداز ہوئے یا پھر سیکنڈ الیون سکواڈز کا حصہ بنا دیے گئے، دوسری جانب کئی عمر رسیدہ کرکٹرز کو کیریئر عروج کی طرف گامزن رکھنے کا سنہری موقع فراہم کر دیا گیا، ٹی ٹوئنٹی کو نوجوانوں کا فارمیٹ قرار دیا جاتا ہے لیکن 30 ستمبر سے ملتان میں شروع ہونے والے قومی ٹورنامنٹ میں بزرگ کرکٹرز کی بڑی تعداد اپنا مستقبل روشن کرتی نظر آئے گی۔

دوسری جانب پی سی بی کا نیا آئین اور ڈومیسٹک اسٹرکچر متعارف کروائے ایک عرصہ گزر گیا، صوبائی ایسوسی ایشنز صرف اس حد تک فعال ہیں کہ دوسرے سیزن میں بھی کوچز کا تقرر ہوا، پہلے سے دستیاب پول میں سے فرسٹ اور سیکنڈ الیون کے سکواڈز کا انتخاب ہوا، صوبائی ایسوسی ایشنز کا نظام بدستور پی سی بی کے اپنے ہاتھ میں ہے،گراس روٹ پر سرے سے کوئی سسٹم ہی موجود نہیں، نوجوان کرکٹرز کو صلاحیتوں کے اظہار کے لیے کوئی پلیٹ فارم میسر نہیں، کلب کی رجسٹریشن کے لیے پیچیدہ طریقہ کار متعارف کروا دیا گیا ہے، ضلعی سطح پر تنظیم سازی کاعمل رکا ہوا ہے۔

صوبائی ایسوسی ایشنز کا آئینی حیثیت میں فعال ہونا تو ایک طرف ابھی تک عبوری کمیٹیز کا اعلان تک نہیں کیا جا سکا، گذشتہ کئی دہائیوں میں پاکستان کو درجنوں نامور انٹرنیشنل کرکٹرز دینے والے ریجنز اور ڈیپارٹمنٹس پی سی بی کی نظروں میں ایک فضول مشق قرار پائے ہیں، دوسری جانب ان کے نمائندے بدستور گورننگ بورڈ میں موجود ہیں، پی سی بی کا موقف ہے کہ آئین کے مطابق نئی باڈی تشکیل دیے جانے تک یہ ارکان کام کر سکتے ہیں، ایسوسی ایشنز کے نمائندے منتخب ہونے کے بعد ان میں سے 3کو گورننگ بورڈ میں شامل کرکے نئی باڈی فعال کر دی جائے گی۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں کھیلوں کی تنظیموں میں من پسند فیصلے مسلط کرنے کے لیے ایڈہاک ازم کا سہارا لینے کی روایت رہی ہے، ہاکی میں کئی بار ایسا ہو چکا، فٹ بال اب بھی نارملائزیشن کمیٹی کے تحت میٹھی نیند سو رہا ہے، کرکٹ میں اعلیٰ عہدے داروں کی کرسیاں مضبوط ہیں، کسی سیاسی مداخلت کا خطرہ ہے، نہ اندرونی اختلاف کسی پریشانی کا باعث بن سکتا ہے، اس کے باوجود ایک عرصہ سے صوبائی ایسوسی ایشنز کو عبوری انتظامات کے تحت چلایا جا رہا ہے، پی سی بھی کے مختلف شعبوں کے سربراہان اسلام آباد اور نتھیا گلی میں 5سالہ پلان کے حوالے سے طویل سلسلہ مشوروں میں مصروف رہے۔

تفصیلی گفتگو کی کوئی تفصیل باقاعدہ طور پر تو سامنے نہیں آ سکی مگر ذرائع کا کہنا ہے کہ عبوری کمیٹیز جلد تشکیل دینے کے لیے پیش رفت کی جا رہی ہے،یہ صرف پہلا قدم ہوگا، ایسوسی ایشن کے تحت پوری ملکی کرکٹ کو فعال بنانے کے لیے ایک مربوط سسٹم درکار ہے،جس سست روی سے کام کیا جا رہا ہے، اس کو دیکھتے ہوئے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ چیئرمین پی سی بی احسان مانی اور چیف ایگزیکٹو وسیم خان کے عہدوں کی مدت پوری ہونے پر بھی تشکیل نو کا یہ مشن جاری ہوگا۔

قومی ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ کے لیے سلیکشن پر اعتراضات کے باوجود چند ایسے کرکٹرز ضرور موجود ہیں جن کی کارکردگی پر نظر رکھی جا سکتی ہے، ڈومیسٹک ایونٹ سے سامنے آنے والے نئے ٹیلنٹ میں سے چند کھلاڑیوں کو زمبابوے کی کمزور ٹیم کے خلاف موقع دے کر مستقبل کے لیے تیار کیا جا سکتا ہے، اس کے لیے بہتر ہوگا کہ کپتان بابر اعظم کے سوا جن سینئر کرکٹرز کی قومی ٹیم میں پوزیشن مستحکم ہے ان کو آرام دے کر نئے کھلاڑیوں کو آزمایا جائے، کوئی متبادل کھلاڑی امیدوں پر پورا نہیں اترتا تو سینئر پہلے سے ہی موجود ہو گا،اگر ایک دم نہیں تو ہر میچ میں 2 یا 3 میں کھلاڑیوں کو موقع دیا جاسکتا ہے، سینئرز کی عدم موجودگی میں بغیر کسی مشورے کے قیادت کرنے سے بابر اعظم کو بھی تجربہ اور اعتماد حاصل ہوگا۔

زمبابوے کے بعد پاکستان ٹیم نے نیوزی لینڈ کے خلاف مشکل سیریز کھیلنا ہے، اس سے قبل درست کمبی نیشن بنانے کے لیے تجربات میں کوئی مضائقہ نہیں، خوش آئند بات یہ ہے کہ جنوبی افریقہ نے بھی جنوری میں دورہ پاکستان کے لیے حامی بھر لی ہے، ایک عرصہ بعد کسی بڑی ٹیم کی آمد سے مستقبل میں انگلینڈ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کا بھی ٹور کے لیے حوصلہ جوان ہو گا، پی سی پی ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کا عمل جاری رکھنے کا کریڈٹ ضرور لے لیکن اس میں زیادہ کردار پاکستان کی سیکورٹی فورسز خاص طور پر فوج کا ہے جس نے نہ صرف کے ملک سے دہشت گردوں کا صفایا کیا بلکہ پی ایس ایل اور ورلڈ الیون میچز کے بعد ویسٹ انڈیز، سری لنکا اور بنگلہ دیش کی میزبانی کے دوران بھی متعلقہ اداروں کو بھرپور سپورٹ فراہم کی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔