- جنوبی افریقا میں ایسٹر تقریب میں جانے والی بس پل سے الٹ گئی؛ 45 ہلاکتیں
- پاکستانی ٹیم میں 5 کپتان! مگر کیسے؟
- پختونخوا کابینہ؛ ایک ارب 15 کروڑ روپے کا عید پیکیج منظور
- اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی رہنما کو عمرے پرجانے کی اجازت دے دی
- وزیر اعظم نے مشترکہ مفادات کونسل کی تشکیل نو کر دی
- پنجاب گرمی کی لپیٹ میں، آج اور کل گرج چمک کیساتھ بارش کا امکان
- لاہور میں بچے کو زنجیر سے باندھ کر تشدد کرنے کی ویڈیو وائرل، ملزمان گرفتار
- پشاور؛ بس سے 2 ہزار کلو سے زیادہ مضر صحت گوشت و دیگر اشیا برآمد
- وزیراعلیٰ پنجاب نے نوازشریف کسان کارڈ کی منظوری دے دی
- بھارتی فوجی نے کلکتہ ایئرپورٹ پر خود کو گولی مار کر خودکشی کرلی
- چائلڈ میرج اور تعلیم کا حق
- بلوچستان؛ ایف آئی اے کا کریک ڈاؤن، بڑی تعداد میں جعلی ادویات برآمد
- قومی ٹیم کی کپتانی! حتمی فیصلہ آج متوقع
- پی ایس 80 دادو کے ضمنی انتخاب میں پی پی امیدوار بلامقابلہ کامیاب
- کپتان کی تبدیلی کیلئے چیئرمین پی سی بی کی زیر صدارت اہم اجلاس
- پاکستان کو کم از کم 3 سال کا نیا آئی ایم ایف پروگرام درکار ہے، وزیر خزانہ
- پاک آئرلینڈ ٹی20 سیریز؛ شیڈول کا اعلان ہوگیا
- برج خلیفہ کے رہائشیوں کیلیے سحر و افطار کے 3 مختلف اوقات
- روس کا جنگی طیارہ سمندر میں گر کر تباہ
- ہفتے میں دو بار ورزش بے خوابی کے خطرات کم کرسکتی ہے، تحقیق
’کورونا ویکسین انہیلر‘ وائرس کیخلاف زیادہ مہلک ہتھیار ہے، سائنسدانوں نے سر جوڑ لیے
کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ-19 کی ویکسین کی تیاری آخری مراحل میں ہیں جو عام ویکسین کی طرح مریضوں کے بازو میں لگائی جائے گی لیکن سائنس دان ویکسین کو ’انہیلر‘ کی شکل میں بھی لانے پر غور کر رہے ہیں جو زیادہ موثر ثابت ہوسکتی ہے۔
برمنگھم کی الاباما یونیورسٹی کے امیونولوجسٹ اور بائیوٹیک الٹیمیون کے ساتھ ویکسین پر کام کرنے والے فرانسس لُند اور واشنگٹن یونیورسٹی کے انفیکشن ڈیزیز کے ماہر مائیکل ڈائمنڈ کچھ الگ سوچ رہے ہیں۔ یہ ویکسین کو بازو کے بجائے منہ اور ناک کے ذریعے انہیل کرنے کے حامی ہے۔
ڈائمنڈ مائیکل کا دعویٰ ہے کہ اگست میں کی گئی چوہوں پر تحقیق سے یہ نتائج سامنے آئے ہیں کہ کورونا ویکسین کو منہ اور ناک کے ذریعے دیا جائے تو وہ زیادہ موثر ہوتی ہے کیوں کہ کورونا وائرس منہ اور ناک میں ہی جائے پناہ ڈھونڈتا ہے۔ اس سے وائرس کے جسم میں پھیلاؤ کو روکا جا سکتا ہے۔
انسانی جانچ میں زیادہ تر ویکسین کی تاثیر کو دیکھنے کے لیے بازوؤں پر دو شاٹس کی ضرورت ہوتی ہے تاہم ویکسین ڈویلپرز کو ابھی تک اس بات کا یقین نہیں ہے کہ وہ سانس لینے کے اعضا کے راستے جسم میں پھیل جانے والے وائرس کے خلاف بہتر مدافعتی ردعمل پیدا کرسکیں گے۔
اس حوالے سے بائیوٹیک الٹیمیمون انکارپوریشن کے ساتھ کام کرنے والے برمنگھم کی الاباما یونیورسٹی کے محقق فرانسس لُند نے کہا وہ ویکسین جو وائرس کے جسم میں داخلی راستوں میں ہی کارگر ثابت ہو اُس ویکسین کے مقابلے میں زیادہ فائدہ مند ہوسکتی ہے جو صرف جسم میں داخل ہوجانے والے وائرس پر کارگر ہوتی ہیں۔
اسی طرح واشنگٹن کے ماہر انفیکشن ڈیزیز مائیکل ڈائمنڈ کا کہنا ہے کہ ابتدائی ویکسین تیار کرنے والے بازو میں لگنے والے انجیکشن کو ترجیح دیتے ہیں تاہم سانس لینے والی ویکسین (انہیلر) بنانے والے پھیپھڑوں، ناک اور گلے کی کچھ انوکھی خصوصیات پر اعتماد کر رہے ہیں جو میوکوسا کے ساتھ جڑی ہیں اور جس میں اعلی سطح کے مدافعتی پروٹین ہوتے ہیں جسے آئی جی اے کہا جاتا ہے اور جو سانس کے ذریعے جسم میں داخل ہونے والے وائرس سے بہتر تحفظ فراہم کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ کورونا وائرس ناک اور منہ کے ذریعے داخل ہوتا ہے اور پہلا پڑاؤ گلے پر ڈالتا ہے اور پھر وہاں سے پھیپھڑوں کی جانب بڑھتا ہے اور گلے سے نیچے اترنے سے پہلے ہی اسے مار دیا جائے تو وائرس کے جسم میں پھیلاؤ کے امکانات کم ہوسکتے ہیں اور یہ کام بازو میں لگنے والے انجکشن کے بجائے انہیلر زیادہ بہتر کرسکتے ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔