شاپ اسسٹنٹ سے وزیراعظم بننے تک

سید عاصم محمود  اتوار 8 نومبر 2020
عام آدمی کی فلاح وبہبود کو مشنِ زندگی بنا لینے والی کیوی سیاست داں کا ولولہ انگیز قصہ ۔  فوٹو : فائل

عام آدمی کی فلاح وبہبود کو مشنِ زندگی بنا لینے والی کیوی سیاست داں کا ولولہ انگیز قصہ ۔ فوٹو : فائل

میدان میں ہزار ہا لوگ جمع تھے۔ ان میں مسلمان تھے‘ عیسائی اور یہود بھی۔ یہ سبھی کرائسٹ چرچ‘ نیوزی لینڈ کی دو مساجد میں شہید ہونے والے مسلمانوں کو یاد کرنے اور ان کا غم منانے جمع ہوئے تھے۔

کچھ دیر بعد وزیراعظم نیوزی لینڈ‘ جیسنڈا آرڈن وہاں نمودار ہوئیں۔ سیاہ لباس میں ملبوس تھیں۔ چہرے  پر حزن و ملال تھا۔ باوقار انداز میں قدم اٹھاتے مائک کے قریب پہنچیں اور دکھ میں ڈوبی آواز میں حاضرین کو مخاطب کیا:’’اسلام علیکم! حضرت محمد ﷺ کا فرمان ہے کہ تمام ایمان والے آپس میں پیار و محبت‘ رحم و شفقت اورمہربانی برتنے میں ایک جسم کی مثال رکھتے ہیں۔اگر ایک بھی عضو بیمار ہو جائے تو سارا جسم درد محسوس کرتا ہے۔ نیوزی لینڈ بھی آپ (مسلمانوں کے) دکھ و غم میں شریک ہے۔ ہم سب ایک ہیں۔‘‘

کیوی وزیراعظم نے یوں واشگاف الفاظ میں دنیا والوں کو پیغام دیا کہ اسلام کوئی ’’غیر مذہب‘‘ نہیں اور نہ ہی ’’حملہ آور‘‘ ہے۔ درحقیقت اسلام نیوزی لینڈ ہے اور تمام مسلمان یہاں کے باسی ہیں۔15 مارچ 2019ء کی سہ پہر ایک انتہا پسند سفید فام نے کرائسٹ چرچ کی دو مساجد میں نہایت بے رحمی سے گولیاں مار کر اکیاون مسلمان شہید کر ڈالے تھے۔

ان میں نو پاکستانی‘ سات بھارتی اور پانچ بنگلہ دیشی شامل تھے۔ اس قتل عام کے بعد جیسنڈا آرڈن  بطور مثالی حکمران  سامنے آئیں۔انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کرتے ہوئے اسلامی لباس زیب تن کیا اور سر پر حجاب لیا۔ جن کے پیارے بچھڑ گئے تھے ‘ انہیں تسلی دی‘ دلجوئی کی اور سہارا دیا۔ وہ مساجد اور ماتمی محفلوں میں گئیں اور تلاوت قرآن نہایت ادب و احترام سے سنتی رہیں۔

گفتاروعمل سے جیسنڈا فرانسیسی صدر،ایمانویل میکرون سے بالکل مختلف نظر آتی ہیں۔میکرون آزادی ِاظہار کا جھنڈا بلند لیے گستاخان ِرسول اللہﷺ کی حمایت کرنے لگا۔جبکہ جیسنڈا نے مساجد پر حملہ آور کا نام تک لینے سے انکار کیا۔انھوں نے بہ بانگ دہل کہا کہ وہ کوئی ذہنی مریض یا پاگل نہیں دہشت گرد ہے۔اس سچائی سے عیاں ہے کہ جیسنڈا آرڈن کو آزادی ِرائے کی حدود کا بخوبی اداراک ہے۔

حقیقی حکمران

جیسنڈا آرڈن نے مسلم کمیونٹی سے جس بے مثال ہمدردی‘ الفت‘ غم خواری کا اظہار کیا‘ اس سے مسلمانان عالم بہت متاثر ہوئے۔ کیوی وزیراعظم نے محض شفقت ہی نہ دکھائی بلکہ نیوزی لینڈ میں مسلمانوں کو محفوظ بنانے کی خاطر عملی اقدامات بھی کیے۔ ان کے حکم پر تمام مساجد کی سکیورٹی بڑھا دی گئی۔

نیز انہی کی کوششوں سے پارلیمنٹ میں ایسے نئے قوانین منظور ہوئے جنہوںنے اسلحہ خریدنا بہت مشکل بنا دیا۔ بڑی گنوں کی خرید و فروخت ممنوع قرار پائی۔وزیراعظم نے دیگر تقاریر میں بھی قران وحدیث سے حوالے دئیے جس سے عیاں ہے،انھوں نے اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کیا ہے جن کے مطابق حقیقی حکمران وہ ہے جو ذاتی مفادات نہیں عوام کی فلاح وبہبود کو مقدم رکھے۔جیسنڈا اس معیار پر پوری اترتی ہیں۔

کیوی وزیراعظم سادگی پسند اور غروروتکبر سے عاری حکمران ہیں۔دارالحکومت میں ایک عام سے گھر میں رہتی ہیں۔گھر کے بیشتر کام خود کرتی ہیں۔وی آئی پی کلچر چھو کر بھی نہیں گذرا۔سرکاری اسپتال سے علاج کراتی ہیں۔ان کی بچی بھی سرکاری اسکول میں تعلیم پائے گی۔آگے پیچھے گاڑیوں اور گارڈوں کا کوئی جلوس نہیں ہوتا کیونکہ انھیں عوام سے کوئی خطرہ نہیں،وہ ان میں گھل مل کر رہنا چاہتی ہیں ۔جیسنڈا کہتی ہیں:’’میری زندگی کا مشن دوسرے انسانوں کی مدد کرنا ہے۔‘‘پاکستانی سیاست دانوںکو ان کی داستان حیات کا مطالعہ کرنا چاہیے۔

مارچ 2020ء سے جیسنڈا آرڈن نئے امتحان میں مبتلا ہو گئیں۔ اس بار کوویڈ19نے نیوزی لینڈ پر دھاوا بول دیا۔ انہوںنے فوراً مملکت میں سخت لاک ڈاؤن لگا ڈالا۔ کسی کو بلا ضرورت گھر سے نکلنے کی اجازت نہ دی۔ اس سے عام لوگوں کو نقل و حرکت میں پریشانی تو ہوئی مگر مثبت نتیجہ یہ نکلا کہ مملکت میں وبا کا وائرس نہ پھیل سکا۔

تادم تحریر نیوزی لینڈ میں صرف 1887 مریض سامنے آئے ہیں۔ یہ  ترقی یافتہ ممالک میں مریضوں کی کم ترین تعداد ہے۔ نیز سخت لاک ڈاؤن کے باعث وبا صرف25 کیوی باشندوں کو ہلاک کر سکی۔ وبا پر قابو پانے کے لیے وزیراعظم جیسنڈا کے اقدامات کو بین الاقوامی سطح پر سراہا گیا۔

جیسنڈا آرڈن اکتوبر 2017ء میں وزیراعظم منتخب ہوئی تھیں۔ انہوں نے عوام دوست پالیسیاں تشکیل دینے اور بہترین انتظام حکومت (گڈ گورننس) کرنے سے اپنا انتخاب درست ثابت کر دیا۔ اپنی فکر و عمل سے اہل دنیا کو دکھایا کہ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ایک حکمران کو کس قسم کے عملی قدم اٹھانے چاہیں۔

عوام کی بھلائی و بہتری پر کمر بستہ رہنے کا نتیجہ ہے کہ حالیہ پارلیمانی الیکشن میں کیوی وزیراعظم کی جماعت، لیبر پارٹی کو تاریخی و فقید المثال کامیابی نصیب ہوئی۔اس نے تمام حریف سیاسی جماعتوں کو پچھاڑ دیا۔ 2017ء میں جیسنڈا نے کم سیٹوں کے باعث مجبوراً اتحادیوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائی تھی۔ اب نصف سے زائد نشستیں جیت کر تنہا حکومت بنا سکتی ہیں۔ لیبر پارٹی کو یہ یادگار فتح جیسنڈا آرڈن کی گڈ گورننس‘ عوام دوستی اور متحرک شخصیت کے سبب ہی نصیب ہوئی۔ آج نیوزی لینڈ ہی نہیں دنیا کہ مقبول ترین عوامی حکمرانوں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔

جیسنڈا آرڈن عام آدمی کے مسائل‘ تکالیف اور دکھ درد کو سمجھتی اور انہیں حل کرنے کی سعی کرتی ہیں۔ وہ مسلسل عوام الناس سے رابطہ رکھتی ہیں تاکہ ان کے مسائل سے آگاہ رہیں۔ یہ بہت بڑی خوبی اکثر حکمرانوں میں نہیں پائی جاتی۔ حتی کہ بظاہر عوامی رہنما بھی ایوان اقتدار میں پہنچتے ہی چند سال بعد عیش و عشرت کی فضا میں رچ بس کر عوام سے کٹ جاتے ہیں۔ فی الوقت جیسنڈا آرڈن اس علت کا شکار نہیں ہوئیں۔ وجہ شاید یہ  کہ وہ خودا بھی ایک عام گھرانے اور  متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہیں۔مگر اپنی صلاحیتوں اور خوبیوں کے باعث انھوں نے دنیا میں اعلی مقام حاصل کر لیا۔

زندگی کا سفر

کیوی وزیراعظم 26 جولائی 1980ء کو ہملٹن شہر میں پیدا ہوئیں۔ وہاں ان کے والد بطور پولیس سپاہی تعینات تھے۔ والدہ باورچن تھیں۔ وہ عموماً اسکولوں کی کینٹین  میں ملازمت کر کے کھانے وغیرہ پکاتیں۔ جیسنڈا کا لڑکپن اور نوجوانی ایک قصبے ‘مورنزویل میں گزری۔ یہ قصبہ دودھ کی پیداوار کے لیے مشہور ہے۔ جب  ہائی سکول میں زیرتعلیم تھیں‘ تو انہوں نے فاسٹ فوڈ کی ایک دکان ‘ گولڈن کیوی میں بطور شاپ اسسٹنٹ ملازمت کر لی۔ وہ اپنے اخراجات کے لیے خود کمائی کرنا چاہتی تھیں۔

زمانہ طالب علمی ہی میں وہ سیاست میں دلچسپی لینے لگیں۔ مقصد یہ تھا کہ اپنی صلاحیتیں دوسروں کی مددکرنے میں کام آ سکیں۔ نظریاتی طور پر وہ ’’سوشل ڈیموکریسی‘‘ نظریے سے متاثر ہیں۔اس نظریے پہ عمل پیرا سوشلسٹ جمہوریت کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے سیاسی سرگرمیاں انجام دیتے ہیں۔ وہ سرمایہ داری کے زیادہ مخالف نہیں ہوتے مگر جیسنڈا اس نظام کی شدید مخالف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس معاشی نظام نے دنیا میں امرا کو زیادہ امیر بنا دیا جبکہ غریبوں کو غربت سے نہیں نکال سکا۔ وہ بادشاہت کی بھی مخالف ہیں۔ اسی باعث نیوزی لینڈ کو جمہوریہ بنانے کی متمنی ہیں۔

مورنزویل کالج میں جیسنڈا 1995ء تا1998ء زیر تعلیم رہیں اور انٹر کیا۔ دلچسپ یہ کہ تب سے جان انگرکالج پرنسپل چلے آ رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں : ’’ جیسنڈا ایک ذہین‘ مہذب‘ خوش مزاج اور سب سے دوستی رکھنے والی لڑکی تھی۔ وہ شراب کو ہاتھ تک نہ لگاتی اور دوسروں کی مدد کرنے کے لیے تیار رہتی۔‘‘ کالج میں روایت تھی کہ خاتمہ تعلیم کے بعد سبھی طالب علم ایک دوسرے کے متعلق پیشن گوئی کرتے تھے کہ وہ مستقبل میں کیا بنیں گے۔ جیسنڈا کے متعلق بیشتر ساتھی طلبہ نے پیشن گوئی کی… ’’وہ وزیراعظم بن جائیں گی۔‘‘

بچپن سے جیسنڈا ذمے دار تھیں۔ وہ اپنے والدین پر مالی بوجھ نہیں ڈالنا چاہتی تھیں۔ اسی باعث انہوں نے گولڈن کیوی میں ملازمت کر لی۔ جبکہ ان کی سہیلیاں کھیل کود میں مصروف ہوتیں‘ تو وہ فاسٹ فوڈ شاپ میں گاہکوں کو تلی مچھلی و چپس پیش کرتیں۔ شاپ میں آنے والے گاہک آج بتاتے ہیں کہ جیسنڈا رحم دل لڑکی تھیں۔ ہر کسی سے حال چال پوچھتیں اور ان سے باتیں کرتیں ۔حقیقت یہ ہے کہ شاپ میں ملازمت کرنے سے جیسنڈا لوگوں کے قریب ہونے اور دل جیتنے کا فن سیکھ گئیں۔

جیسنڈا نظریاتی طور پر لیبر پارٹی کے قریب تھیں۔ صرف سترہ برس کی عمر میں وہ پارٹی کی رکن بن گئیں۔ ساتھ ساتھ تعلیم بھی جاری رکھی۔ 2001ء میں وایکاٹو یونیورسٹی سے انہوں نے سیاسیات اور بین الاقوامی امور میں گریجویشن کی۔ جلدہی انہیںنیوزی لینڈ کی پہلی منتخب خاتون وزیراعظم‘ ہیلن کلارک کے دفتر میں بطور محقق ملازمت مل گئی۔بعدازاں وہ امریکا گئیں اور وہاں سوشلسٹ تنظیموں میں کام کیا۔ غریبوں کے لیے قائم کردہ باورچی خانے میں کھانے پکائے۔ پھر لندن کا رخ کیا اور وزیراعظم ٹونی بلیئر کی مشیر رہیں۔ ان معاشرتی و سیاسی سرگرمیوں نے جیسنڈا کو کم عمری ہی میں قیمتی تجربات سے آشنا کرا دیا اور وہ ایک غیر معمولی انسان بننے لگیں۔

پارلیمنٹ میں داخلہ

2008ء میں لیبر پارٹی نے انہیں آبائی علاقے‘ وایکاٹو کی نشست  پر کھڑا کر دیا۔ چنانچہ جیسنڈا واپس نیوزی لینڈ چلی آئیں۔ وایکاٹو میں قدامت پسند جماعت‘ نیشنل پارٹی کا زور تھا۔ اسی باعث وہ الیکشن ہار گئیں۔ مگر نیوزی لینڈ کے انتخابی نظام میں 49 نشستیں پارٹیوں کے حاصل کردہ ووٹوں کی بنیاد پر تقسیم ہوتی ہیں۔ اسی نظام کے ذریعے جیسنڈا پہلی بار کیوی پارلیمنٹ میں پہنچ گئیں۔ وہ تب کم عمر ترین پارلیمنیٹرین تھیں۔

لیبر پارٹی کی قیادت ادھیڑ عمر مردوں کے ہاتھوں میں تھی۔ وہ تجربے کار تو تھے مگر ان میں جوش و جذبہ اور کچھ کر دکھانے کا عزم مفقود تھا۔ اسی واسطے جماعت غیر مقبول ہوتی گئی۔ستمبر2017ء میں اگلے الیکشن ہونے  تھے۔ امکان یہی تھا کہ لیبر پارٹی پھر ہار جائے گی ۔تب جماعت کی سینئر قیادت نے اچانک ایک اہم فیصلہ کیا اور دو ماہ قبل جیسنڈا آرڈن کو پارٹی لیڈر بنا دیا۔

جیسنڈا آرڈن نے فوراً انتخابی مہم چلا دی اور نیوزی لینڈ کے طول و عرض میںطوفانی دورے کیے۔ ان کی جذبات سے بھرپور عوامی تقریروں نے لیبرپارٹی کے مایوس ووٹروں میں جوش و جذبے کی نئی روح پھونک دی۔ جیسنڈا نے انہیں یقین دلایا کہ پارٹی اقتدار سنبھال کر نیوزی لینڈ کو ترقی و خوشحالی کے بلند مقام پر پہنچا سکتی ہے۔ ان کی بہترین تقاریر‘ عوام میں گھل مل جانے کی صلاحیت اور پُرکشش شخصیت نے راتوں رات لیبر پارٹی کو مقبول جماعت بنا دیا اور اس پر چھائے تاریک بادل چھٹ گئے۔

الیکشن 2017ء میں پارٹی زیادہ نشستیں نہ جیت سکی مگر جیسنڈا کی مفاہمتی پالیسی پھر فتح یاب ہوئی۔ انہوں نے دو چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ مل کر حکومت بنا لی اور وزیراعظم بن گئیں۔اتحادی حکومت ہوتے ہوئے بھی جیسنڈا نے عمدہ گورننس دکھائی اور عوام کا اعتماد پانے میں کامیاب رہیں۔ آج نئے الیکشن میں شاندار کامیابی پا کر ان کے دوسرے دور حکمرانی کا آغاز ہو چکا۔

جیسنڈا نے 2016ء میں امریکی صدر ٹرمپ کے خلاف خواتین مارچ پاسٹ میں شرکت کی تھی۔ وہ فلسطینیوں کی حامی ہیں۔ چاہتی ہیں کہ آزاد فلسطینی ریاست وجود میں آئے۔ انسان ہونے کے ناتے ان میں خامیاں بھی  ہیں۔ تاہم بطور حکمران وہ عام آدمی کے لیے عمدہ ثابت ہوئیں۔حکمرانی نے انہیں مغرور نہیں بنایا۔ نیز کرپشن سے بھی کوسوں دور ہیں۔

امید ہے آنے والے برسوں میں بھی وہ حق وانصاف کا پرچم تھامے اندرون و بیرون ملک دکھی انسانیت کی خدمت کرتی رہیں گی۔کیوی عوام اپنی اس سیلف میڈ سیاست داں سے بہت محبت کرتے اور انھیں عزت واحترام دیتے ہیں۔جیسنڈا نے دنیا والوں کو دکھا دیا کہ ایک حکمران کی اصل طاقت محبت،رحم دلی،ہمدردی،امن،ایثار وقربانی،اتحاد ویک جہتی اور عزت واحترام ہیں…نفرت،سنگدلی،ظلم،دشمنی،جنگ،سازشیں،تقسیم،اقتدار وپیسے کی ہوس اور دیگر منفی عوامل نہیں!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔