بھارت آمرانہ اور ظالمانہ مستقبل کی جانب بڑھ رہا ہے، دی اکانومسٹ

اسٹاف رپورٹر  اتوار 29 نومبر 2020
دہلی پولیس نے حکومتی پُشت پناہی میں شہریت ترمیمی ایکٹ 2019 کے خلاف مظاہروں کے دوران مسلمانوں پر شدید مظالم ڈھائے جس پر عدلیہ خاموش تماشائی بنی رہی۔ (فوٹو، فائل)

دہلی پولیس نے حکومتی پُشت پناہی میں شہریت ترمیمی ایکٹ 2019 کے خلاف مظاہروں کے دوران مسلمانوں پر شدید مظالم ڈھائے جس پر عدلیہ خاموش تماشائی بنی رہی۔ (فوٹو، فائل)

 لندن: بین الاقوامی ہفت روزہ میگزین دی اکانومسٹ نے اپنی رپورٹ میں بھارت میں جمہوریت اور ریاستی اداروں کی تباہی کو بے نقاب کردیا ہے۔

جریدے نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ حال ہی میں بھارتی حکومت کے وزراء نے ایک متنازعہ بھارتی صحافی ارنب گوسوامی کی ضمانت منظور کروائی۔ بین الاقوامی معتبر جریدے کے مطابق گوسوامی کیس ہر گز آزادیٔ رائے کی نمائندگی نہیں کرتا۔

جریدے کا کہنا ہے کہ دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ایک آمرانہ اور ظالمانہ مستقبل کی طرف گامزن ہے، جہاں صرف طاقت اور طاقتور کا بول بالا ہے۔

یاد رہے کہ گوسوامی ایک متنازعہ صحافی کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ان کا شکار اکثر بھارت کی متنازعہ حکومتی پالیسی کے نقاد ہو تے ہیں جن کو وہ غدار اور پاکستان کا ایجنٹ قرار دیتے ہیں۔من پسند لوگوں کی حکومتی پُشت پناہی، مودی کے بھارت کا وتیرہ بن چکی ہے۔

مُلک میں 60ہزار سے زائد مقدمات زیرِ التوا ہیں لیکن کٹھ پتلی عدالتیں صرف حکومتی من پسند لوگوں کی پُشت پناہی کرنے میں مصروف ہے۔ ان زیرِ التوا مقدمات میں اکثریت اقلیتی گروہوں سے ہے  جس میں  ایک چوتھائی سے زائد مقدمات وہ ہیں جن میں بے گناہ لوگ 1 سال سے زائد عرصے سے جیل کاٹ رہے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال اگست میں مودی نے کشمیر پر ظالمانہ اور غاصبانہ براہ راست حکمرانی مسلط کی اور ہزاروں بے گناہ کشمیریوں کو حراست میں لیا۔  اس حوالے سے مقدمات کی  سماعت بھارت کی عدالتیں بھول چکی ہیں۔

جریدے نے انکشاف کیا کہ اپنا متنازعہ قانون  جس کے تحت سیاسی جماعتوں کو لامحدود عطیات ملنے کی اجازت دی گئی تھی،اسے  منظور  کرانے کے لیے 2017ء میں مودی نے راجیہ سبھا کے اختیارات کم کروائے۔

علاوہ ازیں اعلی عدلیہ ابھی تک کشمیر کو نظر انداز کیے ہوئے ہے۔ متنازعہ سی اے اے کے خلاف 140سے زائد اپیلوں کی سماعت مسلسل التوا کا شکار ہے۔

ماضی میں بھارتی عدلیہ اور اداروں نے  آزادانہ اور شفاف رویہ اختیار کیا مگر موجودہ حکومت کے اقتدار میں تمام ادارے بشمول عدلیہ بھارت کو یک جماعتی ریاست بنانے میں آلہ کار ثابت ہو رہے ہیں۔بھارت قوم پرستی  کے نشے میں آمریت کی طرف رواں دواں ہے۔ دہلی پولیس نے حکومتی پُشت پناہی میں شہریت ترمیمی ایکٹ 2019 کے خلاف مظاہروں کے دوران مسلمانوں پر شدید مظالم ڈھائے جس پر عدلیہ خاموش تماشائی بنی رہی۔

ایک اور متنازعہ قانون  یو اے پی اے (غیر قانونی سرگرمیوں کے انسداد کے ایکٹ) میں ترمیم کر کے بہت سے مسلمانوں کو دہشت گردی کے الزام میں بھی نشانہ بنایا۔ معلومات کے حصور کے حق سے متعلق قوانین میں ترامیم سے بھی مودی کے غاصبانہ عزائم کا ایک اور ثبوت ہے۔

بین الاقوامی ہفت روزے کے مطابق مودی نے اپنے اقتدار کے دوران قومی اداروں کو سیاسی رنگ میں رنگنے کی بھرپور کوشش کی۔  بی جے پی اور ہندوتوا کے پیروکاروں کو اعلیٰ حکومتی عہدوں سے نوازا جا رہا ہے۔ مودی کے دورِ اقتدار میں بھارتی فوج کو بھی سیاست میں گھسیٹا گیا۔اس کا ثبوت جنرل بپن راوت کی سی ڈی ایس کے عہدے پر ترقی اور اُن کا سیاسی معاملات میں مداخلت بھی ہے۔

کالم کے مطابق مودی نے الیکشن سے پہلے بھی فوج کا سہارا لیا اور لداخ میں چین کے ساتھ تنازعہ کا بھرپور پراپیگنڈا کیا۔ مودی نے بھارتی الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری کو متنازعہ کردیا اور الیکشن کمیشن کے فرض شناس افسران اور اُن کے خاندان کو نشانہ بنایا۔

یہ خبر بھی پڑھیے: بی جے پی حکومت ہندو لڑکیوں کی مسلمانوں سے  شادی پرخوفزدہ

اکانومسٹ کے مطابق  مودی کے دور میں آزادیٔ اظہار پر بھی غاصبانہ قانون بنائے گئے۔بھارتی سیاسی منظر نامے میں کانگرس کی سیاسی تنزلی نے بھی مودی کی  بی جے پی  کو فائدہ پہنچایا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔