مہر گڑھ: دنیا کا قدیم ترین شہر؟

سید عاصم محمود  اتوار 31 جنوری 2021
کرہ ارض کی اولین انسانی بستیوں میں سے ایک منفرد نگر کا معلومات افروز تذکرہ

کرہ ارض کی اولین انسانی بستیوں میں سے ایک منفرد نگر کا معلومات افروز تذکرہ

وطن عزیز کا منفرد صوبہ بلوچستان سنگلاخ پہاڑوں،ریتلے ساحلی صحراؤں، بنجر میدانوں اور وادیوں کی سرزمین ہے۔اس دیس میں چند ہی نخلستان اور سرسبز وادیاں واقع ہیں جنھیں مون سون کے موسم میں بارشیں ہونے پر وجود میں آنے والے عارضی دریا سیراب کرتے ہیں۔

یہ بات مگر بہت سے پاکستانی نہیں جانتے کہ پندرہ بیس ہزار قبل بلوچستان کی آب وہوا کافی نم تھی ۔مون سون میں خصوصاً آج کے مقابلے میں زیادہ بارشیں ہوتیں جو جل تھل ایک کر دیتیں۔موسم عموماً خوشگوار ہوتا،گرمی سخت ہوتی نہ سردی اور سال کے بیشتر مہینوں میں ماحول اعتدال پہ رہتا۔

کچھی کی بستی: دور جدید کے پاکستانی ماہرین آثار قدیمہ کا دعوی ہے کہ اسی بہترین موسم سے متاثر ہو کر سندھ اور پنجاب میں مقیم خانہ بدوش قبائل نے بلوچستان میں ایک بستی بسا لی اور وہاں جا کر مستقل طور پہ آباد ہو گئے۔ وہ شدید گرمیوں یا سردیوں میں اس بستی میں چلے جاتے اور اپنا وقت آرام و سکون سے گزارتے۔ ان قدیم انسانوں کو یقیناً علم نہ تھا کہ یہ بستی رفتہ رفتہ جنوبی ایشیا ہی نہیں دنیا کے اُن اولیّں شہروں میں شمار ہوگی جہاں انسانی تہذیب و تمدن نے جنم لیا اور ارتقائی مراحل سے گزری۔ آج ہم اس بستی کو ’’مہر گڑھ‘‘ کے نام سے جانتے ہیں۔

مہر گڑھ دریائے بولان کی وادی میں واقع ہے۔ یہ علاقہ بلند و بالا پہاڑ رکھتا ہے اور میدان بھی۔ 2008ء تک یہ علاقہ ضلع بولان کہلاتا تھا۔ پھر اسے ’’کچھی‘‘ کہا جانے لگا۔ بلوچی اور سندھی زبانوں میں ’’کچی‘‘ کہلاتا ہے۔ دریائے بولان کچھی یا کچی کا سب سے بڑا دریا اور اسّی میل لمبا ہے۔ میدانی علاقوں کو سیراب کرتا ہے۔

جدید محقق کہتے ہیں کہ دو لاکھ سال قبل پہلے پہل افریقا سے قدیم انسان ہندوستان آئے۔ ان کی کچھ اولاد ہندوستان ہی میں بس گئی۔ یہ قدیم ہندوستانی جنگلوں میں شکار کرکے گزر بسر کرتے گویا شکاری تھے۔ پچاس ہزار سال قبل پھر مشرق وسطیٰ سے ’’کسان‘‘ اور وسطی ایشیا سے ’’گڈریے یا مویشی پال‘‘ ہندوستان میں وارد ہوئے۔ قدیم انسانوں کے یہ دونوں نئے گروہ ہندوستانی شکاریوں سے گھلنے ملنے لگے۔ آج جنوبی ایشیا میں بسنے والی بیشتر آبادی انہی تین گروہوں کی اولاد ہے۔

تاریخی درہ بولان: پاکستان (یا ہندوستان) اور ایران کے درمیان اونچے پہاڑی سلسلوں اور صحراؤں کی کثرت ہے۔ قدیم انسانوں کے لیے انہیں عبور کرنا بہت کٹھن اور دشوار گزار کام تھا۔ اسی لیے خصوصاً مشرق وسطیٰ سے آنے والے قدیم انسان افغانستان کے راستے ہندوستان میں داخل ہوتے۔ وہ پھر درہ بولان سے گزر کر سندھ اور پنجاب کے میدانوں میں پہنچتے۔ اسی لیے تب درہ بولان بھی درہ خیبر کے مانند ایک اہم گزرگاہ کی حیثیت رکھتا تھا۔

بعض محققین کا دعویٰ ہے کہ مشرق وسطیٰ سے آنے والے کسی قافلے نے مہر گڑھ کو بسایا تھا۔ قافلے والے کسی سرسبز مقام کی تلاش میں تھے جہاں پانی بھی وافر ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ سابقہ علاقے کے کسی طاقتور قبیلے نے انہیں وہاں سے نکال باہر کیا۔ بہرحال وہ قافلہ گھومتا گھامتا کسی من پسند ٹھکانے کی تلاش میں درہ بولان کی وادی آپہنچا۔ اہل قافلہ کو یہ وادی پسند آئی چناں چہ انہوں نے وہیں ڈیرے ڈال دیئے۔ تاہم ہندوستانی و پاکستانی ماہرین اثریات اور مورخین کا دعویٰ ہے کہ دس ہزار سال پہلے مہر گڑھ کو ہندوستان کے مقامی باشندوں ہی نے آباد کیا۔

شہر کی تین شرائط: ماہرین بتاتے ہیں کہ دس ہزار سال پہلے دنیا میں تقریباً چالیس لاکھ انسان بستے تھے۔ گویا اس وقت کرہ  ارض پر کْل انسانی آبادی ہمارے صرف ایک شہر، فیصل آباد کے میٹرو ایریا سے کچھ ہی زیادہ تھی۔(آج عالمی شہروں میں چار ارب سے زائد لوگ آباد ہیں۔) ایسی صورتحال میں محققین نے زمانہ قدیم کی صرف ان بستیوں کو ’’شہر‘‘ کہا ہے جوتین شرائط پر پورے اترتے ہوں۔اول یہ کہ بستی میں کتنے انسان آباد تھے اور وہ کتنے رقبے پر پھیلی تھی؟ دوم یہ کہ کیا وہ علاقے میں مرکز کی حیثیت رکھتی تھی؟ سوم یہ کہ بستی میں عمارتوں کی ساخت و ہئیت کیا تھی۔ مہر گڑھ ان تینوں شرائط پر پورا اترتا ہے۔

مہر گڑھ میں دس گیارہ ہزار سال قبل انسان آباد ہونا شروع ہوئے۔ رفتہ رفتہ ان کی آبادی بڑھنے لگی۔ نو ہزار سال قبل یعنی 7000 قبل مسیح تک مہر گڑھ کی آبادی ایک ہزار تک پہنچ چکی تھی۔ تب یہ شہر تین مربع کلو میٹر رقبے تک پھیل چکا تھا۔ اس رقبے پر کم از کم پانچ ہزار انسان بہ سہولت آباد ہوجاتے ہیں۔ لیکن ہم فرض کرلیتے ہیں کہ ایک ہزار سال کے عرصے میں مہر گڑھ کی آبادی ایک ہزار تک پہنچ گئی تھی۔

تجارتی قافلوں کی گزرگاہ: مہر گڑھ کو 1974ء میں فرانسیسی ماہر آثار قدیمہ، ژاں فرانسوا جاریج نے مع ٹیم دریافت کیا تھا۔ وہ اپنی تحریروں میں لکھتے ہیں کہ مہر گڑھ میں شہری عمارتوں کا جامع نظام موجود تھا۔ وہاں آباد انسان سیدھے سادے مکان نہ بناتے بلکہ وہ زیادہ پیچیدہ ڈیزائن پر مشتمل تھے۔ گویا مہر گڑھ دوسری شرط پر بھی پورا اترتا ہے۔ژاں فرانسوا کا بھی خیال تھا کہ مہر گڑھ ہندوستان کی مقامی آبادی نے بسایا اور اسے وادی دجلہ وفرات کی تہذیب کا پیرو نہیں کہا جا سکتا۔انھوں نے علاقے میں کھدائی سے آثار قدیمہ کے 32ہزار نمونے دریافت کیے جو مختلف عجائب گھروں میں محفوظ ہیں۔

مہر گڑھ ایسے مقام میں آباد ہوا جہاں بلوچستان، سندھ اور پنجاب کی سرحدیں ملتی ہیں۔ اس کے قریب ہی درہ بولان واقع ہے۔ زمانہ قدیم میں یہ درہ تجارتی قافلوں کی گزرگاہ بن گیا تھا۔ اپنی جغرافیائی اور تجارتی اہمیت کے باعث 7000 قبل مسیح تک مہر گڑھ وسیع و عریض علاقے میں مرکزی انسانی بستی بن چکا تھا۔ گویا مہر گڑھ شہر کہلوانے کے لیے تیسری شرط پر بھی فٹ بیٹھتا ہے۔

مہر گڑھ کی انفرادیت: بین الاقوامی ماہرین اریحا (فلسطین) بسطہ اور ابیضا (اردن) اور چاتالہوویک (ترکی)(Çatalhöyük) کو قدیم ترین شہر قرار دیتے ہیں۔ ان سبھی شہروں کی آبادی 7000 مسیح میں ایک سے دوہزار کے مابین تھی۔ گویا اس فہرست میں جنوبی ایشیا کا مہر گڑھ بھی شامل ہوسکتا ہے۔ پاکستانی ماہرین آثار قدیمہ کا فرض ہے کہ وہ ٹھوس حقائق کی بنیاد پر بین الاقوامی سطح پر یہ حقیقت واضح کریں کہ مہر گڑھ کا شمار بھی قدیم ترین شہروں میں ہونا چاہیے۔

چاتالہوویک اور البیضا کے ساتھ ساتھ مہر گڑھ بھی یہ انفرادیت رکھتا ہے کہ وہاں انسانی تہذیب و تمدن اور تقافت نے جنم لیا۔ مہرگڑھ کی تہذیب مگر اپنی خصوصیات کے باعث دیگر دو اولیّں انسانی تہذیبوں سے ممتاز ہے۔ وجہ یہی ہے کہ اس کے ارتقا میں مقامی طور طریقوں، رنگ ڈھنگ اور رسوم و رواج نے حصہ لیا۔

قدیم شہر کی خصوصیات: مہر گڑھ 7000 قبل مسیح میں ایک باقاعدہ انسانی بستی بنا اور پھر 2500 قبل مسیح تک آباد رہا۔ ان ساڑھے چار ہزار برس کے دوران دریائے بولان کا بہاؤ بدلنے کی وجہ سے اسے قریب ہی مختلف جگہوں پر آباد کرنا پڑا۔ ماہرین آثار قدیمہ نے ان ساڑھے چار ہزار برسوں کو آٹھ ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا دور 7000 سے 5500 قبل مسیح تک برقرار رہا۔

اس پہلے دور میں اہل مہر گڑھ نے زراعت کا آغاز کیا۔ وہ جنوبی ایشیا کے پہلے کسان تھے جنہوں نے گندم اور جو کی فصلیں اگائیں۔ گزر اوقات کے یے وہ بھیڑ بکریاں اور گائے بھینسیں بھی پالتے تھے۔ پہلے پہل انہوں نے کچی مٹی سے مکان بنائے۔ ہر گھر میں چار پانچ کمرے ہوتے۔ ایک کمرا اناج محفوظ کرنے کے لیے مخصوص تھا۔ وہ پتھروں اور ہڈیوں سے آلات بناتے۔ ماہرین آثار قدیمہ کو کھدائی سے بنے آلات، مالائیں، چوڑیاں اور ہار ملے ہیں۔ یہ سبھی اشیا پہلے دور سے تعلق رکھتی ہیں۔

اہل مہر گڑھ جانور قربان کرتے تھے۔ مردوں کو دفن کرنا بھی رواج تھا۔ وہ مصری قوم کی طرح مردے کی قبر میں مختلف عام استعمال کی اشیا رکھتے تھے۔ گویا ان کا بھی یہ اعتقاد تھا کہ انسان مرنے کے بعد زندہ رہتا ہے۔

کھدائی سے ماہرین آثار قدیمہ کو خواتین کی زیب و آرائش سے وابستہ اشیا بھی ملیں۔ یہ اشیا سیپی یا چونے کے پتھر، فیروزہ، سنگ لاجورد اور سنگ ریت (Sandstone) سے بنائی گئیں۔ اہل مہر گڑھ مرد اور عورتوں کی مورتیاں بھی مٹی و ریت سے بنائے تھے۔

مہر گڑھ سے فیروزہ (Turquoise) سنگ لاجورد (lapislazuli) اور سیپیوں کا ملنا آشکارا کرتا ہے کہ وہاں کے باشندے بلوچستان اور سندھ کے ساحلی علاقوں میں مقیم مچھیروں سے لے کر افغانستان میںبستے باشندوں سے تجارتی تعلقات رکھتے تھے۔ سنگ لاجورد افغانستان میں بہ کثرت ملتا ہے۔

ماہرین کو ایک قبر سے پتھر کی بنی کلہاڑی بھی ملی۔ بعدازاں گھروں سے مزید کلہاڑیاں برآمد ہوئیں۔ گویا اہل مہر گڑھ روزمرہ زندگی میں کلہاڑی کا استعمال بکثرت کرتے تھے۔ ممکن ہے کہ یہ ایک دفاعی ہتھیار بھی ہو۔ گویا پتھر سے بنی کلہاڑی کو انسان کا پہلا مو ثر ہتھیار کہنا ممکن ہے۔

موسموں کا حملہ: خیال ہے کہ پانچ چھ ہزار سال قبل بلوچستان کا موسم خشک ہونا شروع ہوا۔بارشیں کم ہونے لگیں۔اس باعث سبزہ بھی کم ہو گیا۔رفتہ رفتہ آب وہوائی اور موسمی تبدیلیوں نے مہرگڑھ میں رہنا کٹھن بنا ڈالا۔اس لیے علاقے کی ساری آبادی دیگر علاقوں مثلاً ہڑپہ اور مونجودڑو کی جانب ہجرت کر گئی۔

دلچسپ بات یہ کہ باشندگان مہرگڑھ نے جس تہذیب وثقافت کی بنیاد رکھی،اس کے آثار آج بھی علاقے میں دکھائی دیتے ہیں۔مثلاً اس کے قریب ہی سبی اور ڈھاڈر کے علاقے واقع ہیں۔ان علاقوں میں خانہ بدوش قبائل اب بھی بستے ہیں۔یہ مویشی پالتے اور کھیتی باڑی کرتے ہیں۔نیز علاقائی فنکار مہر گڑھ میں بننے والے ظروف کی طرح برتن بناتے ہیں۔ان کی آرائش وزیبائش اسی انداز میں کی جاتی ہے۔گویا کئی ہزار برس گذر چکے،علاقے کے جدید باشندوں نے اپنی قدیم تاریخ سے رابطہ برقرار رکھا ہے۔

اولیں دندان ساز: سائنس وٹکنالوجی کے مشہور رسالے،نیچر میں 22اپریل 2006ء کو ایک حیرت انگیز رپورٹ شائع ہوئی۔اس سے انکشاف ہوا کہ مہرگڑھ کے باسی دنیا کے اولیّں دندان ساز تھے۔ماہرین کو دراصل مہرگڑھ کے قبرستان سے ایسی کھوپڑیاں ملیں جن کے دانت مختلف آلات اور اوزاروں سے گھسے گئے تھے۔بعض میں انسان ساختہ سوراخ بھی پائے گئے۔اس انکشاف نے ساکنان مہر گڑھ کو موجد اور زمانہ قدیم کی ترقی یافتہ قوم بنا دیا۔

ختم ہوتا خزانہ: مہر گڑھ پاکستان کے لیے ایک بیش قیمت تہذیبی وثقافتی خزینے کی حیثیت رکھتا ہے۔دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے یہ پُرکشش اثریاتی مقام بن سکتا ہے۔افسوس کہ صوبائی اور وفاقی حکومتوں نے یہ خزانہ محفوظ رکھنے کے لیے موزوں اقدامات نہیں کیے۔اسی باعث یہ خزانہ قدرتی آفات مثلاً بارشوں اور کڑی دھوپ سے تباہ ہو رہا ہے۔مذید براں علاقے میں چور بھی موجود ہیں۔وہ موقع پا کر مختلف جہگوں کی کھدائی کرتے اور نکلنے والے نوادرات کراچی یا کوئٹہ بیچ دیتے ہیں۔کچھ عرصہ قبل ایسے نوادر اسگل ہوتے پکڑے گئے تھے۔یہ اشد ضروری ہے کہ مہرگڑھ کو محفوظ رکھنے کی خاطر مطلوبہ اقدامات کیے جائیں ورنہ ہمارے اس عظیم تہذیبی وثقافتی ورثے کا نام ونشان مٹ جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔