تکریم انسانیت؛ حُسنِ معاشرت کے درخشاں اصول

ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی  جمعـء 26 مارچ 2021
مذاق اڑانا، عیب نکالنا، غیبت کرنا، طعنہ دینا، ذلیل کرنا اور بُرا کہنا گناہ کبیرہ ہیں۔ فوٹو: نیٹ

مذاق اڑانا، عیب نکالنا، غیبت کرنا، طعنہ دینا، ذلیل کرنا اور بُرا کہنا گناہ کبیرہ ہیں۔ فوٹو: نیٹ

’’بڑی خرابی ہے اُس شخص کی جو پیٹھ پیچھے دوسروں پر عیب لگانے والا، (اور) منہ پر طعنے دینے کا عادی ہو، جس نے مال اکٹھا کیا ہو اور اُسے گنتا رہتا ہو۔

وہ سمجھتا ہے کہ اُس کا مال اُسے ہمیشہ زندہ رکھے گا۔ ہرگز نہیں! اُس کو تو ایسی جگہ میں پھینکا جائے گا جو چُورا چُورا کرنے والی ہے، اور تمہیں کیا معلوم وہ ریزہ ریزہ کرنے والی چیز کیا ہے؟ اﷲ کی سلگائی ہوئی آگ، جو دلوں تک جا چڑھے گی۔ یقین جانو! وہ اُن پر بند کردی جائے گی، جب کہ وہ (آگ کے) لمبے چوڑے ستونوں میں (گھر ہوئے) ہوں گے۔‘‘

(سورۃ الہمزۃ کا مفہوم)

وَیْل کے معنی بربادی، بڑی خرابی اور عذاب کے ہیں، نیز جہنم کی ایک وادی کا نام بھی وَیل ہے اور جو لوگ تین گناہوں (غیبت، طعنہ دینا اور ناحق مال جمع کرنا) میں مبتلا ہیں انہیں جہنم کی ویل نامی وادی میں ڈالا جائے گا۔ سورۃ الماعون میں مذکور ہے کہ نمازوں میں کوتاہی کرنے والوں کو بھی جہنم کی اسی وادی میں ڈالا جائے گا۔ کسی شخص کا مذاق اڑانا، عیب نکالنا، پیٹھ پیچھے برائی کرنا، اسی طرح کسی کو طعنہ دینا، ذلیل کرنا اور بُرا کہنا یہ ساری شکلیں اس آیت کے تحت داخل ہیں اور یہ سب گناہ کبیرہ ہیں، جن سے بچنا ہر شخص کے لیے ضروری ہے۔ ان گناہوں میں مبتلا ہونے والے اشخاص کو جہنم میں سخت عذاب دیا جائے گا اگر موت سے قبل حقیقی توبہ نہیں کی۔

بندوں میں بدترین لوگ وہ ہیں جو چغل خوری کرتے ہیں اور دوستوں و رشتے داروں کے درمیان جھگڑا کراتے ہیں، شریفوں کی پگڑیاں اچھالتے ہیں اور بے گناہ لوگوں کے عیب تلاش کرتے رہتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کے سورۃ الحجرات میں ارشاد کا مفہوم ہے کہ نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں، ہوسکتا ہے کہ وہ جن کا مذاق اڑا رہے ہیں خود اُن سے بہتر ہوں، اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں، ہوسکتا ہے کہ وہ جن کا مذاق اڑا رہی ہیں خود اُن سے بہتر ہوں۔ اور تم ایک دوسرے کو طعنہ نہ دیا کرو، اور نہ ایک دوسرے کو بُرے القاب سے پکارو۔ ایمان لانے کے بعد گناہ کرنا بہت بُری بات ہے۔ اور جو لوگ ان باتوں سے باز نہ آئیں تو وہ ظالم لوگ ہیں۔

رسول اﷲ ﷺ نے صحابۂ کرامؓ سے فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ غیبت کیا ہے؟ صحابۂ کرامؓ نے جواب دیا: اﷲ اور اس کے رسول ﷺ زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اپنے بھائی کی اس چیز کا ذکر کرنا جسے وہ ناپسند کرتا ہو۔ کہا گیا اگر وہ چیزیں اس میں موجود ہوں تو؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر وہ چیز اس کے اندر ہو تو تم نے غیبت کی اور اگر نہ ہو تو وہ بہتان ہوگا۔ (مسلم)

ارشاد باری کا مفہوم ہے: ’’تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے، کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے؟ تم کو اس سے گھن آئے گی۔‘‘ (سورۃ الحجرات)

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس رات مجھے معراج کرائی گئی، میں ایسے لوگوں پر گزرا جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ اپنے چہروں اور سینوں کو چھیل رہے تھے۔ میں نے جبرئیلؑ سے دریافت کیا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کے گوشت کھاتے ہیں (ان کی غیبت کرتے ہیں) اور ان کی بے آبروئی کرنے میں پڑے رہتے ہیں۔ (ابوداؤد)

مال اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت ہے، جس کے ذریعے انسان اﷲ تعالیٰ کے حکم سے اپنی دنیاوی ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن شریعت اسلامیہ نے ہر شخص کو مکلّف بنایا ہے کہ وہ صرف جائز و حلال طریقے سے ہی مال کمائے کیوں کہ قیامت کے دن ہر شخص کو مال کے متعلق اﷲ تعالیٰ کو جواب دینا ہوگا کہ کہاں سے کمایا۔ یعنی وسائل کیا تھے اور کہاں خرچ کیا یعنی مال سے متعلق حقوق العباد یا حقوق اﷲ میں کوئی کوتاہی تو نہیں کی۔ غرض یہ کہ حصول ِ مال کے لیے کوشش اور جستجو کرنا، نیز مستقبل کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مال جمع کرنا مذموم نہیں ہے اگر مال کو جائز وسائل سے حاصل کیا جا رہا ہے اور حقوق کی ادائی مکمل کی جارہی ہے۔

’’مال کی محبت میں وہ اس طرح منہمک ہوگیا کہ وہ آخرت کو بھول گیا، اور اس کے اعمال سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ یہ سمجھ رہا ہے کہ میں ہمیشہ زندہ رہوں گا‘‘ حالاں کہ ہر چیز فنا ہونے والی ہے، سوائے اﷲ کی ذات کے۔ حکومت اﷲ ہی کی ہے، اور اُسی کی طرف ہم سب کو لوٹ کر جانا ہے۔ لہذا ہمیں توبہ کرکے نیک اعمال کی طرف سبقت کرنی چاہئے۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: پانچ امور سے قبل پانچ امور سے فائدہ اٹھایا جائے۔ بڑھاپا آنے سے قبل جوانی سے۔ مرنے سے قبل زندگی سے۔ کام آنے سے قبل خالی وقت سے۔ غربت آنے سے قبل مال سے۔ بیماری سے قبل صحت سے۔

’’ہرگز نہیں! اُس کو تو ایسی جگہ میں پھینکا جائے گا جو چُورا چُورا کرنے والی ہے۔‘‘

اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔ اسی طرح فرمان الٰہی ہے: نہ تو اُن کا کام تمام کیا جائے گا کہ وہ مر ہی جائیں، اور نہ اُن سے جہنم کا عذاب ہلکا کیا جائے گا۔ جہنم میں نہ موت آئے گی اور نہ ہی عذاب کم کیا جائے گا۔ قرآن کریم کی متعدد آیات میں مذکور ہے کہ جہنمیوں کی غذا کھولتا ہوا پانی، کانٹوں والا کھانا، گلے میں اٹکنے والا کھانا، زخموں کے دھوون اور پیپ، پگھلا ہوا تانبا وغیرہ ہیں۔ جب ایک دفعہ اُن کی کھال جل چکی ہوگی تو اُس کی جگہ دوسری نئی کھال پیدا کردی جائے گی تاکہ عذاب چکھتے ہی رہیں۔ دوزخیوں کو مارنے کے لیے لوہے کے گُرز ہیں، وہ لوگ جب بھی جہنم کی گھٹن سے نکلنا چاہیں گے پھر اُسی میں دھکیل دیے جائیں گے اور اُن سے کہا جائے گا کہ جلنے کا عذاب چکھتے رہو۔

حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جہنمیوں میں سب سے ہلکا عذاب اُس شخص پر ہوگا جس کی دونوں جوتیاں اور تسمے آگ کے ہوں گے، جن کی وجہ سے ہانڈی کی طرح اُس کا دماغ کھولتا ہوگا۔ وہ سمجھے گا کہ مجھے ہی سب سے زیادہ عذاب ہورہا ہے، حالاں کہ اُس کو سب سے کم عذاب ہوگا۔

اِن مذکورہ گناہوں کے مرتکبین کو ایسی آگ میں ڈالا جائے گا جو دلوں تک جا چڑھے گی۔ ویسے تو آگ کی خاصیت یہی ہے کہ وہ انسان کے اعضاء کو جلا دیتی ہے، لیکن اس آگ کا خاص مزاج یہ ہوگا کہ وہ پہلے اُن دلوں کو پکڑے گی جو مال کی محبت میں آخرت کو بھول گئے تھے۔ خالق کائنات نے جہنم میں ایک ایسی خاص آگ بنائی ہے جس کا سب سے پہلا حملہ اُن دلوں پر ہوگا جن میں لوگوں کے لیے بغض و عناد اور مال کی ایسی محبت جگہ کرگئی تھی کہ وہ اﷲ اور اس کے رسولؐ کی اتباع سے مانع بنی۔ بعض مفسرین نے اس آیت کی تفسیر اس طرح بیان فرمائی ہے کہ دنیا کی آگ جب انسان کے بدن کو لگتی ہے تو دل تک پہنچے سے قبل ہی انسان کی موت واقع ہوجاتی ہے، لیکن آخرت میں موت تو آتی نہیں تو وہ دل تک پہنچے گی۔ آگ کے اتنے بڑے بڑے شعلے ہوں گے جیسے ستون ہوتے ہیں اور دوزخی اس میں بند ہوں گے۔

اس سورۃ میں ہمارے لیے درس یہ ہے کہ دیگر گناہوں کے ساتھ ہمیں تین گناہوں سے ہمیشہ بچنا چاہیے۔ ناجائز وسائل سے مال جمع کرنا۔ غیبت کرنا، عیب جوئی کرنا، طعنہ دینا، بُرا بھلا کہنا اور کسی شخص کی توہین کرنا وغیرہ۔ چوں کہ ان گناہوں کا تعلق بہ ظاہر حقوق العباد سے ہے، لہٰذا ان گناہوں سے بالکل اجتناب کریں، اپنے کیے ہوئے گناہ پر شرمندہ ہوں، اور آئندہ نہ کرنے کا پختہ ارادہ کرکے اﷲ تعالیٰ سے معافی مانگیں۔ متعلقہ شخص سے پہلی فرصت میں اگر معاملہ صاف کرلیا جائے تو اسی میں دونوں جہاں کی خیر و عافیت و عزت و کام یابی پوشیدہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔