خواجہ سرائوں کی ویلفیئر

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  اتوار 12 جنوری 2014
advo786@yahoo.com

[email protected]

اس ہفتے دو خبریں خوش کن اور چونکا دینے والی تھیں۔ پہلی خبر یہ کہ حکومت پنجاب نے نویں، دسویں جماعت کے طلبا کے لیے سائنس کے مضامین کی تعلیم دینے کے لیے ’’ای بکس‘‘ کی فراہمی اور پریکٹیکل مضامین سے متعلقہ تمام تجربات آن لائن فراہم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ یہ سہولیات انٹرنیٹ اور محکمہ تعلیم کی ویب سائٹ پر مہیا کی جائیںگی۔ طلبا بغیر اخراجات کے ان سے استفادہ حاصل کرسکیں گے۔ صوبائی حکومت کا یہ اقدام قابل ستائش تو نظر آتا ہے لیکن اس کے تمام پہلوؤں پر غور کرلینا چاہیے۔ مثلاً یہ کہ اسکولوں میں لیبارٹریز معیار کے مطابق نہیں ہوتی ہیں نہ مطلوبہ تعداد میں کمپیوٹرز دستیاب ہوتے ہیں۔

کراچی جیسے شہر کے بڑے کالجز میں جہاں بی سی ایس کی ڈگریاں کرائی جارہی ہیں وہاں بھی مطلوبہ تعداد میں کمپیوٹر دستیاب نہیں ہیں، پھر دور دراز علاقوں میں واقع اسکولوں میں یہ سہولیات کس طرح مہیا کی جاسکتی ہیں۔ ہر گھر میں کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ نہیں ہے، اگر ہیں تو یوپی ایس یا جنریٹرز وغیرہ نہیں ہوتے، بجلی کے لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ 12 سے 16 گھنٹے تک ہوتا ہے۔ چند سال قبل سندھ میں طویل لوڈ شیڈنگ سے تعلیمی عمل کے تعطل کی بنا پر گورنر سندھ نے طلبا کے فیل شدہ امتحانی پرچوں میں مجموعی حاصل کردہ نمبروں کی بنیاد پر اضافی نمبر دے کر پاس کرنے کا حکم دیا تھا۔ لیکن یہ سلسلہ بار بار اور خاص طور پر سائنس اور کمپیوٹر کے مضامین میں نہیں چل سکتا، اگر اس کے لیے ہنگامی نوعیت کے اقدامات نہ کیے گئے تو پنجاب حکومت کے اس اقدام سے غریب و متوسط طبقے کے طلبا سب سے زیادہ متاثر ہوں گے اور یہ اقدام کسی تعلیمی خدمت کے بجائے تعلیم کو طبقاتی کرنے پر منتج ہوگا، جو تعلیمی شعبے کی سب سے بڑی لعنت ہے۔

دوسری اہم خبر یہ ہے کہ کمشنر کراچی شعیب احمد صدیقی نے کراچی کے 4 ہزار سے زائد خواجہ سراؤں کو گراں فروشوں، ناجائز منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف انتظامیہ کی جانب سے جاری کریک ڈاؤن کا حصہ بنانے کا اعلان کیا ہے۔ خواجہ سراؤں پر مشتمل خصوصی ورک فورس قائم کی جائے گی جوکہ ضلعی انتظامیہ کے ساتھ مل کر مفاد عامہ اور عوام کو ریلیف دینے کے اقدامات میں بھرپور ساتھ دیں گے۔ اس بات کا اعلان کمشنر کراچی نے خواجہ سراؤں کے ایک وفد سے ملاقات کے موقع پر کیا۔ اس موقع پر خواجہ سراؤں کی ویلفیئر الائنس نے پولیس کی جانب سے ہراساں کرنے اور خواجہ سراؤں کے مسائل سے آگاہ کیا اور مطالبہ کیا کہ کمشنر کراچی کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی جائے جو کہ خواجہ سراؤں کے انسانی حقوق اور قانون سے متصادم معاملات دیکھے اور خواجہ سراؤں سے بہتر رویے کے لیے کوئی نظام وضع کیا جائے۔ اس موقع پر کمشنر کراچی نے کہاکہ 973 سگنلز پر کام کرنے والے خواجہ سراؤں کو معاشرے کا مفید شہری بناکر مفاد عامہ کے لیے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔

انھوں نے تنظیم کے عہدیداروں کو خواجہ سراؤں کو معاشرے میں ان کا جائز اور باعزت مقام دلوانے کے سلسلے میں ہر سطح پر اپنے مکمل تعاون اور کاوشوں کا یقین دلاتے ہوئے کہاکہ سندھ کے مختلف شہروں میں رہائش پذیر 17 ہزار سے زائد خواجہ سراؤں کو ملکی ترقی اور سماجی کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کیا جانا چاہیے اور تمام ادارے خواجہ سراؤں کے لیے ان کے جائز حقوق کے سلسلے میں بھرپور تعاون کریں۔ اس سے قبل 2009 میں ڈاکٹر اسلم خاکی نے بھی سپریم کورٹ میں خواجہ سراؤں کے حقوق سے متعلق ایک آئینی درخواست دائر کی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ خواجہ سراؤں کی تعداد 80 ہزار سے زائد ہے، انھیں بنیادی انسانی حقوق حاصل نہیں ہیں، نہ ان کے نام ووٹر لسٹ میں درج ہیں، ان کے حقوق کے لیے جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے۔

اس آئینی درخواست پر چیف جسٹس نے حکم دیا تھا کہ چاروں صوبے سماجی بہبود کے محکموں کے ذریعے خواجہ سراؤں کی رجسٹریشن کرکے رپورٹ پیش کریں، جس میں ان کے حالات زندگی کے بارے میں نشاندہی کی جائے جس کے تحت وہ زندگی بسر کر رہے ہیں کہ آیا وہ گروؤں کے پاس مرضی سے رہتے ہیں یا جبری طور پر انھیں بنایا گیا ہے۔ بچوں کو غیر قانونی تحویل میں دیے جانے پر گداگروں اور والدین کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے اور ان افراد کی فلاح و بہبود کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ سپریم کورٹ نے خواجہ سراؤں کو وراثت میں حصہ دینے، ووٹ کا حق دینے، ملازمتوں میں حصہ دینے اور نادرا کو ان کی جنس کے کالم کا اندراج کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس کے بعد خواجہ سراؤں کو نادرا، ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن اور میونسپل کارپوریشنز میں بھرتی کیے جانے کی خبریں بھی آتی رہی ہیں۔ سپریم کورٹ کے احکامات سے خواجہ سراؤں کی شکایات اور مسائل کا کچھ حد تک تو ازالہ ہوا، انھیں کچھ حقوق بھی حاصل ہوئے لیکن ان کے مسائل کا حل صرف اسی وقت ممکن ہے جب حکومت سرکاری سطح پر اس سلسلے میں کوئی مربوط پالیسی مرتب کرے۔

خواجہ سرا (Hemaphrodite) ایک ایسی مخلوق ہے جس میں بیک وقت مرد و عورت دونوں کے اعضا پائے جاتے ہیں، یہ نہ مکمل طور پر مرد ہوتے ہیں اور نہ عورت، یہیں سے ان کی بدقسمتی اور حق تلفی کا آغاز ہوجاتا ہے اور یہ طبقہ تمام بنیادی، سماجی، معاشرتی اور معاشی حقوق سے محروم کردیا جاتا ہے۔ عہد قدیم سے مغلیہ دور تک اس طبقے کو ناچ گانے کے لیے رکھا جاتا تھا اور معاوضہ دیا جاتا تھا، اس کے بعد یہ گھروں میں شادی بیاہ اور بچوں کی پیدائش پر ناچ گانے کرکے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھتے تھے۔ موجودہ سائنسی اور صنعتی دور میں یہ ذریعہ بھی تقریباً ختم ہوچکا ہے۔ اب ان کے پاس معاش کا کون سا ذریعہ باقی رہ جاتا ہے؟ نوکری دینے کے لیے کوئی تیار نہیں ہوتا، تعلیمی اداروں کے دروازے ان پر بند ہیں، حالانکہ آج کے مخلوط تعلیمی اور ملازمت کے دور میں مرد و خواتین کے درمیان خواجہ سراؤں کی تعداد کے خفیف سے تناسب کو کھپا دینا کوئی مشکل اور انہونی بات نہیں ہے۔ جب معذوروں کا، پسماندہ علاقوں کا، برادریوں کا، اقلیتوں اور شیڈول کاسٹ اور خواتین کا کوٹہ مقرر کیا جاسکتا ہے، خواتین و اقلیتوں کو ایوانوں تک رسائی دی جاسکتی ہے تو خواجہ سراؤں کا بھی حق بنتا ہے کہ بلا امتیاز ان کے لیے بھی اس قسم کا کوٹہ مقرر کیا جائے۔

خواجہ سراؤں کی جو تعداد بتائی جاتی ہے وہ انتہائی کم ہے۔ ان میں جعلی، خود ساختہ اور شوقیہ قسم کے خواجہ سراؤں کی بڑی تعداد ہے جو شہروں میں جگہ جگہ بڑی تعداد میں نظر آتے ہیں۔ اگر حکومت کوئی مربوط پالیسی اختیار کرے تو ان کا تدارک ہوسکتاہے۔ مثلاً جب اس طبقے کی رجسٹریشن اور کیریئر پلاننگ ہوگی تو وہ عناصر بھی بے نقاب ہوجائیںگے جو مصنوعی طریقوں سے ان گروہوں میں شامل ہوتے ہیں یا کیے جاتے ہیں۔ رجسٹریشن اور میڈیکل سرٹیفکیٹ سے ایسے افراد اور اس کاروبار میں ملوث گروہ بھاگنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ خواجہ سرا اسمبلنگ پلانٹس، گارمنٹس فیکٹری، فیلڈ مارکیٹنگ، فلاور شاپس وغیرہ کی ملازمت کے علاوہ خاص طور پر واجبات اور قرضوں کی وصولی، حکومت کی طرف سے تحویل میں لی جانے والی جائیداد، ان کی نیلامی میں خصوصی کردار ادا کرسکتے ہیں۔

ہمارے ملک کے دو سو سال پرانے قانون کے تحت عدالتی بیلف کو نوٹس دے کر کہا جاتا ہے کہ وہ تحویل میں لی جانے والی جائیداد پر جائے، ڈھول بجاکر منادی کرے کہ مذکورہ جائیداد عدالت نے تحویل میں لے لی ہے۔ تعمیل میں وہ حلفیہ بیان دیتا ہے کہ میں نے ڈھول پیٹ کر لوگوں کو جمع کرکے منادی کردی، جب کہ حقیقتاً ایسا نہیں ہوتا اور آج کے دور میں ممکن بھی نہیں ہے، یہ کام عملی طور پر خواجہ سرا بخوبی سر انجام دے سکتے ہیں۔ خواجہ سراؤں کے معاملات میں بہت سی قانونی و شرعی پیچیدگیاں بھی ہیں جن پر کسی نے غور کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کی مثلاً ان کی شادی بیاہ کے معاملات، وراثت کے معاملات وغیرہ، اگر سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق انھیں اپنے والدین کی جائیداد سے حصہ مل بھی جاتا ہے تو خود ان کے انتقال پر ان کی وراثت کیسے تقسیم ہوگی؟ دیگر معذوریوں کو تو والدین قبول کرلیتے ہیں، اپاہج بچوں کو بھی پالتے ہیں لیکن اس قسم کے صنفی نقص کے حامل بچوں کو خواجہ سراؤں کے گروہوں کے حوالے کردیتے ہیں۔ حکومت کو اس سلسلے میں شرعی اور قانونی مشاورت کے ذریعے قانون سازی کرنا چاہیے۔ اب تو تمام صوبائی حکومتیں بھی آزادی اور انسانی حقوق کی علمبرداری کی دعویدار ہیں۔ وہ اس سلسلے میں پیش رفت کرکے ایک دوسرے کے لیے مثال بن سکتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔