- انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی نسبت روپیہ تگڑا
- حکومت نے 2000 کلومیٹر تک استعمال شدہ گاڑیاں درآمد کرنے کی اجازت دیدی
- کراچی: ڈی آئی جی کے بیٹے کی ہوائی فائرنگ، اسلحے کی نمائش کی ویڈیوز وائرل
- انوار الحق کاکڑ، ایمل ولی بلوچستان سے بلامقابلہ سینیٹر منتخب
- جناح اسپتال میں خواتین ڈاکٹروں کو بطور سزا کمرے میں بند کرنے کا انکشاف
- کولیسٹرول قابو کرنیوالی ادویات مسوڑھوں کی بیماری میں مفید قرار
- تکلیف میں مبتلا شہری کے پیٹ سے زندہ بام مچھلی برآمد
- ماہرین کا اینڈرائیڈ صارفین کو 28 خطرناک ایپس ڈیلیٹ کرنے کا مشورہ
- اسرائیل نے امن کا پرچم لہرانے والے 2 فلسطینی نوجوانوں کو قتل کردیا
- حکومت نے آٹا برآمد کرنے کی مشروط اجازت دے دی
- سائفر کیس میں امریکی ناظم الامور کو نہ بلایا گیا نہ انکا واٹس ایپ ریکارڈ لایا گیا، وکیل عمران خان
- سندھ ہائیکورٹ میں جج اور سینئر وکیل میں تلخ جملوں کا تبادلہ
- حکومت کا ججز کے خط کے معاملے پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان
- زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر 8 ارب ڈالر کی سطح پر مستحکم
- پی ٹی آئی کا عدلیہ کی آزادی وعمران خان کی رہائی کیلیے ریلی کا اعلان
- ہائی کورٹ ججز کے خط پر چیف جسٹس کی زیرصدارت فل کورٹ اجلاس
- اسلام آباد اور خیبر پختون خوا میں زلزلے کے جھٹکے
- حافظ نعیم کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری نہ کرنے پر الیکشن کمیشن کو نوٹس
- خیبر پختونخوا کے تعلیمی اداروں میں موسم بہار کی تعطیلات کا اعلان
- اسپیکر کے پی اسمبلی کو مخصوص نشستوں پر منتخب اراکین سے حلف لینے کا حکم
بجٹ کثرت رائے سے منظور
قومی اسمبلی نے فنانس بل 2021 کی کثرت رائے سے منظوری دیدی ہے، فنانس بل کی منظوری کی تحریک پر اپوزیشن نے ووٹنگ کا چیلنج دیا، ووٹنگ پر تحریک کے حق میں 172اور مخالفت میں 138پڑے۔
فنانس بل پیش کرتے وقت قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ ٹیکس ادا نہ کرنے والوں کو کسی صورت نہیں چھوڑیں گے، جان بوجھ کر ٹیکس ادا نہ کرنے والوں کو ہر صورت گرفتار کیا جائے گا۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت تیسرا وفاقی بجٹ بآسانی منظور کروانے میں کامیاب ہوگئی، جب کہ اس سے قبل اپوزیشن نے دھمکی دی تھی کہ وہ وفاقی بجٹ کسی طور پر منظور نہیں ہونے دے گی لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوا حتیٰ کہ اس موقعے پر وزیراعظم ایوان میں موجود جب کہ اپوزیشن لیڈر اسمبلی سے غائب تھے۔
بہرحال یہ خوش آیند امر ہے کہ قومی اسمبلی نے وفاقی بجٹ منظور کرلیا ہے ، اب گیند حکومت کے کورٹ میں ہے کہ وہ بجٹ کا استعمال کس طرح ممکن بناتی ہے اور جو تجاویز اور ترامیم منظورکی گئی ہیں ان پر عملدرآمد کیسے ہوتا ہے ، عام آدمی کی مشکلات کس طرح کم ہونگی اور مہنگائی میں کیسے کمی آئے گی ، یہ وہ سوالات ہیں جو ہر پاکستانی کے ذہن میں موجود ہیں اور وہ اس کا تسلی بخش جواب چاہتے ہیں ، قوی امید ہے کہ حکومت اپنی کارکردگی کے ذریعے ان مسائل کو حل کرنے میں اپنا مثبت کردار ادا کرے گی ، کیونکہ عام آدمی کے لیے اس وقت دووقت کی روٹی انتہائی مشکل ہوگیا ہے۔
بجٹ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما نوید قمر نے کہا کہ بجٹ میں سوائے ان ڈائریکٹ ٹیکسز کے کچھ نظر نہیں آتا، حکومت نے آن لائن مارکیٹ پر بھی ٹیکس لگا دیا، ملک کا کاروباری طبقہ ایک نیب سے تنگ تھا، اب ایف بی آر کو گرفتاری کے اختیارات دے کر نیب جیسا ایک اور ادارہ لایا جا رہا ہے، قومی اسمبلی اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے خورشید شاہ نے کہا کہ حکومت نے 1200 ارب روپے کے ٹیکس لگائے، ملک میں تعلیمی اداروں کو فروغ نہیں دیا گیا۔
اپوزیشن کے نقطہ نظر اور رائے کی اہمیت اپنی جگہ موجود ہے ، اب یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ کس طرح اپوزیشن کے خدشات کو دور کرتے ہیں ۔ دوسری جانب فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے رہنماؤں نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مجوزہ 20فیصد گین ٹیکس جیسے اقدام سے سرمایہ کاری بری طرح متاثر ہو گی۔ کاروباری افراد دیگر ممالک میں سرمایہ کاری لے جائیں گے اور لاکھوں لوگ بے روزگار ہوںگے۔
یہ بات خوش آیند ہے کہ قومی اسمبلی نے منگل کو وفاقی بجٹ کثرت رائے سے منظور کر لیا ہے ، حالانکہ چند دن قبل تک یہی بجٹ اجلاس لڑائی، گالم گلوچ اور ہاتھا پائی کی بدترین مثال بن گیا تھا تاہم اگلے روز چشم فلک نے ایک ایسا منظر دیکھا کہ بجٹ کی منظوری کے دوران جب دھڑا دھڑ اپوزیشن کی جانب سے پیش کی جانے والی بجٹ ترامیم کو وزیرخزانہ رد کر رہے تھے۔
اسی اثنا میں ایک حکومتی رکن رانا قاسم نون نے ایک ترمیم پیش کی جس پر وزیر خزانہ تو کچھ نہ بولے مگرکچھ دیر بعد وزیراعظم سے مشورہ کرکے ساتھ بیٹھے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کھڑے ہوئے اور کہا کہ ’’رانا قاسم نون نے ترمیم پیش کی ہے جس کے مطابق اراکین اسمبلی کو ملنے والے (25 سالانہ) فری ایئر ٹکٹس کو ٹریول واؤچرز میں بدل دیا جائے تاکہ اسے فیملی کے دیگر ارکان بھی استعمال کر سکیں‘‘ اس کے بعد ووٹنگ کرائی گئی اور حکومت اور اپوزیشن دونوں جانب کے اراکین نے اس کی حمایت کی ہے۔یعنی جہاں قومی اسمبلی کے اراکین کے ذاتی مالی فوائد کی بات آتی ہے تو سب لڑائی بھول کر شیر وشکر ہوجاتے ہیں جب کہ عوام پر ٹیکسوں کی مد میں جو اضافی بوجھ ، بجلی ، گیس ، پیٹرول اور دیگر اشیائے خورونوش سمیت تمام ضرورتوں پر لگائے گئے ، وہ اپنی جگہ برقرار ہیں ۔
کیا یہ طرز عمل عوام کی ترجمانی کرتا نظر آتا ہے ہرگز نہیں ، بلکہ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ عوامی مفادات سے ذاتی مفادات ہمارے اراکین قومی اسمبلی کے نزدیک اہمیت رکھتے ہیں ۔ آنے والے دنوں میں وفاقی وزیر خزانہ اور حکومت کو عوامی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے بجٹ پر عملدرآمد کرنا ہوگا تاکہ عام آدمی کو ریلیف مل سکے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔