ملکی زراعت اور فوڈ آئٹمز کی درآمدات

محمد ابراہیم خلیل  ہفتہ 18 ستمبر 2021

برصغیر کی زراعت ، مختلف فصلوں کی پیداوار، چاروں طرف بکھرے ہوئے دریاؤں کے پانی سے سیراب ہوتی ہوئی زرخیز زمینوں کی مثال ہزاروں سال سے دی جاتی رہی ہے۔

اس خطے میں پاکستان اور اس میں بہتے ہوئے دریا یہاں کی فصلیں روپہلی ریشہ ، گندم ، چاول ، مونگ پھلی، جو، جوار، باجرہ، مختلف اقسام کی دالوں اور دیگر زرعی فصلوں کی بھرپور پیداوار کو دیکھتے ہوئے تاجرانہ منصوبہ بندی کرکے انگریزوں نے برآمدات کی آسانی کے لیے کراچی کی بندرگاہ کو دن رات ترقی دی۔

اس کے علاوہ بہترین نہری نظام قائم کردیا تاکہ پیداوار میں مزید اضافہ ہو۔ قیام پاکستان سے قبل اس کے بعد بھی کئی عشروں تک گندم، کپاس، دالوں سمیت کئی اشیا کی برآمد ہوتی تھی۔ بعد میں پھر نہ جانے کیا ہوا اور کیا نہ ہوا کہ کبھی گندم درآمد کر رہے ہیں، کبھی کپاس کی فصل ایسی کم پیدا ہوئی کہ لاکھوں ٹن کپاس درآمد کرنے لگے۔

کبھی چینی درآمد کے لیے لاکھوں ٹن کی منظوری دی گئی اور کبھی اربوں ڈالر صرف دالوں کی درآمد کا خرچہ آنے لگا۔ جبھی تو فوڈ گروپ کی درآمدات کا گراف اتنا بڑھ گیا کہ حکومتیں مالی دباؤ میں آنے لگیں اور پھر نتیجہ قرضے اور ان کی شرطیں۔ اپنے روپے کی بے توقیری اور ان کے ڈالر کی عزت افزائی، اس طرح سے مہنگائی ہی مہنگائی۔ مالی سال 2020-21 میں تجارتی خسارے میں بے حد اضافے کی ایک اہم وجہ خوراکی اشیا کی درآمد میں پہلے کی نسبت بہت زیادہ اضافہ ہی رہا ہے۔

اس حوالے سے ایک جائزہ پیش خدمت ہے۔ صرف یہی اعداد و شمار چونکا دینے والے ہیں کہ پی بی ایس کی رپورٹ کے مطابق جولائی تا جون 2021 کے دوران 8 ارب 34 کروڑ 79 لاکھ ڈالر کی درآمدات ہوئیں جب کہ اس کے مقابلے میں مالی سال 2019-20 کے دوران اس گروپ کی کل درآمدی مالیت 5 ارب 39 کروڑ 39 لاکھ ڈالرز کی تھیں اس طرح ریکارڈ اضافہ 54 فیصد کا ہوا۔

اس میں اہم کردار گندم کی درآمد کا تھا جس کا تذکرہ معاشی حکام بھی کرتے رہے ہیں۔ دکھ تو اسی بات کا ہے کہ گندم برآمد کرنے والا ملک، دنیا کا بہترین نہری نظام رکھنے والا زرعی ملک پیداوار اتنی کم ہوگئی کہ 36 لاکھ 12 ہزار 638 ٹن گندم درآمد کرنا پڑی۔ اگرچہ ملکی پیداوار اتنی تو ہو جاتی ہے کہ ملکی غذائی کھپت پوری ہو جاتی ہے۔ البتہ گندم کی لاکھوں بوریاں ادھر سے ادھر ہو جائیں تو اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

اسی سال پام آئل کی درآمد میں 45 فیصد اضافہ کچھ اس طرح ہوا کہ 31 لاکھ 98 ہزار میٹرک ٹن پام آئل کی درآمد کی گئی اور اس پر اخراجات آگئے 2 ارب 66 کروڑ 86 لاکھ ڈالرز، جب کہ اس سے گزشتہ مالی سال یعنی 2019-20 کے دوران ایک ارب 84 کروڑ 15 لاکھ ڈالرز کا پام آئل درآمد کیا گیا تھا۔ اب چینی کی بات کرلیتے ہیں جس کی درآمدات کا سلسلہ اعداد و شمار کو مدنظر رکھیں تو معلوم ہوگا کہ کچھ زیادہ ہی مقدار میں چینی کی درآمد ہوئی ہے جس کی کوئی خاص وجہ بظاہر نظر نہیں آرہی ہے جب کہ چینی کی ملکی پیداوار بھی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔

پھر بھی بڑی مقدار میں چینی کی درآمد ہوئی اور اس مالی سال میں مزید لاکھوں ٹن چینی درآمد کی جائے گی۔ اسی طرح گندم بھی لاکھوں ٹن درآمد کریں گے۔ اب چینی کی درآمدی مقدار دونوں مالی سالوں کی ملاحظہ فرمائیں۔ مالی سال 2020-21 کے دوران 2 لاکھ 81 ہزار میٹرک ٹن چینی کی درآمد کی گئی جب کہ اس سے گزشتہ مالی سال میں محض 7609 میٹرک ٹن چینی درآمد کی گئی۔

گزشتہ مالی سال کے دوران چائے کی درآمدات میں حسب معمول اضافہ ہوا ہے۔ یعنی 9 فیصد اضافہ نوٹ کیا گیا اس کے ساتھ ہی 2 لاکھ 58 ہزار میٹرک ٹن کی چائے درآمد کرتے ہوئے قوم 92 ارب 83 کروڑ30 لاکھ روپے کی چائے پی گئی۔ یہ معمول کی بات ہے کیونکہ پاکستان میں چائے کی پیداوار نہیں ہوتی ، اگرچہ چائے کی پیداوار کے حصول کی باتیں کئی عشروں سے ہو رہی ہیں۔

چند ایک مقام سے پیداوار حاصل کر رہے ہیں اور بہت سے مقامات کی نشاندہی ہوگئی ہے ، لیکن سب کچھ لاحاصل لہٰذا امید ہے کہ رواں مالی سال میں چائے کی پتی کا معاملہ ایک کھرب سے بھی زائد تک پہنچ چکا ہوگا ، اگر حکام چاہیں تو صرف اور صرف چائے کی پیداوار پر توجہ دیتے ہوئے جدید ٹیکنالوجی اور دیگر طریقوں سے اگر بہترین منصوبہ بندی کرلیتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ 50 ہزار میٹرک ٹن تک چائے کی پیداوار حاصل ہو سکتی ہے۔ اس طرح تقریباً20 ارب روپے تک کی بچت بھی ہو جائے گی۔

بہرحال مالی سال 2020-21کے دوران پاکستان نے خوراکی اشیا کی درآمد پر جو کچھ اخراجات کیے وہ انتہائی حیران کن بھی اس لیے بھی ہیں کہ بات ایک زرعی ملک کی ہو رہی ہے جس کی زرخیزی دنیا بھر میں مشہور و معروف ہے۔

اب ملاحظہ فرمائیں کہ خوراکی درآمدات یعنی پاکستان نے فوڈ گروپ کی مد میں جولائی تا جون 2021 تک 13 کھرب 31ارب 69 کروڑ40 لاکھ روپے کی درآمدات کر ڈالیں۔ جب کہ مالی سال 2019-20کے دوران یہ اخراجات 8 کھرب 57 ارب 31 کروڑ40 لاکھ روپے کی تھیں اور یوں صرف خوراکی اشیا کی درآمدات کی مد میں نصف سے قدرے زائد یعنی 55.33 فیصد کا ہوش ربا اضافہ ہو چکا ہے۔

اب تو ہوش میں آنا چاہیے کیونکہ معاملہ حد سے زیادہ خطرناک ہے۔ یہ تو صرف چند خوراکی اشیا کے اعداد و شمار ہیں۔ آیندہ کسی کالم میں کریم، دودھ سے بنی غذائی اشیا، ڈرائی فروٹ، مسالہ جات، سویابین آئل، دالوں وغیرہ پر گفتگو کرنے سے مزید واضح ہو جائے گا کہ کس طرح پاکستان فوڈ گروپ کا برآمدی ملک سے اب درآمدی ملک بن رہا ہے، لہٰذا حکومت اگر اس جانب بھرپور توجہ کرتی ہے تو 4 تا 5 ارب ڈالرز کا زرمبادلہ باآسانی بچایا جاسکتا ہے۔

صرف اور صرف گندم، چینی کی درآمد کا سلسلہ رک جائے تو شاید سوا ارب ڈالر تک بچا سکتے ہیں۔ بہرحال حکومت کو بھی اس بات کا احساس ہے درآمدی اشیا ہمیشہ مہنگی ہوتی ہیں۔ اس کے مقابلے میں ملکی زرعی پیداوار میں اضافے سے خوراکی اشیا کی قیمت کم ہوکر رہے گی۔ اس طرح مہنگائی میں کمی سے غریب افراد کی پریشانی میں کمی ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔