پاکستانی سائنسداں کی اختراع نیچرعالمی ایوارڈ کے لیے نامزد

سہیل یوسف  بدھ 13 اکتوبر 2021
پاکستانی سائنسداں ڈاکٹر محمد افضل نے آلودہ ترین پانی کو صاف کرنے والی سبز تیراک چٹائیاں بنائی ہیں جو آلودہ ترین پانی صاف کرسکتی ہے۔ فوٹو: بشکریہ نیچر

پاکستانی سائنسداں ڈاکٹر محمد افضل نے آلودہ ترین پانی کو صاف کرنے والی سبز تیراک چٹائیاں بنائی ہیں جو آلودہ ترین پانی صاف کرسکتی ہے۔ فوٹو: بشکریہ نیچر

 کراچی: پاکستان کے ممتاز سائنسداں ڈاکٹر محمد افضل کی ایک اہم اختراع کو ہفت روزہ سائنسی جریدے ’نیچر‘ نے گلوبل امپیکٹ ایوارڈ کے لیے نامزد (شارٹ لِسٹ) کیا ہے۔

ڈاکٹر محمد افضل کا تعلق نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بایوٹیکنالوجی اینڈ جینیٹک انجینیئرنگ سے ہے جہاں وہ پرنسپل سائنٹسٹ ہیں۔ واضح رہے کہ ان کی ایجاد پوری دنیا کے لیے اہمیت رکھتی ہے جس کا اعتراف ہفت روزہ نیچر نے بھی کیا ہے۔ وہ پہلے پاکستانی ہیں جنہیں اس ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کی یہ اختراع نیچر سسٹین ایبلٹی کے سرورق پر بھی نمایاں کی گئی تھی۔

ڈاکٹر افضل اپنے ادارے میں ’آلودہ پانی کی نباتاتی صفائی‘ کے گروپ کے سربراہ ہیں جو ماحولیاتی تجربہ گاہ کا ایک ذیلی حصہ بھی ہے۔

انہوں نے نہ صرف تیرتی ہوئی آبی چٹائیوں کا تصور پیش کیا  بلکہ اس کے ماڈل بنائے ہیں جو اب پاکستان کے کئی علاقوں میں آلودہ پانی کو صاف کررہے ہیں۔ ان چٹائیوں کو ’فلوٹنگ ویٹ لینڈز‘ کا نام دیا گیا ہے جنہیں چلانےکے لیے بیرونی مدد یا بجلی کی ضرورت نہیں رہتی۔

مقامی طور پر پاکستانی پودوں پر مشتمل سبزتیراک چٹائیوں کی دوسری خاص بات یہ ہے کہ ان پر بین الاقوامی چٹائیوں کے مقابلے میں جو لاگت آئی ہے وہ 500 گنا تک کم ہے۔ اس لیے آلودہ پانی کے ذخائر کوصاف کرنے لئے یہ ایک بہترین حل پیش کرتی ہیں۔

کئی بین الاقوامی اعزازات کےعلاوہ ڈاکٹر محمد افضل کو پاکستان اکادمی برائے سائنس سے گولڈ میڈل بھی دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیچر نے آٹھ بین الاقوامی ماہرین کی فہرست میں ان کا نام تصویر پہلے نمبر پررکھی ہے۔

ان پیراک چٹائیوں کو فیصل آباد ایک ایسے جوہڑ میں آزمایا گیا ہے جس میں 60 فیصد پانی گھروں اور 40 فیصد پانی ٹیکسٹائل، کیمیا اور چمڑے کی صنعتوں کا تھا۔ طرح طرح کے آلودگیوں نے تالاب کو ٹیکنالوجی کی جانچ کے لیے ایک موزوں جگہ بنادیا تھا۔

دوسرے برس پیراک آب گاہوں کا جادو شروع ہوا اور پانی صاف ہونے کے تمام آثارظاہر ہوئے جنہیں تین درجوں میں بیان کیا جاسکتا ہے یعنی طبعی کیمیائی یعنی تیل، سلفیٹ، چکنائی اور دیگر حل شدہ ٹھوس اجزا میں کمی، دوم خردحیاتیاتی یعنی انسانی فضلے کے ذرات میں کمی اور سوم کیڈمیئم، کرومیئم، اور نِکل جیسی دھاتوں میں تخفیف واقع ہوئی۔ اس ٹیکنالوجی سے کیمیکل آکسیجن ڈیمانڈ (سی او ڈٰی) میں 79 فیصد، بایوکیمیکل آکسیجن ڈیمانڈ (بی اوڈی) میں 88 فیصد اور تمام حل شدہ ٹھوس اجسام (ٹی او ڈی) میں 65 فیصد کم ہوگئے۔

صاف یا الودہ پانی میں شامل قدرتی طور پر ختم ہونے والے یعنی بایوڈگریڈیبل یا نہ ختم ہونے والے نان بایوڈگریڈیبل اجزا کی کل مقدار کو سی او ڈی سے بیان کیا جاتا ہے جبکہ بی او ڈی میں حیاتی طور پر تلف ہوجانے والے اجزا کا شمار کیا جاتا ہے۔ کوئی پانی جتنا صاف ہوگا اس میں سی او ڈی اور بی او ڈی کی مقدار اتنی ہی کم ہوگی۔ پینے یا دوسرے صاف پانی میں ان کی مقدار عموماً صفر ہوتی ہے۔

اگرچہ ایف ٹی ڈبلیو دنیا بھر میں دستیاب اور زیرِ استعمال ہیں لیکن پاکستانی اختراع انتہائی کم خرچ ہونے کی بنا پر بازار سے 500 درجے سستی بھی ہے۔ گزشتہ چھ برس سے سبزے والی چٹائیوں نے مجموعی طور پر 57,947,400 مکعب میٹر آلودہ پانی صاف کیا جو 31000 سے زائد اولمپک سوئمنگ پول کے برابر ہے جبکہ چند پیسے فی مکعب میٹر کے اخراجات آئے ہیں۔

اپنی پائیداری کے بنا پر ایک سسٹم مزید 15 برس کے لیے قابلِ عمل رہ سکتا ہے جس سے لاگت میں مزید کمی واقع ہوگی۔

ہفت روزہ نیچرگلوبل امپیکٹ ریسرچ ایوارڈ میں شامل دیگر سائنسدانوں کا تعلق امریکہ، چین، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سے ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔