ISLAMABAD:
Mountains are calling and I must go
(پہاڑ پکار رہے ہیں اور مجھے جانا ہوگا)
یہ John Muir کا قول ہے جو ایک اسکاٹ لینڈ نژاد امریکی باشندہ تھا اور آج بھی اپنے پہاڑوںٍ، جنگلوں اور قدرتی مناظر سے عشق کی وجہ سے دنیا بھر میں جانا جاتا ہے۔ یہ شخص امریکا اور اسکاٹ لینڈ کے پہاڑوں جیسے سیئرا نیواڈا (Sierra Nevada) وغیرہ کا عاشق تھا اور اس ہی عشق میں مبتلا ہو کر اس نے امریکا میں ماحولیاتی تحفظ کی داغ بیل ڈالی، جس کے اثرات آج بھی امریکا اور یورپ دونوں میں یکساں دکھائی دیتے ہیں۔
اگر جان مُور پاکستان کے پہاڑ اور یہاں کا قدرتی حسن دیکھ لیتا تو یقیناً اس کے عشق میں چار چاند لگ جاتے اور یہ بھی عین ممکن تھا کہ وہ پاکستان (جو اس وقت متحدہ ہندوستان میں شامل تھا) میں ہی مستقل سکونت اختیار کرلیتا۔
اگر آپ کسی ملک کی سیر کو نکلیں اور وہاں آپ کا استقبال کرنے کےلیے دنیا کے بلند ترین پہاڑی سلسلے، گھنے مگر خوبصورت جنگلات، ان جنگلات سے اٹھتی ہوئی خوشبوئیں، دلفریب جھیلیں، جوش مارتے دریا، سُر بکھیرتے اپشار، چاروں موسم، حسین وادیاں، خوش رنگ پھول، پہاڑوں پر چمکتا ہوا سورج اور خوش ذائقہ میووں سے لدے درخت موجود ہوں تو سمجھ لیجئے کہ آپ پاکستان میں ہیں۔
اگر آپ پاکستان کی سیر کو نکل جائیں، خاص طور پر شمالی علاقہ جات میں تو آپ کو پاکستان سورۂ رحمان میں موجود مناظر کی ایک شبیہ نظر آئے گا۔ گوکہ جنت کا تو تصور بھی انسانی دماغ نہیں کرسکتا مگر یہ پہاڑ اور دوسرے قدرتی مناظر بھی تو رب تعالیٰ کی مصوری کے ہی شاہکار ہیں اور رب تعالیٰ فرماتا ہے کہ پس تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔
ان قدرتی مناظر کو دیکھ کر جہاں اللہ تعالیٰ کی بڑائی اور اس کی شان مصوری کا احساس ہوتا ہے، وہیں یہ خیال بھی دل میں آتا ہے کہ پاکستان مقامی اور غیر مقامی سیاحوں کی جنت ہے اور اگر سیاحت کو صحیح معنوں میں صنعت کا درجہ دے کر اس پر سنجیدگی سے کام کیا جائے تو بہت سا زر مبادلہ کمایا جاسکتا ہے۔
جیسا کہ پہلے ذکر ہوا کہ پاکستان ان چند ممالک میں سے ہے جہاں چاروں موسم اپنی پوری تابناکیوں کے ساتھ جلوہ گر ہوتے ہیں اور یہی چیز خاص طور پر غیر ملکی سیاحوں کےدلوں کو بہت لبھاتی ہے۔ اس کے علاوہ دنیا کے 14 بلند ترین پہاڑوں (جن کو 8 thousanders بھی کہا جاتا ہے، یعنی جن کی بلندی آٹھ ہزار میٹر یا ستائیس ہزار فٹ سے زیادہ ہے) میں سے پانچ پاکستان میں موجود ہیں۔ یہ خاصیت دنیا بھر سے کوہ پیماؤں کو پاکستان کھینچ کر لے آتی ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جنگلوٹ کے مقام کے پاس دنیا کے تین بلند ترین پہاڑی سلسلے یعنی ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کا ملاپ ہوتا ہے جو جغرافیہ دانوں اور سیاحوں کےلیے دل موہ لینے والا نظارہ ہے۔ ان پہاڑی سلسلوں کی وجہ سے پاکستان میں کئی ایسے مقامات ہیں جو پیراگلائیڈنگ کےلیے بہت موزوں ہیں۔ اب بھی ہنزہ، نلتر اور دیگر وادیوں میں غیر ملکی اس سے لطف اندوز ہونے آتے ہیں لیکن اس تعداد کو تھوڑی سی کاوش کرکے مزید بڑھایا جاسکتا ہے۔
پاکستان میں دل لگانے کےلیے صرف پہاڑ ہی موجود نہیں ہیں بلکہ ان پہاڑوں کے دامن میں اور وادیوں میں موجود چراگاہیں جن کو انگریزی میں میڈوز کہا جاتا ہے، اپنے اندر خوبصورتی اور شادمانی کا سامان لیے ہوئے ہیں۔ آپ چاہیں سری پائے میں ہوں یا چترال میں، یہ میڈوز آپ کے اندر ایک عجیب سی فرحت کا احساس بھر دیتے ہیں اور ان کی دور تک پھیلی ہوئی خوبصورتی دیکھ کر خالق کائنات کے آگے سجدہ ریز ہونے کو دل چاہتا ہے۔ ان کے علاوہ خوبصورت جنگلات اور ان میں ٹریکنگ کو سیاح زندگی بھر نہیں بھول پاتے، کیونکہ ان جنگلات کے راستوں میں سفر کرنا ایک رومانوی تجربہ ہوتا ہے۔
اگر پانیوں کی بات کریں تو پاکستان دریاؤں اور خوبصورت جھیلوں کےلیے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ چاہے ناران کی جھیل سیف الملوک ہو یا کاغان کی لولوسر جھیل، ہنزہ کی عطا آباد جھیل ہو یا اسکردو کی پرستان جھیل، ہر منظر یہاں نرالا اور ہر سفر منفرد ہے۔ مزید برآں پاکستان کے تمام صوبوں میں انتہائی دلکش اور پرشکوہ آبشار موجود ہیں جو دیکھنے والوں کو اپنے سحر میں مبتلا کردیتی ہیں۔ پھر چاہے بلوچستان کے چھوٹک آبشار ہوں یا سندھ کا کھادیجی، پنجاب کا نیلا سند ہو یا شمالی علاقہ جات کے منٹھوکا اور دھانی آبشار ہوں، سیاح اپنے دل وہیں چھوڑ آتے ہیں۔ یہ سب پاکستان کی خوبصورتی کا ایک اجمالی نقشہ ہے۔
گو مختلف ادوار میں مختلف حکومتوں کی طرف سے پاکستان میں سیاحت کے شعبے کو ترقی دینے کی کوشش کی گئی لیکن ابھی بھی بہتری کی بہت گنجائش باقی ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ پاکستان کی حکومتوں کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی اداروں نے بھی پاکستان کی سیاحت اور یہاں کی خوبصورتی کو دنیا بھر میں روشناس کروانے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے۔ برطانیہ کی برٹش بیک پیکر سوسائٹی نے 2018 میں پاکستان کو دنیا کی سب سے بہترین ایڈونچر جگہ قرار دیا۔ اسی طرح 2019 میں فوربس نے بھی پاکستان کو سیاحت کےلیے ایک بہترین مقام قرار دیا۔ یہ اور ان جیسے اقدامات کی بدولت 2020 میں پاکستان کی سیاحت میں 300 گنا اضافہ ہوا۔
ورلڈ ٹریول اینڈ ٹورازم کونسل کی ایک رپورٹ کے مطابق 2016 میں پاکستان کی GDP میں سیاحت کا حصہ 2.70 فیصد تھا۔ جب بھارت اور چین اپنی سیاحت سے سالانہ بیس بلین ڈالر سے زیادہ کما سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں؟ ہمیں سنجیدگی سے مختلف پہلوؤں پر غور کرنے کی اور NTCD اور PTDC جیسے اداروں کو صحیح معنوں میں فعال بنانے کی ضرورت ہے۔
مندرجہ ذیل اقدامات کرکے پاکستان میں سیاحت کو فروغ دیا جاسکتا ہے اور اس سے زر مبادلہ کمایا جاسکتا ہے۔
1۔ سب سے پہلے تو وہ مقامات جو سیاحوں کےلیے سب سے زیادہ دلچسپی کا باعث ہیں، وہاں کے مقامی افراد کو اس بات کا ادراک کروایا جائے کہ حکومت پاکستان آپ کے علاقے میں سیاحت کے فروغ کی کوششیں کررہی ہے اور آپ کی مدد کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے، یعنی ان کاوشوں میں مقامی افراد کی شرکت کو یقینی بنایا جائے۔
2۔ مقامی طور پر کاروبار کو ترقی دینے کے اقدامات کیے جائیں کیونکہ اگر مقامی لوگ خوشحال ہوں گے اور جب وہ یہ دیکھیں گے کہ ان کے کاروبار میں بہتری سیاحوں کی آمد کی وجہ سے آرہی ہے تو وہ حکومت کے ساتھ مل کر پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت سیاحت کے فروغ میں اہم کردار ادا کریں گے۔
3۔ پاکستان میں ثقافتی میلوں اور ان جیسی تقریبات کا زیادہ سے زیادہ انعقاد کیا جائے اور ان کو پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعے زیادہ سے زیادہ کوریج دی جائے، تاکہ پوری دنیا تک پاکستان کی خوبصورتی، یہاں کی ثقافت اور یہاں کا سوفٹ امیج پہنچے۔
4۔ ایک بہت ہی ضروری مگر ابھی تک نظرانداز قدم اس ضمن میں ہوٹلوں کی صفائی اور بنیادی سہولیات کی فراہمی ہے۔ ہمارے سیاحتی مقامات پر ایسے ہوٹل بہت ہیں جہاں پر صفائی کا بندوبست نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے سیاحوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
5۔ سیاحتی مقامات تک جانے والی سڑکوں اور پلوں کی تعمیر پر توجہ دی جائے کہ اس سے وقت اور پیسہ دونوں کی بچت ہوتی ہے۔
6۔ انتہائی فعال پرائس چیکنگ اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا جائے، جو اس امر کو یقینی بنائے کہ کوئی بھی ہوٹل، جیپ والے یا اسی طرح کی سیاحتی سہولیات مہیا کرنے والے سیاحوں سے چیزوں یا خدمات کی منہ مانگی رقم وصول نہ کریں۔
ان تمام اقدامات کو صحیح معنوں میں لاگو کرکے پاکستان کو سیاحت کےلیے دنیا کے بہترین مقامات میں سے ایک بنایا جاسکتا ہے اور اپنے جی ڈی پی میں بھی خاطر خواہ اضافہ کیا جاسکتا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔