پاکستان بچانے کا وقت ہے

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 1 مارچ 2014

جس وقت ہم قدیم تاریک ماضی کی طرف دیکھتے ہیں تو ہمارا ریشہ ریشہ کانپ اٹھتا ہے سب سے پہلے ہمیں وہ تنگ وتاریک غار نظر آتے ہیں جہاں مقدس اژدھے کنڈلیاں مارے ہوئے قربانیوں کا انتظار کررہے ہیں ۔ان کے جبڑے کھلے ہوئے ہیں ان کی زبانیں باہر نکلیں ہوئی ہیں آنکھیں چمک رہی ہیں اور زہریلے دانت خون آلود ہیں۔ جاہل ماں باپ اپنے معصوم بچوں کو اس افعی دیوتا کے حضور پیش کرتے ہیں وہ اس چیختے تڑپتے ہوئے بچے کو اپنے بل میں لپٹ کر پیس ڈالتا ہے اور بے رحم والدین اس ہدیہ کو قبول ہونے پر خوش خوش واپس چلے جاتے ہیں ۔اس کے بعد ہمیں وہ عبادت گاہیں نظر آتی ہیں جن کو بڑے بڑے پتھروں سے تیارکیا گیا ہے یہاں کی قربان گاہیں بھی خون سے رنگین ہیں اور مقدس پجاریوں کے خنجر معصوم لڑکیوں کے سینوں میں پیوست نظر آتے ہیں اس کے بعد کچھ اور معبد سامنے آتے ہیں جہاں مقدس آگ کی روشنی کو انسانی گوشت وخون سے قائم رکھا جاتا ہے پھر چند عبادت گاہیں اور دکھائی دیتی ہیں جن کی قربان گاہیں بیلوں اور بھیڑوں کے خون سے تر ہیں اس کے بعد ہی ہمیں کچھ اور معبد کچھ اور پجاری کچھ اور قربان گاہیں نظر آتی ہیں۔ جہاں انسانی آزادی کی بھینٹ چڑھائی جاتی ہے۔

خدا کے معبد تو نہایت عظیم الشان ہیں لیکن کسانوں کے پاس جھونپڑا تک نہیں پجاریوں اور بادشاہوں کے جسم زرکارعباؤں سے آراستہ ہیں لیکن رعایا کے پاس جسم ڈھانکنے کو بو سیدہ سا چیتھڑا بھی نہیں اور کیا دیکھتے ہیں یہ کہ قید خانے انسانوں سے بھر ے ہیں خارج البلد خانماں ، بر باد بوڑھے ، بچے ، عورتیں پہاڑوں اور صحراؤں میں سر ٹکرارہے ہیں ۔ اف وہ تاریک قید خانے وہ زنجیروں کی جھنکار وہ آگ کے بلند شعلے وہ جھلسے ہوئے سیاہ چہرے وہ اینٹھے ہوئے اعضا وہ شکنجوں میں کسے ہوئے ہزاروں معصوم انسان اور ان کے جسموں کے اعضاء کے ٹوٹنے کی آوازیں ۔ اس کے بعد جو ہماری نگا ہ اٹھتی ہے تو افق میں ہمیں ایک نئی روشنی نظر آتی ہے انسانی جسموں کی راکھ کے ڈھیر سے ایک نیا آفتاب طلوع ہوتاہوا معلوم ہوتاہے یعنی عقل ومذہب آزادی کاسورج ۔ اب غلامی کی زنجیریں آہستہ آہستہ ٹو ٹ رہی ہیں قربان گاہیں فنا ہوتی جاتی ہیں معبد مسمار ہورہے ہیں زبان کی بندشیں اٹھتی جاتی ہیںذہن و عقل کے قفل ٹوٹتے جارہے ہیں ۔

ہمیں معلوم ہو  رہاہے کہ یہ سارے ظلم و ستم خداکے نام پر روا رکھے جارہے ہیں ان ساری مصیبتوں اور تکلیفوں کا ارتکاب مذہب کے نام پر ہورہا ہے مذہب کی ہی آڑ میں عقل و فہم پر پہرے بٹھانے کا عمل ہورہا ہے کفر والحاد کے فتو ے جاری ہورہے ہیں۔ہمیں یہ بھی پتا چل رہا ہے کہ یہ سارا عمل ذاتی مفادات کے لیے کھیلا جا رہا ہے اس وقت ہمیں دو راستے نظر آرہے ہیں ایک وہ جو ہمیں  انتہا پسندی کی طرف لے کر جا رہاہے اور دوسرا وہ جو عقل کی رہبری کی طرف جا رہا ہے۔ سو اول الذکر کا تجربہ کافی ہو چکا ہے اور ہمیشہ اس کانتیجہ ایک ہی نکلا ہے فلسطین میں اس کا تجربہ کیاگیا لیکن اہل فلسطین کی انتہا پسندی ان کو تباہ و برباد ہونے سے نہ بچا سکی وہ مفتو ح ومغلو ب ہوکر صدیوں تک امداد خدا وندی کاانتظار کرتے رہے اور اس توقع پر زندہ رہے کہ خدا نہیں پھر مجتمع کرے گا۔ لیکن صدیاں گزرگئیں اور ان کی یہ تمنا پوری نہ ہوئی اس کا تجر بہ سوئٹرزلینڈ میں کیاگیاوہاں بھی سوا غلامی کے اور کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا ترقی کی تمام راہیں مسدود کر دی گئیں اور صرف ان لوگوں کو آزادی کے ساتھ بولنے کا حق رہا جو صاحب جاہ و ثروت تھے عوام سے ان کی تمام خو شیاں چھین لی گئیں ان کے لیے ہنسنا ممنوع قرار پایا اور سوائے رنج و غلامی کے کچھ نہ ملا ۔اسکاٹ لینڈ میں بھی مذہبی انتہاپسندی کا تجربہ ہوااور نتیجہ یہ نکلا کہ عام لوگوں کو غلام بن کر رہنا پڑا پادری ہر خاندان میں گھس جاتے تھے اور خوف و وہم پرستی پھیلا پھیلا کر لوگوں کی عقلیں سلب کررہے تھے وہ اپنی ہدایات کو الہام ربانی کہتے تھے اور ان سے انحراف کرنے والوں کو عذاب خداوندی کا مستوجب قرار دیتے تھے۔

انگلستان میں مذہبی انتہاپسند حکومت نے جوگل کھلا ئے وہ بھی کسی سے مخفی نہیں۔ پادری خدا کے بیٹے بنے ہوئے آسمان و زمین کی ملکیت کادعو یٰ کررہے تھے۔ جنت ودوزخ کی کنجیاں ان کے ہاتھ میں تھیں اور جس کو جہاں جی چاہتا تھا اس میں دھکیل دیتے تھے کوڑے لگوانا اور قید وبند میں ڈال دینا معمول کی بات تھی ۔ پھر جب ہم اپنے حال کی طرف دیکھتے ہیں تو ہمارا ریشہ ریشہ ایک بار پھرکانپ اٹھتا ہے صدیوں بعد وہی سب کچھ وہی سارا کاسارا عمل ہمارے ہاں کھیلا جارہاہے۔ وہی درندگی  وہی وحشت، وہی خو نخواری ، وہی لوگوں کو غلام بنانا ، وہی معصوم لوگوں کو سزائیں دینا جاری و ساری ہے ماضی میں دنیا بھر میں جبراً انتہاپسندی کا راج قائم کرنے کی تمام کو ششیں ناکامی سے دوچار ہوچکی ہیں لیکن اس کے باوجود پاکستان میں کچھ عناصر اسی عالمگیر ناکامی کو جبراً پاکستان میں کامیاب کرنا چاہتے ہیں۔ دنیا کے تقریباً تمام ممالک اپنی طویل ترین جہالت ، انتہاپسندی ، رجعت پسندی اور انتشار کے بعد اپنے اندر ایک ایسا نیا سماج پیدا کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں جس کی بنیاد انسانیت ، رواداری ، محبت ، عدل وانصاف ، روشن خیالی ، برداشت ، تحمل پر قائم ہے یہ تمام کے تمام ممالک ترقی یافتہ ، خوشحال ہیں ۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان تمام ممالک کی فہرست میں ایک بھی مسلمان ملک شامل نہیں ہے ان تمام ترقی یافتہ اور خوشحال ممالک میں بسنے والے تمام مسلمان بھی انتہائی مہذب ، خو شحال ، قانون پسند ، تعلیم یافتہ ، روشن خیال اور مذہبی رواداری پر مکمل یقین رکھنے والے ہیں اور انہیں اس سماج میں کسی بھی قسم کی نسلی یا مذہبی تفریق کا سامنا نہیں ہے اور نہ ہی نفرت کا بلکہ وہ اپنی مذہبی عبادات کے لیے مکمل آزاد ہیں انھوں نے اپنے سماج میں اختلاف کے باوجود محبت اور اتحاد کے ساتھ جینا سیکھ لیاہے اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان ماحول کے سانچے میں ڈھل کر ویسا ہی ہو جاتاہے ، ایسا نہیں ہے کہ ان ممالک میں مسائل پیدا نہیں ہوتے جب مسائل پیدا ہوتے ہیں تو سب متحد ہو کر ایمانداری کے ساتھ نہ صرف مسائل کا سامنا کرتے ہیں بلکہ اپنا اپنا کردار بخو بی اداکرتے ہیں ۔پاکستان میں چند عناصر نوجوانوں ،خواتین ، بچوں ، بزرگوں کی آزادی ، خو شحالی ، عقل ودانش سب کچھ غصب کر نا چاہتے ہیں اور انہیں غلام بنانا چاہتے ہیں ،آئیں ہم سب مل کر پاکستان میں ایک نیا سماج پیدا کرنے کی کوشش کریں جس میں رواداری ہو ، برداشت، محبت ، اخوت، تحمل ،ایک دوسرے کا احترام ہو ۔ہمارا وجود پاکستان کے دم سے ہی وابستہ ہے یہ وقت شعلہ نوائی ، پوائنٹ اسکورنگ والی ڈرامائیت سے بھرپور سیاست کرنے کا نہیں بلکہ پاکستان بچانے کا وقت ہے ان حالات پر سیاست کر نیوالے پاکستان کے خیر خواہ ہرگز نہیں ہوسکتے ۔آئیں ہم سب مل کر ان عناصر کے خلاف جرات ، ہمت ، بہادری کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوں جو مملکت عزیز کو تاریکیوں میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔