ارکان اسمبلی کی مجبوری اور مصلحت

محمد سعید آرائیں  منگل 31 مئ 2022
m_saeedarain@hotmail.com

[email protected]

ارکان اسمبلی سے متعلق یہ عام شکایت ہے کہ وہ اپنے ایوانوں سے اکثر غیر حاضر رہتے ہیں اور بہت کم اسمبلی کے اجلاسوں میں شریک ہوتے ہیں۔ یہ شکایات صوبائی اسمبلیوں کے مقابلے میں قومی اسمبلی میں زیادہ ہیں جہاں ارکان کا کورم مشکل سے پورا ہوتا ہے اور بعض دفعہ کورم کے بغیر ہی اجلاس جاری رکھا جاتا ہے جس پر حکومتی اور اپوزیشن ارکان نشاندہی نہیں کرتے جب کہ درجن کے قریب ارکان اسمبلی قانون سازی کرتے رہتے ہیں یا تقریر کا شوق پورا کرتے ہیں۔

ارکان کے پرائیویٹ ڈے پر وزرا آتے ہی نہیں کیونکہ ارکان کے سوالوں کے جواب دینا پڑتے ہیں جس سے بچنے کے لیے غیر حاضر وزیر کے سوال کے جواب دوسرا وزیر یا متعلقہ پارلیمانی سیکریٹری ہی دیتا ہے۔

371 کے قومی اسمبلی کے ایوان میں کارروائی چلانے کے لیے ارکان کی تعداد کم ازکم نصف تو ہونی چاہیے مگر دس فیصد ارکان بھی موجود نہیں ہوتے اور کم ارکان کی موجودگی میں قومی اسمبلی کا اجلاس جاری رکھا جاتا ہے کیونکہ مقررہ دن پورے کرنے ہوتے ہیں۔ ارکان کی اکثریت صرف وزیر اعظم کی ہدایت پر موجود ہوتی ہے کیونکہ حکومت نے اپنی مرضی کے فیصلے لینے ہوتے ہیں۔

بجٹ اجلاسوں میں بھی ارکان کی حاضری نمایاں نہیں ہوتی۔ وزرا تک اکثر غیر حاضر رہتے ہیں اور اپنے دفاتر میں بیٹھے ارکان سے گپ شپ یا اجلاس کرتے رہتے ہیں۔ وزیر اعظم کی آمد پر ہی ایوان بھرا ہوتا ہے۔ ارکان اسمبلی اپنی اسمبلیوں کے اجلاسوں کے موقعے پر اسلام آباد، کراچی، لاہور، پشاور اور کوئٹہ آتے ہیں۔ حاضری رجسٹر میں الاؤنس لینے کے لیے حاضری لگاتے ہیں، موڈ ہو تو ایوان میں آ جاتے ہیں ورنہ کیفے ٹیریا میں بیٹھے رہتے ہیں۔ کورم پورا کرنے کے لیے گھنٹیاں بجتی رہتی ہیں مگر نظر انداز کر دی جاتی ہیں اور اپنی مرضی سے ہی ایوان میں آیا جاتا ہے۔

ایوان میں آنے کے لیے پارٹی ٹکٹوں کے لیے سیاستدان پہلے اپنی پارٹی کو مقررہ فیس کے ساتھ درخواستیں دیتے ہیں، سفارش کراتے ہیں تب کہیں جا کر ٹکٹ ملتا ہے جس کے بعد کروڑوں روپے خرچ کرکے الیکشن لڑنے کی تیاری کرتے ہیں۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ پارٹی کا سربراہ یا دیگر مرکزی رہنماؤں کو اپنے حلقے کے جلسے میں بلائے مگر مرکزی رہنما خود اپنے حلقوں میں مصروف ہوتے ہیں۔

ملک میں ایسے سیاستدان بھی ہیں جن کے حلقے آبائی اور ان کی سیاست اپنے حلقوں تک محدود ہوتی ہے یہ لوگ الیکٹ ایبل کہلاتے ہیں جنھیں پارٹیوں کی نہیں بلکہ پارٹیوں کو ان کی ضرورت ہوتی ہے اور پارٹیاں خود انھیں اپنا ٹکٹ دینا چاہتی ہیں۔ متعدد بااثر اپنے حلقوں میں آزادانہ طور پر الیکشن لڑتے ہیں اور کامیاب ہو کر اپنی مرضی کی پارٹی میں شامل ہو جاتے ہیں یا انھیں شامل کرایا جاتا ہے۔

بعض ارکان کامیاب ہو کر اپنی آزادانہ حیثیت برقرار رکھتے ہیں تاکہ انھیں کسی پارٹی سربراہ کی غلامی میں آنا نہ پڑے۔ آج کل کے پارٹی سربراہ اپنی پارٹیوں کے سربراہ نہیں مالک ہوتے ہیں۔ پارٹی میں وہ مکمل مطلق العنان ہوتے ہیں۔ ٹکٹوں کی تقسیم کے لیے ہر پارٹی میں پارلیمانی بورڈ ضرور بنتے ہیں جو ٹکٹوں کی تقسیم کی صرف سفارش کرسکتے ہیں فیصلہ پارٹی کے سربراہ نے کرنا ہوتا ہے ۔

پارٹی سربراہ کیونکہ پارٹی میں مالک و خودمختار ہوتا ہے اس لیے اپنی پارٹی کے غلط ٹکٹ بھی جاری کردیتا ہے جس سے ناراض ہو کر امیدوار آزادانہ طور پر پارٹی امیدوار کے خلاف الیکشن لڑتا ہے اور اپنی طاقت پر کامیاب بھی ہو جاتا ہے۔ پارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے ارکان کو پہلے اپنے پارٹی سربراہ کی خوشنودی حاصل کرنا پڑتی ہے۔

اب بڑی پارٹی یا حکومتی پارٹی اپنے ارکان کو مکمل کنٹرول میں رکھنے کے لیے قوانین بنوا چکی ہیں اور بعض معاملات میں رکن اسمبلی اپنی پارٹی کا حکم ماننے کا پابند ہوتا ہے۔ پارٹی سربراہ کی اپنی پارٹی میں ہر بات حکم کا درجہ رکھتی ہے وہ جو چاہے فیصلہ کرے رکن اسمبلی کو اس کا حکم ہر حال میں ماننا پڑتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ بعض ارکان بڑے باضمیر بنتے ہیں تو پارٹی سربراہ کا حکم کیوں مانتے ہیں؟ مستعفی کیوں نہیں ہو جاتے۔ ایسا اعتراض کرنا تو بڑا آسان ہے اگر وہ خود ان کی جگہ ہوں تو وہ بھی مجبوری میں حکم عدولی نہ کریں۔

پارٹی سربراہ کی حکم عدولی ہر رکن کے بس میں نہیں۔ کم ہی لوگ ہوتے ہیں جن کا اپنا ووٹ بینک ہوتا ہے وہ پارٹی ٹکٹ کے محتاج نہیں ہوتے۔ اسمبلی میں رہنا مجبوری اور دوبارہ جیت جانا آسان نہیں ہوتا۔ ارکان اسمبلی کو مجبوری میں اپنے پارٹی کے سربراہ کی ہاں میں ہاں ہر حال میں ملانا ہی ہوتی ہے ورنہ وہ پارٹی میں غدار اور منحرف شمار ہوتا ہے۔ ایم کیو ایم کی مثال موجود ہے جہاں قائد کے غدار کو موت کا حق دار قرار دیا جاتا ہے۔

پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے اپنی پارٹی کے منحرفین کے خلاف جتنا سخت موقف اختیار کیا ہے اس کی مثال کسی اور پارٹی میں نہیں ملتی۔ جماعت اسلامی کے سوا ہر بااثر پارٹی میں اس کے سربراہ کی مکمل من مانی چلتی ہے جس کی بات سے انحراف مشکل ہی نہیں ناممکن ہے اور کہنے کی حد تک ہی کہا جاتا ہے کہ مرکزی کونسل میں مشاورت سے فیصلے ہوتے ہیں جو بالکل غلط دعویٰ ہے۔

کسی رکن کے اختلاف کی خبر باہر آجائے تو اسے جمہوریت کا حسن کہا جاتا ہے مگر اس کی پارٹی میں سرزنش کی جاتی ہے جس پر بعض تو مجبور ہو کر چپ سادھ لیتے ہیں اور بہت کم ہی ہوتے ہیں جو مصلحت سے کام نہیں لیتے پارٹی میں کھل کر اپنی رائے کا اظہار کرکے’’ غدار‘‘ کہلاتے ہیں۔ اسمبلیوں کے اجلاسوں میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ تقاریر کرنے والے ارکان کی تعداد محدود ہوتی ہے جب کہ اکثر ارکان خاموش رہنے کو ترجیح دیتے ہیں اور بہت کم بولتے ہیں۔

برسر اقتدار پارٹی کے رہنما بھی چاہتے ہیں کہ ان کی پارٹی کے ارکان اپنے حلقے کے مسائل پر ایوان میں بات نہ کریں اور خاموش ہی رہا کریں۔ خاموش رہنے والوں کے کام نہیں ہوتے اور احتجاج پر مشکل سے ہوتے ہیں جب کہ وزیروں اور عہدیداروں کے کام دھڑا دھڑ ہوتے ہیں اور زیادہ شکایات کرنے والوں کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔ ہر حکومت میں ترقیاتی کاموں میں اپوزیشن کو نظر انداز کیا جاتا ہے تو وہ مجبوراً حکومت سے اندرون خانہ مل جاتے ہیں تو حکومت انھیں باضمیر اور اگر اپنے ہی ناراض ہو کر کچھ فیصلہ کریں تو وہ منحرف قرار دیے جاتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔