فنِ پہلوانی، لاہور کی سنہری یادگار

ثمینہ فاضل خان  بدھ 21 ستمبر 2022
سال میں دو سے تین بار دنگل منعقد ہوتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

سال میں دو سے تین بار دنگل منعقد ہوتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

دنیا کی ہر قوم کے اپنے رسم و رواج ہوتے ہیں، جو اس قوم اور علاقے کے مخصوص ماحول، اقدار اور عقائد سے تخلیق پاتے ہیں اور معاشرے کے رجحانات، طور طریقوں اور نفسیاتی رجحانات سے نمو پاتے ہیں۔ معاشرتی میل جول اور تقریبات معاشرے میں انسانوں کے اختلاج کا ذریعہ ہے، اس کے بغیر انسان دنیا میں تنہا رہ جاتا ہے جیسا کہ آج کل عام نظر آتا ہے۔ لوگ ایک دوسرے سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ جدید طرز زندگی نے روایات کو کچل دیا ہے جبکہ یہی روایات معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ یونان، روما، اسپارٹا، قرطاجنہ، مصر، عرب، ایران اور ہندوستان میں جسمانی ورزش پر بہت زور دیا جاتا تھا۔ ثقافت جو اپنی روایات بھولنے لگے وہ بہت جلد معدوم ہوجاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ پنجابی ثقافت آہستہ آہستہ ختم ہوتی جارہی ہے۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ وہاں کے پہلوانوں اور سپہ سالاروں مثلا ہرقلیز، حمزہ علی معدی کرب، رستم، سہراب، اسفندیار، افراسیاب، بھیم اور ارجن نے چہار دانگ عالم شہرت حاصل کی اور تاریخ عالم میں اپنے نام سنہری حروف میں لکھا گئے۔ یہی وجہ تھی کہ بادشاہ، مہاراجگان، امراء اور روسا شہ زور پہلوانوں کی سرپرستی کرتے اور انھیں خلعتوں اور انعام و اکرام سے نوازتے تھے۔

برصغیر میں ریسلنگ کی ایک مشہور اور روایتی قسم کا نام پہلوانی ہے۔ ہندوستان میں بھی پہلوانی اور کشتی کا فن زمانہ قدیم سے چلا آیا ہے اور ہر جگہ بڑے بڑے اکھاڑے قائم تھے۔ گوجرانوالہ شہر کو آج بھی پہلوانوں کا شہر کہا جاتا ہے، اس شہر نے بہت سے نامور پہلوان پیدا کیے ہیں۔ لاہور ایک قدیم تاریخی شہر ہے، ناممکن تھا کہ یہاں یہ فن رائج نہ ہوتا۔ لاہور مادی و غیر مادی ورثہ و ثقافت کا مجموعہ ہے۔ اکھاڑے اور کشتی کا روایتی انداز غیر مادی ثقافت کی ایک اہم مثال ہے۔ ایک وقت تھا کہ ہم لاہور کے اکھاڑوں میں لڑی جانے والی کشتیوں، مقامی اور غیرملکی پہلوانوں کی کہانیاں سنا کرتے تھے۔ ہمارے بزرگ بڑے فخر اور خوشی سے اپنی ثقافت کی کہانیاں سنایا کرتے تھے۔ دنگل اور پہلوان ہمیشہ سے لاہور کی ثقافت کا اہم جزو رہے ہیں۔

1947 سے پہلے لاہور کے سب بڑے دنگل منٹو پارک کے اکھاڑے میں منعقد ہوا کرتے تھے۔ پہلوان ان مقابلوں میں شرکت کےلیے پورا سال محنت کرتے تھے۔ نقوش لاہور نمبر کے مطابق لاہور میں چوبیس اکھاڑے موجود تھے جو 1980 کی دہائی تک بارہ رہ گئے اور آج کل اندرون شہر لاہور میں صرف چار اکھاڑے موجود ہیں۔

جو دو گروپ آج بھی موجود ہیں، وہ یہ ہیں
1۔ کالو والے
2۔ نورے والے
ان دو گروپس کے تحت اس وقت چار اکھاڑے موجود ہیں۔
1۔ کھائی والا اکھاڑہ، فورٹ روڈ
2۔ کھائی والا اکھاڑہ، فورٹ روڈ (کالو والے) (نواں بازار)
3۔ شیدے پہلوان دا اکھاڑہ، لوہاری دروازہ
4۔ نورے والا اکھاڑہ، منٹو پارک

اکھاڑا اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں پہلوان ورزش کرتے، ٹریننگ لیتے اور پہلوانی کی پریکٹس کرتے ہیں۔ زمین کا یہ حصہ کچی زمین کا ٹکڑا ہوتا ہے۔ اس حصے کی زمین کو نرم بنایا جاتا ہے تاکہ پہلوانوں کو چوٹ نہ لگے۔ ان پہلوانوں سے مل کر پتہ چلتا ہے کہ ان کی زندگی کتنی مشکل ہے۔ یہ لوگ عشاء کی نماز کے فوراً بعد سو جاتے ہیں اور صبح سویرے تین بجے جاگنے کا وقت ہے۔ اس کے بعد یہ اپنے پٹھوں کو مضبوط بنانے کےلیے جسم پر تیل کی مالش کرتے ہیں۔

اس فن میں اچھی غذا اور خوراک بہت اہم ہے تاکہ پہلوان اپنی طاقت اور مناسب وزن دونوں کا خیال رکھ سکے۔ پہلوانوں کو اپنی غذا کا خاص خیال رکھنا ہوتا ہے۔ جیسا کہ دودھ، مکھن، بادام، سردائی، دیسی گھی اور انڈے وغیرہ کا استعمال وافر مقدار میں کیا جاتا ہے۔ صبح سویرے دس کلو سے زائد سردائی، دودھ اور بادام کھانے ہوتے ہیں، جس کے بعد پہلوان ورزش کا آغاز کرتے ہیں۔ منجھے ہوئے پہلوان ایک طرف بیٹھ کر ان پہلوانوں کو ورزش اور کشتی کی پریکٹس کرتا دیکھتے ہیں اور ان کی داؤ پیچ کی غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ہر ایک پہلوان کےلیے اچھی صحت برقرار رکھنے کےلیے شام میں گوشت اور دیسی گھی کھانا لازمی ہے۔ صبح کے وقت کشتی سے پہلے جسم پر تیل سے مالش پر روزانہ 60 روپے کا تیل درکار ہوتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق آج کل ایک پہلوان کی خوراک کا یومیہ خرچ 4000 روپے ہے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پہلوانی ماضی کے معزز پیشوں میں سے ایک ہے۔ پہلوانوں کو اپنے گلی محلے میں بہت قدر و منزلت حاصل ہوتی تھی اور ان کے علاقوں میں جرائم نہ ہونے کے برابر ہوتے تھے، کیونکہ جرائم پیشہ لوگ ان سے ڈرتے اور یہ پہلوان اپنے گلی محلے کے رکھوالے تصور کیے جاتے تھے۔ حتیٰ کہ آج کل بھی اندرون شہر میں دوسروں کو تکریم دینے کےلیے پہلوان جی کا خطاب استعمال کیا جاتا ہے۔

قدیم زمانے میں اکھاڑے خلیفوں کی زیر نگرانی کام کرتے تھے، ان ہی کی بدولت یہ فن اب تک زندہ رہا۔ خلیفہ ایک ٹائٹل ہوتا ہے، جو پہلوانوں کی غذا، ہڈیوں کی نشوونما، ہڈیوں کو جوڑنے، پہلوانوں کو لاحق بیماریوں کی دیسی ادویہ تیار کرنے، کشتی کی تیاریوں کے مختلف مراحل، اکھاڑے کی مٹی اور کسرت کے اوزار کی تیاری، لنگوٹ کی حفاظت (جنس مخالف)، غصے پر قابو پانے کی عادت کے خاتمے کے ہنر سے واقفیت اور خواتین کو دیکھ کر نظروں کو جھکائے رکھنے جیسے اخلاق سکھاتا تھا۔ خلیفہ کا لقب اُس شخص کو دیا جاتا تھا، جس کی بات پہلوان ٹال نہیں سکتے تھے اور اسے باپ کا درجہ دیتے تھے۔ خلیفہ خود پہلوان نہیں ہوتا مگر ’’پہلوان گر‘‘ ضرور ہوتا ہے۔

یہ فن دن بہ دن زوال کا شکار ہے۔ پہلوان آہستہ آہستہ اس کھیل سے بددل ہوتے جارہے ہیں. ایک زمانہ تھا کہ لاہور نے جھارا پہلوان جیسے پہلوان پیدا کیے، جس نے چودہ گھنٹے کے مقابلے میں ہلک ہوگن کو شکست دی۔ گاما پہلوان (جسے رستم ہند اور بعد میں رستم جہاں کا خطاب ملا) نے امریکی پہلوان بنجامن رولر کو ایک منٹ چالیس سیکنڈ میں شکست دی۔ 1935 میں انھوں نے پولینڈ کے چیمپئن زبیسکو کو چالیس سیکنڈ میں شکست دی۔ گاما پہلوان نے جاپان کے مشہور زمانہ پہلوان اناکو اور جے سی پیٹرسن کو پنتالیس سیکنڈ میں شکست دی۔ اس کے علاوہ جن پہلوانوں کو رستم ہند کا خطاب ملا ان میں امام بخش، حمیدہ پہلوان، غوث پہلوان، لالہ راج پہلوان، کالا پہلوان، اکا پہلوان، بلا پہلوان چابک سوار، بھولو پہلوان، کالا پہلوان شیشہ گر اور اچھا پہلوان وغیرہ شامل ہیں۔ یہ سب پہلوان لاہور اور اس ملک کی شان تھے۔ لیکن اب یہ شاندار کھیل زوال کے دہانے پر ہے۔

اس وقت لاہور میں چار اکھاڑے اور صرف ایک پہلوان ایسا ہے جس کا تعلق اس شہر سے ہے، ان کے علاوہ کچھ پہلوان دیگر شہروں سے آکر بھی ان اکھاڑوں میں پہلوانی کرتے ہیں جیسے کے بشیر (بھولا بھالا) پہلوان جو شاہدرہ کے رہائشی ہیں۔ یوسف پہلوان وہ واحد پہلوان ہیں جو دہلی دروازہ لاہور میں رہائش پذیر ہیں اور آج بھی اس فن کو اپنی زندگی بنائے ہوئے ہیں۔ ان کے والد محمد ریاض بلا پہلوان تھے جو ریلوے کی طرف سے پہلوانی کرتے تھے۔ انھوں نے 1960 اور 1970 میں دو بار کامن ویلتھ گیمز میں شرکت کی اور دونوں بار گولڈ میڈل جیت کر آئے۔ ان کے پڑدادا چنن دین پہلوان رستم ہند تھے۔ ان کی خواہش ہے کے یہ فن ان کی نسل میں آگے بڑھے لیکن مہنگائی اور حکومت کی طرف سے مناسب سرپرستی نہ ہونے کے باعث نئی نسل اس فن میں دلچسپی نہیں رکھتی۔

اچھے پہلوان آج بھی 4 سے 5 لاکھ ایک کشتی کا معاوضہ لیتے ہیں جبکہ عام پہلوان 5 سے 10 ہزار بھی لیتا ہے۔ سال میں دو سے تین بار دنگل منعقد ہوتا ہے، وہ بھی لوگ ذاتی طور پر منعقد کرواتے ہیں۔ جس سے پہلوانوں کو مواقع بہت کم ملتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور پاکستان اسپورٹس بورڈ اس کھیل اور پہلوانوں کو قومی اثاثہ سمجھیں اور اس فن کی ترویج کےلیے بہتر سے بہتر اقدامات کیے جائیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ثمینہ فاضل خان

ثمینہ فاضل خان

بلاگر والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر تاریخی ریسرچ ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔