- فیصل واوڈا نے عدالتی نظام پر اہم سوالات اٹھا دیئے
- پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرض کی نئی قسط 29 اپریل تک ملنے کا امکان
- امریکی اکیڈمی آف نیورولوجی نے پاکستانی پروفیسر کو ایڈووکیٹ آف دی ایئر ایوارڈ سے نواز دیا
- کوہلو میں خراب سیکیورٹی کے باعث ری پولنگ نہیں ہوسکی
- 9 ماہ کے دوران 9.8 ارب ڈالر کا قرض ملا، وزارت اقتصادی امور ڈویژن
- نارووال: بارات میں موبائل فونز سمیت قیمتی تحائف کی بارش
- کراچی کے مختلف علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے
- کوئٹہ: برلن بڈی بیئر چوری کے خدشے کے پیش نظر متبادل جگہ منتقل
- گجرات میں اسپتال کی چھت گرنے سے خاتون سمیت تین افراد جاں بحق
- سعودی فرمانروا طبی معائنے کیلیے اسپتال میں داخل
- امریکی سیکریٹری اسٹیٹ سرکاری دورے پر چین پہنچ گئے
- ہم یہاں اچھی کرکٹ کھیلنے آئے ہیں، جیت سے اعتماد ملا، مائیکل بریسویل
- پچھلے میچ کی غلطیوں سے سیکھ کر سیریز جیتنے کی کوشش کرینگے، بابراعظم
- امریکا میں ٹک ٹاک پر پابندی کا بل سینیٹ سے بھی منظور
- محمد رضوان اور عرفان خان کو نیوزی لینڈ کے خلاف آخری دو میچز میں آرام دینے کا فیصلہ
- کے ایم سی کا ٹریفک مسائل کو حل کرنے کیلئے انسداد تجاوزات مہم کا فیصلہ
- موٹروے پولیس اہلکار کو روندنے والی خاتون گرفتار
- ہندو جیم خانہ کیس؛ آپ کو قبضہ کرنے نہیں دیں گے، چیف جسٹس کا رمیش کمار سے مکالمہ
- بشری بی بی کو کچھ ہوا تو حکومت اور فیصلہ سازوں کو معاف نہیں کریں گے، حلیم عادل شیخ
- متحدہ وفد کی احسن اقبال سے ملاقات، کراچی کے ترقیاتی منصوبوں پر تبادلہ خیال
پاکستان کو درپیش چیلنجز
نئے آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کی تقرری آئین و قانون کے مطابق ہوچکی ہے۔ البتہ ان کی تقرری کو جس طرح سیاست کا موضوع بنایا گیا، جو تجزیے، تبصروں اور افواہوں کا کھیل سجایا گیا، وہ کسی بھی طور پر ملک اور عوام کے مفاد میں نہیں تھا۔
کچھ لوگ تو اس کھیل میں نئی مہم جوئی کی تلاش میں تھے مگر ایسا کچھ نہیں ہوسکا۔ دونوں کی تقرری میں سنیارٹی کے اصول کو بھی مدنظر رکھا گیا جو اچھی روایت ہے۔
یہ تقرریاں ایک ایسے ماحول میں ہوئی ہیں جب ملک کا سیاسی بحران کافی سنگین ہے۔ تجزیہ نگار موجود بحران کو محض سیاسی نہیں بلکہ معاشی بحران کے ساتھ جوڑ کر دیکھ رہے ہیں۔ کیونکہ پاکستان کو داخلی، خارجی، علاقائی اور معاشی محاذ پر کئی طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے۔
ملک میں محاذ آرائی میں بھی کمی نہیں آرہی ہے۔ یہ محاذ آرائی معیشت کے لیے زہر قاتل بن رہی ہے جو ریاست کے مفاد میں نہیں ہو سکتی ۔
نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل ساحر شمشاد دونوں کی پیشہ ورانہ صلاحیت اور اصول پسندی مسلمہ ہے اور سب اسے تسلیم کرتے ہیں۔ان تقرریوں کے بعد یہ امید کی جاسکتی ہے کہ ملک کے سیاسی منظر نامہ پر چھائی دھند ختم ہوجائے گی اور حکومت کو معیشت کے مسائل بھی کم کرنے کا موقع مل سکے گا ۔
کیونکہ سیاسی استحکام کی کنجی ہی ہمیں معاشی استحکام کی طرف لے کر جاسکتی ہے۔ اسی کنجی کی بنیاد پر ہماری ریاست اور نئی عسکری قیادت علاقائی اور عالمی سطح کے چیلنجز سے بھی بہتر طور پر نمٹ سکتی ہے ۔
اس وقت پاکستان کو چند بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ پہلا مسئلہ سیاسی محاذ آرائی اور معاشی مشکلات ہیں۔ تحریک انصاف اور اسٹیبلیشمنٹ کے درمیان ٹکراؤ ہے ، اسے ختم ہونا چاہیے تاکہ جذباتی نوجوان نسل کو خیالی دنیا سے عملی دنیا تک لانے کا عمل شروع ہو۔یہ تاثر کہ ہمارے سیاسی معاملات میں اوپر سے لے کر نیچے تک اسٹیبلیشمنٹ کا کردار بہت زیادہ حد تک بڑھ گیا ہے، اس تاثر یا رائے کو درست سمت میں لے جانا ہوگا۔
دوئم، اسٹیبلیشمنٹ نے ادارہ جاتی سطح پر یہ طے کرلیا ہے کہ مستقبل میں وہ کوئی سیاسی کردار ادا نہیں کرے گی۔ اعلان اور عملی اقدامات میں فرق ہوتا ہے اور دیکھنا ہوگا کہ اسٹیبلیشمنٹ اس پالیسی پر کس حد تک عمل جاری رکھتی ہے۔سوئم، اگلا برس ملک میں نئے انتخابات کا ہے۔ہمارے ہاں عمومی طور پر انتخابات کی شفافیت اور اس میں سیاسی مداخلت پر ایک لمبی کہانی موجود ہے۔
اصل اور بڑا امتحان 2023 کے انتخابات کی شفافیت کو یقینی بنانا ہے۔یہ عام انتخابات کا معرکہ ثابت کرے گا کہ اسٹیبلیشمنٹ کس حد تک اے پولیٹیکل ہے۔ چہارم، ملک میں سیاسی ہم آہنگی پیدا کرنا، بلوچستان کے لوگوں کو قومی دھارے میں لانا، فاٹا اور وزیرستان میں دہشت گردی کا خاتمہ کرنا ہوگا۔
ایک بات طے ہے کہ کوئی بھی سیاسی فریق یا ادارہ سیاسی تنہائی میں ملک کے مسائل کو حل نہیں کرسکتا۔ یہ عمل مختلف فریقین کی مشترکہ کوششوں سے ہی جڑا ہوا ہے۔
سیاسی قیادت کو اپنے بیانات کو ایشوز تک محدود رکھنا چاہیے ، روزانہ کی بنیاد پر بیانات ، ٹوئٹس اور ٹی وی انٹرویوز مسائل اور تنازعات کو پیدا کرتے ہیں، انھیں حل نہیں کرتے ۔اسی طرح اینکرز، تجزیہ کار، کالم نگار اور رپورٹر ز جلتی پر تیل کا کام کرتے ہیں،یہ لوگ بلاوجہ اداروں کو اپنی گفتگو کا حصہ بناتے ہیں۔
ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک مضبوط حکمت عملی درکار ہے کیونکہ جو تضاد اور تقسیم معاشرے میں موجود ہے اس سے نمٹے بغیر آگے کا راستہ مشکل ہوگا۔اس لیے مسئلہ محض ردعمل کی حکمت عملی سے جڑا نہیں بلکہ ٹھوس بنیادوں پر اور مسائل کی زیادہ گہرائی سے تجزیہ کے بعد اتفاق رائے پر مبنی ایجنڈا درکار ہے اور اگر ایسا کیا جاسکے تو تو یہ ہی ملکی مفاد میں ہوگا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔