پراجیکٹ بند کر دیں

جمیل مرغز  جمعـء 16 دسمبر 2022
jamilmarghuz1@gmail.com

[email protected]

عمرانیات اور ان کے لانگ مارچ کے بارے میں تفصیل تو محترم لطیف چوہدری نے اپنے کالم میں بیان کر دیں‘ باقی جو بچا ہے اس پر ہم روشنی ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں‘ کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ عمران خان کے وعدے‘ بیانات‘ الزامات اور یو ٹرنز بیان کرنے کے لیے ایک کالم بہت ہی کم ہے۔ قوم عجیب گھن چکر یا داستان امیر حمزہ کی طلسم ہوش ربا کے’’حمام باد گرد‘‘ میں پھنس گئی ہے۔

کسی کو دہشت گردی کے خطرے کا احساس ہے اور نہ سیلاب زدگان کی تکالیف اور مہنگائی کی ماری عوام کی فکر ہے۔

صبح اٹھو تو عمران خان اور رات ٹی وی بند کرو تو بھی عمران خان کی در فنطنیوں اور دھمکیوں پر تمام ٹی وی چینلز ایک لاحاصل بحث میں مصروف ہوتے ہیں۔ آرمی چیف کا تقرر بھی عمران خان نے ایک چیستان بنا دیا‘ وہ روزانہ کوئی پھلجڑی چھوڑتے ہیں اور خود ساختہ دانشور، سنیئر تجزیہ کار اور اینکرز اس کی حمایت یا مخالفت میں جت جاتے ہیں۔

سیاست میں دو قسم کی تنظیمیں ہوتی ہیں‘ ایک وہ جوکسی نظریئے اور نظام کو سامنے رکھ کر قائم ہوتی ہے، ایسے تنظیم یاجماعت کی قیادت اس نظریئے کو لے کر سیاست کرتی ہے اور عوام کے سامنے اپنا منشور پیش کرتی اور سیاست میں حصہ لیتی ہے‘ انتخابات میں جیت کر حکومت بناتی ہے، اپنے منشور پر عمل درآمد کرانے کی کوشش کرتی ہے اور آئینی مدت کے اختتام پر الیکشن میں جاتی ہے۔

اگر وہ الیکشن ہار جائے تو آئین اور جمہوری اصولوں کے مطابق اپوزیشن بنچوں پر بیٹھ کر اپنا کردار ادا کرتی ہے ، اور سیاسی مخالفین کے وجود کو ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کرتی ہے۔ دوسری قسم کی قیادت اور پارٹی وہ ہوتی ہے، جس کی بظاہر تنظیم بھی ہوتی ہے، منشور بھی ہوتا ہے، لیکن اس کا نظریہ انقلابی ہوتا ہے، ایسی جماعتیں انتخابات پر یقین نہیں رکھتیں بلکہ انقلابی حکومت قائم کرکے اپنا ایجنڈا نافذ کرنا چاہتی ہیں۔

اب سیاست میں ایک تیسرا فیکٹر متعارف ہوگیا ہے۔ یہ فیکٹر اسٹیبلشمنٹ اور اس کی اتحادی مقتدر قوتوں کا ہے ۔ یہ قوتیں جمہوریت اور آئین کے دائرہ کار میں رہ کر پراجیکٹ تیار کرتی ہیں، یہ پراجیکٹ خاص مقصد اور اہداف کے حصول کے لیے بنایا جاتا ہے ‘ جیسے ہی مقصد اوراہداف حاصل ہوتے ہیں ‘ پراجیکٹ ختم کردیا جاتا ہے۔

پراجیکٹ بیسڈ سیاسی لیڈرشپ فطری طور پر نہیں پروان نہیں چڑھتی یا اس میں وہ صلاحیت نہیں ہوتی،ایسی لیڈر شپ کو باقاعدہ پراجیکٹ کے انداز میں پروان چڑھایا جاتا ہے ، اس مقصد کے لیے پس پردہ قوتیں بے دریغ وسائل خرچ کرتی ہیں تاکہ اسے جمہوری انداز میں الیکشن کے ذریعے فاتح بناکر اقتدار پر بٹھا یا جائے۔ غریب اور پسماندہ ریاستوں ایسا ہی ہوتا ہے ۔

پاکستان میں بھی ہر دور میںکنگز پارٹی یا پراجیکٹ پارٹی اور لیڈرشپ سامنے آتی رہی ہے۔ تحریک انصاف کے طرز سیاست پر غور کریں تو یہی لگتا ہے کہ چاہے اس کی تشکیل بطور پراجیکٹ نہ ہوئی ہو لیکن بعد میں مقتدر حلقوں نے اس پارٹی کو پراجیکٹ بنا لیا ہو تاکہ نواز شریف اور زرداری سے جان چھڑائی جائے کیونکہ وہ اب بعض معاملات میں تابعداری کے بجائے آنکھیں دکھانے لگے تھے۔

تحریک انصاف ابتداء میںایک سیاسی پارٹی کے طور پر قائم ہوئی تھی ‘کم و بیش پندرہ سال تک وہ کوئی کامیابی حاصل نہ کر سکی ‘اس کی صفوں میں مایوسی تھی ‘ شاید اس مایوسی کا فائدہ پس پردہ قوتوں نے اٹھایا اورعمران خان کو اقتدار کی امید دلائی ‘ پھر انھیں سیاستدان کے بجائے ایک مسیحا بناکر پیش کیا گیا ‘تمام سیاسی مخالفین کو کرپٹ، نااہل اور پاکستان کی ترقی میں رکاوٹ ثابت کیا گیا۔

اس پراجیکٹ کا مقصد پارلیمانی سیاست‘ روایتی جمہوری پارٹیوں کا خاتمہ کرنا اور صدارتی نظام کے تحت یک جماعتی نظام کا قیام تھا ‘ بہرحال عمران خان کی مقبولیت تو بڑھی اور ساتھ نجات دہندہ کا تصور یا سوچ بھی جڑ گئی ، عمران خان کے عشاق اور پیرو کار اپنے لیڈر کی غلطی تسلیم کرنے کے لیے ہی تیار نہیں ہوتے، اسی لیے طنزاً کہا جاتا ہے تحریک انصاف پارٹی نہیں بلکہ ایک کلٹ(CULT) ہے۔

میری شیلے نے 1818میں ایک شاندار ناول فرینکسٹائن (FRANKENSTEIN)لکھا تھا‘ یہ ایک کیمیادان وکٹر فرینکنسٹائن کی کہانی ہے ‘جس کا دعوے تھاکہ وہ ایک ایسا انسان تخلیق کرے گا‘ جو انسانیت کی فلاح وبہبود کے کام آئے گا‘ اپنے اس پراجیکٹ کے تحت اس نے جو انسان تخلیق کیا، وہ لوگوں کی فلاح و بہبود کے بجائے انھیں مارنے لگا حتی کہ وہ اپنے تخلیق کار سائنسدان کو ختم کرنے پر تل گیا اور اس سائنسدان نے بڑی مشکلوں سے اپنی جان بچائی اور اس کو ختم کیا۔

اس سے ایک سبق ملتا ہے کہ جب کوئی تجربہ کیا جاتا ہے تو ضروری نہیں ہوتا کہ اس کے نتائج وہی نکلیں جنھیں سوچ کر تجربہ کیا جارہا ہے۔

سائنسی لیب میں جا کر دیکھیں تو بہت سے ناکامیوں کے بعد کہیں ایک تجربہ یا پراجیکٹ سو فیصد کامیاب ہوتا ہے۔ پاکستان میں مقتدر حلقوں نے ہائبرڈ جمہوریت کا جو تجربہ کیا یا پراجیکٹ لانچ کیا، وہ منصوبے یا مفروضے کے مطابق نتائج نہیں دے سکا بلکہ ریاست اور نظام کے لیے ہی خطرہ بن گیا ہے۔

2018کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن)نواز شریف کے بغیر حکومت بنانے پر راضی ہوجاتی تو پھر وزارت عظمی کا تاج شہباز شریف کے سر پرسجتا لیکن شہباز شریف نے اپنے بڑے بھائی کے ساتھ بے وفائی کے بجائے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں‘ یوں اقتدار کا ہما عمران خان کے سر پر بیٹھ گیا لیکن حالات نے ثابت کیا کہ کرکٹ ٹیم کی کپتانی اور ریاست پاکستان کی حکمرانی میں بہت بڑا فرق ہے۔

پس پردہ قوتوں نے عمران خان کی حکومت ایک سول اور جہوری حکومت کے طور پر نہیں چلایا ‘بظاہر آئین اور جمہوریت کی حکمرانی کا ڈھنڈورا پیٹا جا تا رہا لیکن دراصل یہ ملفوف آمریت تھی۔

نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ سے لڑ کر دو دفعہ سزا پائی لیکن کبھی ذاتی گالیاں اور غلط الفاظ استعمال نہیں کیے ‘زیادہ سے زیادہ یہ کہا کہ ’’ مجھے کیوں نکالا‘‘؟‘بھٹو صاحب شہید ہوگئے لیکن پیپلز پارٹی نے جنرل ضیاء الحق تک کو غدار نہیںکہا بلکہ فوج کے ساتھ تعلقات بہتر بنائے۔

اب جنرل باجوہ صاحب سوچ رہے ہوں گے کہ جنرل ایوب ، جنرل پرویز مشرف اور جنرل ضیاء خوش قسمت تھے کہ ان کا واسطہ سیاستدانوں سے پڑا تھا جب کہ وہ عمران خان کے ہتھے چڑھ گئے ہیں ‘ عمران خان اور ان کی پارٹی نے جنرل باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کا جو حشر کیا ہے ‘وہ سب کے سامنے ہے۔

یہ سب کچھ دیکھ اور سن کر اس کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے برائے مہربانی اب مزید سیاسی پراجیکٹ لانچ کرنا بند کردیں۔ حالیہ سیاسی پراجیکٹ کاانجام بڑا دردناک ہے ‘ پراجیکٹ تو ناکام ہوا سوا ہوا، اس کے اثرات و نتائج ریاست اور عوام بھگت رہے ہیں ۔

اب صرف ایک ہی چوائس رہ گئی ہے کہ ملک کو مکمل آئین کے تحت سول بالادستی والے جمہوری نظام کے تحت چلایا جائے، اب توکہا جا رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ مکمل طور پر غیر سیاسی کردار ادا کرے گی اور ملک کو مکمل جمہوری اور سو ل بالادستی کے تحت چلایا جائے گا ۔

؎ کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ

ہائے اس زود پشیمان کا پشیمان ہونا

جمہوری نظام کو چلانے میں دو اہم رکاوٹیں ہیں‘ جہاں تک اداروں کی غیر سیاسی ہونے کا تعلق ہے تو جب تک سرکاری ملازمین کو کروڑوں روپے اور دیگر مراعات ریٹائرمنٹ پر ملیں گے‘افغانستان‘ انڈیا اور دوسرے ممالک کے بارے میں خارجہ پالیسی ان کے ہاتھ میں ہو گی۔

معیشت اور سیاست کے فیصلے کرنے کا اختیار بھی ہوگا تو سٹسم میں مداخلت جاری رہے گی‘کوئی بھی فرد یا ادارہ اپنے اختیارات خوشی سے نہیں چھوڑتا‘ سیاسی پارٹیوں اور عوام کو اپنے طرزعمل سے آئین و قانون اور ضوابط کو تبدیل کرنا پڑے گا۔

سیاستدانوں کی اپنی کمزوریاں بھی اسٹیبلشمنٹ کومداخلت پرمجبور کرتی ہیں‘ اراکین پارلیمنٹ قانون سازی پر توجہ دینے کے بجائے اپنی تنخواہوں، مراعات اور استحقاق ، سڑکوںکے ٹھیکے اور سرکاری نوکریاں دینے کی سیاست کرتے ہیں، ایک دوسرے کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کی مدد طلب کرتے ہیں۔

یہ مسئلے کی اصل جڑ ہے۔اس لیے ز یادہ ذمے داری‘ سیاسی پارٹیوں کی قیادت پر عائد ہوتی ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنی جماعت میںجمہوریت لائیں، سیاسی کارکنوں کی ذہن سازی اور تربیت کریں۔

انھیں پارٹی کے اہم عہدوں تک پہنچنے کے لیے راستہ دیں، ورنہ انجام یہی ہوگا کہ بقول مونس الہی ’’ہمیں کہا گیا کہ عمران خان کی طرف جاؤ‘‘ اور خیر سے ہم چلے گئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔