سیاسی عدم استحکام اور معاشی حالات

محمد ابراہیم خلیل  ہفتہ 17 دسمبر 2022

75 برس کا پاکستان ابھی تک ترقی پذیر ملکوں کی فہرست میں شامل ہے۔ اس ملک کی معیشت ہزاروں سال سے زراعت پر منحصر ہے۔

5 ہزار سال کا موئن جو دڑو اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ بحیرہ عرب اور دریائے سندھ نے مل کر اس شہر کے قریب ایسی بندرگاہ تعمیر کردی تھی جہاں سے دور دراز تک بحری تجارت کو راستے جاتے تھے۔

یہاں سے روپہلی ریشے کپاس کی گانٹھیں کشتیوں میں بھر کر مختلف سمتوں میں روانہ ہوتی رہیں، کپڑے بنے جاتے رہے۔ کپاس، گندم اگائی جاتی رہی۔ خطہ پنجاب و سندھ اور دیگر علاقوں کی زمینوں میں اتنی وافر فصل پیدا ہوتی تھی کہ پورے برصغیر سے تاجر پھر انگریز آ کر کراچی کی بندرگاہ کے ذریعے اپنے ملک لے جاتے رہے۔

اس پورے خطے کو زراعت کا گھر بنے رہنے دینے کے لیے کوئی قابل ذکر کارخانے فیکٹریاں نہ قائم کیں۔ موجودہ ہندوستان میں 1857 کے بعد انگریزوں نے سیکڑوں کارخانے قائم کیے تھے لیکن قیام پاکستان کے وقت یہاں صرف 34 کارخانے تھے۔

تقسیم ہند کے وقت ہمارا حصہ ہمارا روپیہ ہمارا خزانہ وہ بھی ہمارے ہاتھ نہ لگا۔ ہندوستان نے معمولی برائے نام رقم دے کر ہمیں ٹال دیا تھا۔ اور اسی بنیاد پر متعدد بنیے دعویٰ کرتے رہے کہ پاکستان بس چند مہینوں کا مہمان ہے ، لیکن آج 75 برس گزر گئے اور پاکستان چونکہ اپنے سیاسی عدم استحکام کی بنا پر ہی ترقی یافتہ ملک نہ بن سکا۔ لیکن اس کا مضبوط قیام اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ جلد ہی یہ ایک ترقی یافتہ ملک بن جائے گا۔

قیام پاکستان کے چند سال بعد ہی ملک سیاسی عدم استحکام کی لپیٹ میں آچکا تھا اور یہ سیاسی کشیدگی اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ جلد ازجلد وزیر اعظم بدلتے رہے کہ نہرو اسے دھوتیاں بدلنے سے تشہیر دیتا رہا اور بالآخر یہ ٹھان لی گئی کہ سیاسی صورت حال اپنی جگہ ایک پانچ سالہ منصوبہ تشکیل دیا جائے لہٰذا پہلا پانچ سالہ منصوبہ 1955 سے 1960 تک بنا تو لیا لیکن پھر سیاسی تفاوت راہ میں حائل ہوئی یہاں تک کہ 1957 میں یعنی دو سال بعد یہ منصوبہ شروع کیا جاسکا۔

اکتوبر 1958 تک ملکی سیاسی حالات انتہائی دگرگوں رہے۔ یہاں تک کہ اکتوبر 1958 میں ملک میں پہلا مارشل لا نافذ کردیا گیا۔ عوام نے یہ جانا کہ اب مہنگائی، منافع خوری، ذخیرہ اندوزی، اقربا پروری، رشوت اور دیگر کئی برائیوں کی بیخ کنی ہوگی ، اگرچہ یہ بات درست ہے کہ انتظام میں بہتری آئی۔

کہا جاتا ہے کہ ایک نامی گرامی گورنر نواب آف کالا باغ نے کراچی آ کر تاجروں کو خبردار کیا کہ اب مارشل لا کی حکومت آچکی ہے لہٰذا کوئی مہنگائی کرتا پایا گیا، ذخیرہ اندوزی کسی نے کی، ناجائز منافع خوری کا مرتکب پایا گیا اور اشیا خوراک چھپانے میں ملوث پایا گیا تو اس کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔ بہرحال تاخیر ہونے کے سبب پہلا منصوبہ ناکام ہوا۔

قومی حکومت نے 1960 تا 1965 دوسرا منصوبہ نافذ کردیا۔ جس میں پہلے منصوبوں کی خامیوں کو دور کیا گیا۔ جلد ہی اس منصوبے کا چرچا دنیا بھر میں عام ہوا، کئی ممالک نے اس کی نقل بھی کی۔ اس منصوبے نے چند ہی سالوں میں ملک کے مختلف علاقوں میں کارخانوں ، ملوں ، فیکٹریوں کے ڈھیر لگا دیے۔

روزگار میں تیزی سے اضافہ ہونا شروع ہوا ، لیکن ان پانچ سالوں کے دوران ایک بات سے غفلت برتی گئی کہ 22 خاندان زیادہ مستفید ہوئے۔ سرمایہ دارانہ نظام کو تقویت ملی اور دولت کا رخ امیروں کی تجوریوں میں قید ہو کر رہ گیا۔ ایک طرف غربت تو کم ہوئی لوگوں کو روزگار ملا ان کی آمدن بڑھی۔ درمیانہ طبقہ اپنی طرز زندگی میں تبدیلی لا رہا تھا۔

قیام پاکستان کے بعد بحری اور ہوائی راستے کے ذریعے دونوں حصوں کے درمیان خوب تجارت ہوا کرتی تھی۔

مشرقی پاکستان کی کئی مصنوعات جس میں پٹ سن کی مصنوعات، کئی اقسام کے پھل ، سبزیاں مثلاً کٹھل، لیچی، انناس، مغربی پاکستان پہنچائے جاتے تھے اور مغربی پاکستان سے بھی کئی اقسام کے پھل، مسالہ جات، کپڑے، جوتے اور دیگر بہت سی اشیا مشرقی پاکستان بھجوائی جاتی تھیں۔ اس طرح ان دنوں دونوں حصوں کے درمیان کروڑوں کی تجارت ہوتی تھی جوکہ سقوط ڈھاکاکے بعد دم توڑ گئی۔ بعد میں اسے بحال کردیتے تو دونوں ممالک کے تاجر فائدے میں رہتے۔

اخباری اطلاعات کے مطابق رواں مالی سال کے ابتدائی 5 ماہ میں گزشتہ سال کے مقابلے میں ترسیلات زر میں 9.6 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق نومبر 2022 میں بیرون ملک پاکستانیوں نے 2 ارب 10 کروڑ ڈالرز کی ترسیلات پاکستان بھیجیں اور 5 ماہ میں ترسیلات زر 12ارب ڈالرز رہیں۔ ترسیلات زر ملکی توازن ادائیگی کے لیے ایک بڑا سہارا ہے جس میں کمی کا حکومت کو فوری نوٹس لینا چاہیے۔

بہرحال پھر ایک مرتبہ 90 کی دہائی میں یکے بعد دیگرے حکومتیں آتی جاتی رہیں۔ ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار رہا ، پھر نائن الیون کے بعد آہستہ آہستہ ملک میں بدامنی واقع ہوتی رہی ، حالات بگڑتے رہے۔

اگرچہ 2013 سے آنے والی حکومت نے معاشی ترقی کی اوسطاً شرح 5 فیصد حاصل کرلی تھی ، لیکن 2018 میں آنے والی حکومت کو ابھی سنبھلنے میں ڈیڑھ سال کا عرصہ گزرا تھا کہ دنیا بھر میں کورونا نے تباہی مچا دی جس نے پاکستانی معیشت کو دبوچ لیا۔

ابھی اس سے نکلے تھے کہ سیلاب آ دھمکا۔ اس کے ساتھ ہی مہنگائی کا جن بھی اب بے قابو ہو چکا ہے جسے قابو میں لانے کی کوئی تدبیر کارگر ہوتی نظر نہیں آ رہی ہے کیونکہ ملک میں اب تک سیاسی عدم استحکام کا راج ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔