خالصتان تحریک اور بھارتی پنجاب میں بڑھتی کشیدگی

آصف محمود  ہفتہ 24 دسمبر 2022
’’خالصتان‘‘ سکھ قوم کا دیرینہ مطالبہ ہے۔ (فوٹو: فائل)

’’خالصتان‘‘ سکھ قوم کا دیرینہ مطالبہ ہے۔ (فوٹو: فائل)

بھارتی پنجاب میں ان دنوں ایک سندھو جٹ امرت پال سنگھ خبروں کا مرکز بنے ہوئے ہیں، جن کے نظریات اور سرگرمیوں کو ایک طرف سکھ نوجوانوں میں مقبولیت مل رہی ہے تو دوسری طرف بعض حلقے ان کے خلاف بھی ہیں۔

بھارتی پنجاب میں ایک بار پھر 1984 جیسے حالات بنتے نظر آرہے ہیں جب بھارتی فوج کی طرف سے سکھوں کے مقدس ترین مقام گولڈن ٹیمپل پر فوج کشی کی گئی تھی۔ اس کارروائی میں خالصتان تحریک کے مرکزی رہنما اور سنت جرنیل سنگھ بھنڈرا والا اور ان کے ساتھیوں کو قتل کردیا گیا تھا۔ بعد ازاں اس وقت کی بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کا قتل ہوا اور ردعمل کے طور پر سکھوں کا قتل عام شروع ہوگیا تھا۔

یہ تحریر بھی پڑھیے: بھارت کے سر پر منڈلاتا خطرہ۔۔۔۔۔’’خالصتان‘‘

نوجوان سردار امرت پال سنگھ دس سال امارات میں گزارنے کے بعد 2022 کے وسط میں انڈیا واپس آئے اور انہوں نے ’’وارث پنجاب دے‘‘ نامی گروپ کی سربراہی سنبھالی ہے۔ امرت پال سنگھ ایک طرف تو سکھ نوجوانوں کو نشے کی لعنت سے چھٹکارا دلانے کےلیے انہیں اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ سکھ مذہب کے رسم و رواج کے مطابق اپنی زندگی گزاریں، اپنے بال نہ کٹوائیں بلکہ سر پر پگڑی سجائیں، جبکہ دوسری طرف وہ پنجاب میں ان مسیحی مشنریوں کے خلاف بھی آواز بلند کررہے ہیں جو پنجاب کے دیہی علاقوں، خاص طور پر سرحدی علاقوں میں بسنے والے غریب سکھ خاندانوں کو مسیحیت کی طرف راغب کرنے میں مصروف ہیں۔ امرت پال سنگھ کا کہنا ہے کہ مسیحی مشنری سکھ خاندانوں کا جبری مذہب تبدیل کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے گرو صاحبان کی مبینہ بے ادبی کررہے ہیں۔

امرت پال سنگھ کے مسیحی مشنریوں کے خلاف سخت بیانات کی وجہ سے بھارتی پنجاب میں مذہبی تناؤ بڑھتا نظر آرہا ہے۔ بعض سکھ تنظیمیں بھی امرت پال سنگھ کے مسیحیوں کے خلاف سخت بیانات کی مذمت کرتی نظر آتی ہیں۔ پنجاب میں بسنے والی مسیحی برادری بھی امرت پال سنگھ کے خلاف احتجاج کررہی ہے۔ بھارت کی مرکزی اور پنجاب کی ریاستی حکومتیں امرت پال سنگھ کے خلاف ابھی تک کوئی کارروائی نہیں کرسکی ہیں۔ امرت پال سنگھ کا ابھی تک کوئی نظریہ اور واضح مقصد نظر نہیں آیا۔ وہ خالصتان کی بات کرتے ہیں لیکن انہوں نے ابھی تک یہ نہیں بتایا کہ خالصتان کہاں بنے گا، اس میں کون سے علاقے شامل ہوں گے، وہاں کا آئین اور قانون کیا ہوگا؟ صرف خالصتان کا نام لے کر سکھ نوجوانوں کو مشتعل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

چنچل منوہر سنگھ کہتے ہیں اس وقت امریکا میں مقیم سکھوں کے پاس خالصتان کا الگ نقشہ ہے جبکہ برطانیہ اور کینیڈا والے سکھوں کے پاس خالصتان کا الگ نقشہ ہے۔ خالصتان کا مطالبہ کوئی جرم نہیں اور یہ سکھ قوم کا دیرینہ مطالبہ ہے لیکن بھارت کی مرکزی حکومت کسی صورت خالصتان کا قیام نہیں چاہتی کیونکہ اس طرح تو جموں و کشمیر بھی ان کے ہاتھوں سے نکل جائے گا جس پر بھارت نے طویل عرصے سے قبضہ کر رکھا ہے۔

امرت پال سنگھ کی سوشل میڈیا پر کئی ویڈیوز اور بیانات سامنے آچکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں سکھوں کو غلام بناکر رکھا گیا ہے، اس لیے وہ بھارت سے آزادی کی مانگ کررہے ہیں۔ سکھ نوجوانوں کو سازش کے تحت نشے کی لت ڈالی جارہی ہے تاکہ وہ سکھ مذہب سے دور ہوتے جائیں اور خالصتان کی تحریک کا حصہ نہ بنیں۔ سکھوں کی نسل کشی کی جارہی ہے۔ انہوں نے سکھ ماؤں سے اپیل کی ہے کہ وہ ایک سے زیادہ بچے پیدا کریں اور انہیں گورو کے نام پر وقف کردیں۔ امرت پال سنگھ نے بھارتی پنجاب کے دیہی اور خاص طور پر بارڈر ایریا کے علاقوں میں مسیحی مشنریوں کے خلاف بھی آواز اٹھائی جو غریب سکھ خاندانوں کا مذہب تبدیل کروا رہے ہیں۔

امرت پال سنگھ کو جہاں سکھوں کی بڑی تعداد پسند کررہی ہے وہیں ان پر تنقید کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ امرت پال سنگھ ایک بار پھر بھارتی پنجاب کا ماحول خراب کرنا چاہتا ہے، خوف کی فضا پیدا کی جارہی ہے، وہ خود کو سنت جرنیل سنگھ بھنڈرا والا ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ اس کے ساتھ ہر وقت جدید ہتھیاروں سے لیس گارڈز ہوتے ہیں۔ امرت پال سنگھ نے حال ہی میں سکھ گوردواروں کے اندر بزرگوں اور بیمارافراد کے رکھے گئے بینچ ہٹانے کی مہم بھی شروع کی ہے۔ چند روز قبل کپورتھلہ کے بہاری گاؤں کے ایک گوردوارہ صاحب کے مرکزی ہال میں رکھے گئے صوفے اور بینچ باہر نکال کر توڑ دیے تھے۔ ان کا موقف ہے کہ گورو گرنتھ صاحب کے سامنے حضوری کے موقع پر یہ گوارا نہیں کیا جاسکتا کہ کوئی گورو صاحب کے برابر کی جگہ پر براجمان ہوسکے۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ کئی مواقع پر شری اکال تخت اور سکھ لیڈروں کی طرف سے گوردواروں کے اندر کرسیاں اور صوفے رکھنے کی اجازت نہ دینے کا مسئلہ اٹھایا جاچکا ہے۔ نومبر 2013 میں، شری اکال تخت نے گوردواروں کے اندر کرسیوں، صوفوں اور اسی طرح کے بیٹھنے کے انتظامات کے استعمال کے خلاف ضابطے جاری کیے تھے۔ اکال تخت نے گوردواروں کے مرکزی ہال میں بزرگوں اور معذور افراد کےلیے صوفوں، کرسیوں یا بینچوں کے استعمال پر پابندی لگادی تھی اور اسے مقدس کتاب کی توہین قرار دیا تھا۔ اسی طرح 20 اپریل 1998 میں اس وقت کے جتھے دار بھائی رنجیت سنگھ نے بھی ایک حکم نامہ جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ سکھوں کے لنگر خانے کے اندر کرسیاں اور میز استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ تاہم بعد ازاں اکتوبر 1998 میں ان ضابطوں میں نرمی کرتے ہوئے بیمار اور معذور افراد کےلیے لنگر خانے میں کرسی اور ٹیبل کے استعمال پر پابندی کے حکم نامے میں نرمی کردی گئی تھی۔

تاہم اہم سوال یہ ہے کہ امرت پال سنگھ کی اس جدوجہد کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ کیا خالصتان تحریک میں کوئی پیش رفت ہوگی یا پھر سکھوں اور مسیحیوں کے مابین پیدا ہونے والی مذہبی کشیدگی کا فائدہ کوئی تیسری قوت اٹھائے گی؟ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ امرت پال سنگھ کے پیچھے بھارتی ایجنسیوں کا ہاتھ ہے جو پنجاب میں عام آدمی پارٹی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو نقصان پہنچانے کےلیے یہاں جان بوجھ کر ایسے حالات بنائے جارہے ہیں۔ اس سے جہاں ایک طرف عام آدمی پارٹی کےلیے مشکلات پیدا ہوں گی وہیں خالصتان کے مطالبے میں حالیہ برسوں میں جو تیزی نظر آئی ہے اس کو ایک بار پھر کمزور کیا جاسکے گا، کیونکہ کینیڈا، یوکے اور امریکا سمیت کئی ملکوں میں خالصتان سے متعلق ہونے والے ریفرنڈم میں سکھوں کی بڑی تعداد اس کے حق میں ووٹ ڈال چکی ہے۔ امرت پال سنگھ کے ذریعے پنجاب میں خوف کا ماحول پیدا کیا جارہا ہے۔ ممکن ہے آئندہ چند ہفتوں میں امرت پال سنگھ اور ان کے ساتھیوں کی گرفتاریاں شروع ہوجائیں اور بھارتی پنجاب مزید انارکی کا شکار ہوجائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

آصف محمود

آصف محمود

بلاگر کا تعلق لاہور سے ہے اور وہ 2009 سے ایکسپریس میڈیا گروپ کے ساتھ وابستہ ہیں۔ پاک بھارت تعلقات، بین المذاہب ہم آہنگی اورسماجی موضوعات پرلکھتے ہیں۔ بلاگر سے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔