متنازع فیصلے

ڈاکٹر توصیف احمد خان  ہفتہ 28 جنوری 2023
tauceeph@gmail.com

[email protected]

قومی اسمبلی نے گزشتہ دنوں Criminal Law Amendment Act کا قانون منظور کیا۔ چترال سے تعلق رکھنے والے جماعت اسلامی کے رکن قومی اسمبلی مولانا اکبر چترالی نے پرائیوٹ ممبرز ڈے کے موقع پر یہ بل ایوان میں پیش کیا ، اگرچہ ایوان میں کورم پورا نہ تھا مگر کسی رکن نے قومی اسمبلی کے ایوان میں اراکین کی تعداد کی جانب توجہ مبذول نہ کرائی۔

اس بل کی منظوری سے مختلف فقہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو اعتراض کا موقع ملا، یوں ملک میں جہاں مختلف نوعیت کے تنازعات پہلے سے موجود ہیں ایک اور تنازعہ شروع ہوا۔

ملک میں فرقہ وارانہ تضادات کی ایک طویل تاریخ ہے ، یہ فرقہ وارانہ تضادات تو ہزاروں سال سے چلے آرہے ہیں مگر جنرل ضیاء الحق نے اپنی حکومت کو مستحکم کرنے کے لیے جو متنازعہ قوانین نافذ کیے تھے ان قوانین کے نفاذ سے مختلف مکاتب فکر کے لوگوں نے سخت ردعمل کا اظہار کیا تھا۔

معاملہ صرف بحث و مباحثہ تک محدود نہیں رہا تھا ، پہلے دھرنے ہوئے، پھر تشدد کا سلسلہ شروع ہوا ۔ تشدد کی یہ لہر جو 80کی دہائی میں شروع ہوئی تھی وہ اس صدی کے پہلے عشرہ تک جاری رہی۔ خیبر پختون خوا کے مختلف علاقوں پارا چنار ، بنوں، ڈیرہ اسماعیل خان وغیرہ میں تو خونی جھڑپوں میں درجنوں افراد جاں بحق ہوئے تھے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کی رپورٹوں کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ پارا چنار ، ڈیرہ اسماعیل خان اور ملحقہ علاقوں سے سیکڑوں لوگوں کو اپنے گھر بار چھوڑنے پڑے تھے اور معاملہ صرف ان علاقوں تک محدود نہیں رہا تھا بلکہ مختلف شہروں میں مذہبی عبادت گاہوں اور مذہبی جلوسوں پر خودکش حملہ آوروں نے حملے کیے تھے۔

ان حملوں کے نتیجے میں قیمتی جانوں کے ضیاع کے ساتھ ایک خوف ناک اور بے یقینی کی فضاء پورے ملک میں چھا گئی تھی۔ ٹارگٹ کلنگ کا ایسا خوف ناک سلسلہ آیا کہ بہت سے ذہین ڈاکٹر، وکلا ، پروفیشنلز ، علمائ، سرکاری افسران اور سیاسی کارکن جاں بحق ہوئے۔

سرائیکی وسیب کے علاقے سے تعلق رکھنے والے معروف شاعر محسن نقوی جیسے لوگ اس جنون کی نذر ہوئے تھے۔

دہشت گردوں نے غیر مسلم اقلیتوں کو نشانہ بنانا شروع کردیا تھا۔ بہت سے لوگ ملک چھوڑنے اور یورپ اور امریکا ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے تھے۔ ملک میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کا فائدہ دیگر ممالک نے اٹھایا تھا اور ملک کے بڑے شہروں کی سڑکوں پر ان ممالک کی پراکسی لڑائی کے مناظر عام ہوئے تھے۔

ایک سینئر پولیس افسر کا کہنا ہے کہ فرقہ وارانہ کشیدگی اتنی خطرناک صورتحال اختیار کرگئی تھی کہ پولیس اہلکار اس لہر سے متاثر ہوئے تھے۔ پولیس افسران کا کہنا ہے کہ ان کے لیے ٹارگٹ کلنگ اور خودکش حملوں میں ملوث ملزمان کے قلع قمع کے لیے آپریشن منظم کرنے میں اس بناء پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا تھا کہ ان کے ماتحت اہلکار فرقہ وارانہ بیانیہ سے متاثر ہورہے تھے۔

ایک فرقہ وارانہ تنظیم کی افغانستان سے سرپرستی شروع ہوئی۔ فرقہ وارانہ دہشت گردی میں ملوث بہت سے افراد افغانستان میں روپوش ہوئے۔

ان لوگوں نے حقانی اور ملا فضل اﷲ نیٹ ورک وغیرہ میں شمولیت اختیار کی، یوں اب فرقہ وارانہ بنیادوں پر وارداتوں میں ملوث افراد سیکیورٹی ایجنسیوں پر حملوں میں ملوث ہوئے۔ ملک کی بدقسمتی یہ ہوئی کہ برسراقتدار حکومتوں نے ان جنونی عناصر سے اپنے چھپے ہوئے مفادات کے تحفظ کے لیے سمجھوتے کر لیے۔ ان کے رہنماؤں کو مراعات دی گئیں۔ یہی صورتحال 2002میں خیبر پختون خوا میں پیش آئی۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سابق صدر پرویز مشرف کی حکومت کے دور میں کنٹرول لائن کے دوسری طرف کارروائیوں کے لیے فرقہ وارانہ دہشت گرد تنظیموں کو کھلی چھوٹ دی گئی تھی۔

عمران خان نے ہمیشہ طالبان کے مؤقف کی حمایت کی۔ جب 2013ء میں تحریک انصاف کے پرویز خٹک وزیراعلیٰ خیبرپختون خوا کے عہدے پر فائز ہوئے تو انتہا پسند عناصر کو کھلی چھوٹ مل گئی۔

پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر مذہبی دہشت گردوں نے حملے کیے ، یوں معصوم بچوں کا قتل عام ہوا۔ پاکستان سمیت پوری دنیا میں اس گھناؤنے جرم کی مذمت ہوئی۔

بھارت سمیت دنیا کے دیگر ممالک میں اسکولوں کے بچوں نے بچوں کے قتل عام کا سوگ منایا۔ وفاق اور صوبائی حکومتوں ، مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کے افسران سر جوڑ کر بیٹھے اور نیشنل ایکشن پلان تیار ہوا۔

اس پلان کے تحت مذہبی دہشت گردی اور فرقہ وارانہ سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے جامع حکمت عملی پر اتفاق رائے ہوا۔ اس پلان کے تحت قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے نیٹ ورک کو مربوط کرنے، تعلیمی اداروں میں پڑھائے جانے والے نصاب میں سے فرقہ وارانہ مواد کے اخراج اور دیگر اہم اقدامات پر عملدرآمد پر اتفاق رائے ہوا تھا۔

اس پلان پر محدود پیمانہ پر عملدرآمد ہوا۔ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختون خوا کی حکومتوں نے تدریسی کتب سے فرقہ وارانہ مواد کے اخراج ، انسانوں کے درمیان بھائی چارہ پر مبنی مواد کو کتابوں میں شامل کرنے، اساتذہ کی ذہنی تربیت کے لیے کچھ اقدامات تجویز کیے ، ان میں سے کچھ پر عمل درآمد بھی ہوا۔ تحریک انصاف نے وفاق اور خیبر پختون خوا کی حکومتیں سنبھالتے ہی اس پلان پر عملدرآمد کیا۔

جماعت اسلامی نے کراچی میں اپنی انتخابی مہم میں ایک غیر فرقہ وارانہ بیانیہ اختیار کیا۔ حافظ نعیم الرحمن کی منظم کردہ مہم کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوئے مگر جماعت اسلامی کے فاضل رکن نے یہ قانون پیش کر کے ناقدین کو الزام لگانے کا موقع فراہم کیا۔

انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والی غیر سرکاری تنظیم انسانی حقوق کمیشن HRCP نے ہمیشہ فرقہ وارانہ عنصریت کے خاتمہ کے لیے رائے عامہ ہموار کی ہے۔

ایچ آر سی پی نے اس قانون کے بارے میں کہا ہے کہ “As the HRCP has noted instead of curbing sectariarianism the law will likely be weaponised disproportionately against religious minorities and sects.”  ملک کے سب سے بڑے انگریزی اخبار نے لکھا ہے کہ اس قانون کی بناء پر اسلامی تاریخ کے مختلف ادوار میں رونما ہونے والے واقعات پر بحث دوبارہ شروع ہوئی تو ملک پھر ایک نیا بحران کا شکار ہوگا۔

وفاقی حکومت کی ذمے داری ہے کہ اس معاملہ پر پانی سر تک پہنچ جانے سے پہلے تمام فقہ سے تعلق رکھنے والے علماء سے مشاورت کرے اور اس قانون کی خامیوں کو دور کیا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔