مفاہمت وقت کی اہم ضرورت

جمشید باغوان  پير 30 جنوری 2023

ابھی ڈالر کے جھٹکے تھمے نہیں تھے کہ اتوار کو علی الصبح حکومت نے پٹرول کی قیمت میں ایک ساتھ 35 روپے اضافہ کرکے اس کی فی لیٹر قیمت 250 تک پہنچا دی ہے۔

ڈالر اور پٹرول کے بعد مہنگائی کا جو طوفان آئے گا،اس کا آغاز آج سے ہو گا۔ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر کم ترین سطح پر ہیں،کاروبار ٹھپ ہو رہا ہے، توانائی کا بحران اپنی شدت پر ہے، سی این جی اسٹیشن بند کرنے پڑتے ہیں۔

حکومت اور اپوزیشن سیاست سیاست کھیل رہے ہیں،انھیں عوام کا احساس ہی نہیں۔ عام لوگ خصوصاً تنخواہ دار طبقہ اب رونے کو آ گیا ہے۔

مزدوروں کی مزدوری تو کم ہو رہی رہی تھی، اب مڈل کلاس بھی پریشان ہے، جو ہائی کلاس ہے، اب ان کے چہروں پر بھی پریشانی نظر آ رہی ہے، ہماری آبادی تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے، آٹے کے بحران کو ہی لے لیجیے۔

حکومت گندم خریداری کے وقت تو غفلت کا شکار تھی لیکن ذخیرہ اندوزوں کے معاملے میں بے بس نظر آ رہی تھی۔ اسی بے بسی کے حوالے سے مختلف سیاسی جماعتوں کے اکابرین جس میں شاہد خاقان عباسی جیسے نام بھی شامل ہیں نے پشاور میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا۔ اس کے میزبان خواجہ ہوتی تھے۔ خواجہ ہوتی جوانی ہی میں وزارت کا مزہ چھک چکے ہیں۔

ان کے چچا ایوب خان اور ضیاء الحق کی کابینہ میں وزیر اور گورنر رہے۔ خواجہ صاحب نے پیپلز پارٹی کو اس وقت چھوڑا جب اس کے صوبائی صدر تھے، اے این پی سے قومی اسمبلی کے رکن بنے، وزارت بھی ملی لیکن پھر کرپشن کے نام پر پارٹی سے استعفیٰ دے دیا اور عمران خان کے پاس چلے گئے۔

کافی پیسے خرچ کیے اور الیکشن سے قبل ہی پی ٹی آئی کو چھوڑ دیا۔ اس کانفرنس میں ان موضوعات پربھی بات کی گئی جو ممنوعہ سمجھے جاتے ہیں۔ علی وزیر کا کیس بطور مثال پیش کیا گیا، شاہد خاقان عباسی کی اس بات میں کافی وزن ہے کہ آئین سے ماورا اقدامات نے نظام کو کمزور کر دیا ہے۔

پارلیمنٹ ہمارے مسائل کا حل نہیں نکال رہی اگرچہ وہ اس کی تردید کرتے ہیں کہ وہ کوئی نئی سیاسی جماعت بنا رہے ہیں لیکن عام لوگوں کا خیال ہے کہ یہ کسی نئی سیاسی جماعت بنانے کی کوشش ہو سکتی ہے۔ میرے خیال میں ایسا نہیں ہے۔

جب شاہد خاقان عباسی، اسلم رئیسانی اور مصطفیٰ نواز کھوکھر اور خواجہ ہوتی کو تفصیل کے ساتھ سنا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ پارٹی کے اندر جمہوریت چاہتے ہیں اور یہ صحیح بھی ہے کیونکہ پارٹی کی مرکزی مجلس کا معاملہ ہو یا کوئی اور بڑا فورم اس میں پارٹی لیڈر کی مرضی و منشاء کے بغیر کچھ کیا ہی نہیں جا سکتا۔

مفتاح شاہد اور اس جیسے دیگر لوگوں کا خیال ہے کہ عوام کو اصل صورتحال بتانی چاہیے کہ کیسے مرکزی سطح پر فیصلے تبدیل ہو جاتے ہیں۔

پارٹی میں سے نہ ہوتے ہوئے بھی کیسے بااثر لوگ پارٹی کے فیصلے تبدیل کروا دیتے ہیں۔ ملک میں جمہوریت سے قبل پارٹی کے اندر جمہوریت مانگنا اچھے سیاسی ورکروں کی نشانی ہے۔ شاہد خاقان عباسی اور ان جیسے کئی موجودہ سیاست سے تنگ ہیں کیونکہ یہ سیاست سے زیادہ دشمنی دکھائی دیتی ہے۔

یہ فواد چوہدری کے رویے اور بیانات سے قطعاً متفق نہیں لیکن بطور سیاستدان فواد چوہدری سے روا رکھے جانے والے سلوک پر خفا ہیں اور اس کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ انھیں اعظم سواتی سے کوئی محبت نہیں لیکن ان کے ساتھ جو کچھ ہوا اور اس پر شاکی ضرور ہیں۔

یہ سیاسی ماحول کی بہتری کی بات کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ سیاسی پارٹیاں دشمنی، ذاتیات سے نکل کر عوامی مسائل پر توجہ دیں ۔آئین بنے پچاس سال امسال پورے ہو جائیں گے لیکن اگر دیکھا جائے تو آئین کی عمل داری نہیں، کبھی عدلیہ حکومت کے کاموں میں ٹانگ اڑاتی ہے تو کبھی کوئی اور۔ پارلیمنٹ موجود ہے لیکن وہ جب اپنے ممبران کا تحفظ نہیں کر سکتی تو کسی اور کو کیا حق دلائے گی۔

ایک بڑی جماعت قومی اسمبلی سے نکل چکی ہے۔ پختونخوا اور پنجاب کی اسمبلیاں توڑ دی گئی ہیں صرف اپنے سیاسی ضد کو پورا کرنے کے لیے۔ سیاسی نظام قریب قریب مفلوج ہو رہا ہے۔ دونوں صوبوں میں نگران حکومت پی ٹی آئی کے نشانے پر ہے۔

خیبرپختونخوا میں مشاورت کے بعد وزیراعلیٰ کی تقرری ہوئی لیکن اب پی ٹی آئی کو گلہ ہے کہ کابینہ میں انھیں نمایندگی نہیں دی گئی۔ بڑے بوڑھوں پر مشتمل نگران کابینہ میں جو لوگ شامل کیے گئے وہ یا تو رشتہ دار ہیں یا پھر مال دار اور یہ ایک بڑی مثال ہے کہ سیاستدانوں کو اب عوامی مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں رہی اور شاہد خاقان عباسی، مفتاح، نواز کھوکھر اور خواجہ ہوتی یہی نعرہ لگا کر اٹھے ہیں کہ سیاسی ماحول کو بہتر بنایا جائے۔

سیاستدان ایک دوسرے پر اعتماد کرکے آگے کا راستہ نکالیں، ان کا اولین نعرہ معیشت ہے اور یہ آج کی ضرورت بھی ہے کیونکہ پی ٹی آئی کے دور میں بھی معاشی حالات خراب تھے اور اب حکومت تبدیلی کے بعد بھی حالات میں بہتری نہیں آرہی۔ سیاسی لیڈر اور ان کے حمایتی اپنے ہی ملک کا دیوالیہ ہونے کاشور مچا ر ہے ہیں۔

سیاستدان اور اشرافیہ کا ایک حصہ اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ اپنے مفادات کے لیے ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ڈالر کے نرخ بڑھتے ہیں تو حکومت کے مخالفین بھنگڑے ڈالتے ہیں ، پٹرول مہنگا ہوتا ہے تو ایک سیاسی جماعت کے حامی سوشل میڈیا پر طوفان اٹھاتے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ وہ خوش ہو رہے ہیں ، حکومت دشمنی میں یہ عوام دشمنی کو سپورٹ کر رہے ہوتے ہیں۔

میں شاہد خاقان عباسی کی اس بات سے متفق ہوں کہ جب آرمی پبلک اسکول کا واقعہ ہوا تو تمام سیاسی جماعتیں اور اسٹیبشلمنٹ نے مل بیٹھ کر فیصلے کیے تو ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ ہو گیا۔

عدالتوں نے بھی ساتھ دیا یہاں تک کہ فوجی عدالتیں بنائی گئیں جس کی پیپلز پارٹی نے بھی منظوری دی۔ اب بھی ہمیں مل بیٹھ کر مسائل کا حل نکالنا ہو گا۔ مشکل وقت میں مل بیٹھ کر سخت فیصلے کرکے اپنے مستقبل کو محفوظ بنانا ہی دانشمندی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔