- نارووال: بارات میں موبائل فونز سمیت قیمتی تحائف کی بارش
- کراچی کے مختلف علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے
- کوئٹہ: برلن بڈی بیئر چوری کے خدشے کے پیش نظر متبادل جگہ منتقل
- گجرات میں اسپتال کی چھت گرنے سے خاتون سمیت تین افراد جاں بحق
- سعودی فرمانروا طبی معائنے کیلیے اسپتال میں داخل
- امریکی سیکریٹری اسٹیٹ سرکاری دورے پر چین پہنچ گئے
- ہم یہاں اچھی کرکٹ کھیلنے آئے ہیں، جیت سے اعتماد ملا، مائیکل بریسویل
- پچھلے میچ کی غلطیوں سے سیکھ کر سیریز جیتنے کی کوشش کرینگے، بابراعظم
- امریکا میں ٹک ٹاک پر پابندی کا بل سینیٹ سے بھی منظور
- محمد رضوان اور عرفان خان کو نیوزی لینڈ کے خلاف آخری دو میچز میں آرام دینے کا فیصلہ
- کے ایم سی کا ٹریفک مسائل کو حل کرنے کیلئے انسداد تجاوزات مہم کا فیصلہ
- موٹروے پولیس اہلکار کو روندنے والی خاتون گرفتار
- ہندو جیم خانہ کیس؛ آپ کو قبضہ کرنے نہیں دیں گے، چیف جسٹس کا رمیش کمار سے مکالمہ
- بشری بی بی کو کچھ ہوا تو حکومت اور فیصلہ سازوں کو معاف نہیں کریں گے، حلیم عادل شیخ
- متحدہ وفد کی احسن اقبال سے ملاقات، کراچی کے ترقیاتی منصوبوں پر تبادلہ خیال
- کراچی میں سیشن جج کے بیٹے قتل کی تحقیقات مکمل،متقول کا دوست قصوروار قرار
- غزہ کے اسپتالوں میں اجتماعی قبروں نے اقوام متحدہ کو بھی خوفزدہ کردیا
- ایکس کی اسمارٹ ٹی وی ایپ متعارف کرانے کی تیاری
- جوائن کرنے کے چند ماہ بعد ہی اکثر لوگ ملازمت کیوں چھوڑ دیتے ہیں؟
- لڑکی کا پیار جنون میں تبدیل، بوائے فرینڈ نے خوف کے مارے پولیس کو مطلع کردیا
اسحق ڈار کا ایف بی آر افسران کی غیرقانونی مراعات روکنے کا حکم
اسلام آباد: وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے موجودہ سنگین معاشی صورت حال کے تناظر میں فیڈرل بورڈ آف ریونیوکے ان لینڈ ریونیو ڈپارٹمنٹ کو پوائنٹ آف سیل فیس سے حاصل ہونیوالے ریونیو سے اپنے افسران کو بھاری الاؤنسز و مراعات دینے کے لیے آئی آر ایس کامن پُول فنڈ رولز پر عملدرآمد سے روک دیا ہے۔
وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کردہ اعلامیہ میں بتایا گیا ہے کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ملک کی موجودہ اقتصادی صورتحال کے پیش نظر فوری نوٹس لیتے ہوئے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو ان لینڈ ریونیو سروس کے گریڈ 17 سے 22 کے افسران کیلئے آئی آر ایس کامن پول فنڈ رولز2023ء پر عملدرآمد روکنے کی ہدایت کردی ہے۔
وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے ہفتے کے روز فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو ٹیکس دہندگان کے پیسے سے غیرقانونی طور پر اپنے افسران کو الاؤنس دینے سے تو روک دیا لیکن اس منصوبے پر عمل درآمد کرنے والے لوگ معطلی کے خطرے سے بچ نکلے۔
تازہ تفصیلات سے انکشاف ہوا ہے کہ ڈیجیٹل انوائسنگ کے ڈائریکٹر جنرل نے پوائنٹ آف سیل سسٹم کی تکنیکی اپ گریڈیشن کے لیے مختص فنڈز کو دوسری مد میں استعمال کرنے کی مخالفت کی تھی لیکن دوسرے افسران نے ان کی ایک نہ چلنے دی۔
ابتدائی طور پر ایف بی آر 100 فیصد پی او ایس فنڈز کو دیگر مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتا تھا لیکن ڈی جی انوائسنگ کے اصرار پر تکنیکی اپ گریڈیشن کے استعمال کے لیے 10 فیصد فنڈز بچا لیے گئے۔وفاقی وزیرخزانہ نے طے شدہ طریقہ کار کی خلاف ورزی پر ایف بی آر حکام کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔
وزیراعظم آفس کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ وفاقی کابینہ یعنی وفاقی حکومت کی منظوری کے بغیر کسی بھی قسم کے قواعدوضوابط کا نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا جاسکتا۔تاہم ٹیکس مشینری نے وفاقی کابینہ کی پیشگی منظوری لیے بغیر خاموشی سے نئے آئی آر ایس کامن پول فنڈ رولز 2023 کو نافذ کر دیا۔
ایف بی آر نے ٹیکس دہندگان کی رقم کو ذاتی استعمال کی طرف موڑنے کے غیرقانونی اقدام کا یہ کہہ کر دفاع کیا کہ ”ایف بی آر افسران کی تنخواہیں ایف آئی اے، آئی بی، نیب، پی اے ایس، پی ایس پی اور دیگر سول سروس گروپس کے افسران کی تنخواہ کے نصف کے برابر بھی نہیں۔”
مبصرین کے مطابق کوئی بھی اصول ایف بی آر کو اس رقم کا غلط استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتا جو غریب اور امیر لوگوں سے یکساں طور پر تکنیکی اپ گریڈیشن کے لیے وصول کی گئی ہو۔ واضح رہے کہ ایف بی آر ہر شخص سے شاپنگ پر ایک روپے فی انوائس وصول کرتا ہے یہاں تک کہ اس شخص سے بھی کہ جس کی ماہانہ آمدنی صرف 10,000 روپے ہو۔
ایف بی آر نے اس طرح جمع کیے جانے والے فنڈز کو اپنے گریڈ 17 سے گریڈ 22 کے تمام افسران کو ”ہیڈکوارٹر سپورٹ الاؤنس” کی ادائیگی کے لیے استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ گریڈ 17 سے 18 کے افسران کو 20 ہزار روپے ماہانہ الاؤنس ملنا تھا، گریڈ 19 سے 20 کے افسران کو 30 ہزار روپے ماہانہ اور گریڈ 21 سے 22 کے افسران کو 40 ہزار روپے ماہانہ اضافی الاؤنس ملنے والا تھا۔
ایف بی آر کے تمام ممبران اور چیئرمین گریڈ 21 اور 22 میں ہیں، جنہوں نے خود ہی پی او ایس فیس استعمال کرنے اور افسران میں تقسیم کا منصوبہ بنایا تھا، ان کے خلاف کوئی کارروائی تاحال نہیں کی گئی ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔