خواتین اور تعلیم

زین الملوک  منگل 7 مارچ 2023
تعلیم، خواتین کی ذاتی ترقی اور خوشحال زندگی کےلیے ضروری ہے۔ (فوٹو: فائل)

تعلیم، خواتین کی ذاتی ترقی اور خوشحال زندگی کےلیے ضروری ہے۔ (فوٹو: فائل)

خواتین کا عالمی دن ہر سال 8 مارچ کو خواتین کی سماجی، ثقافتی، معاشی اور سیاسی کامیابیوں کو روشناس کرانے کےلیے منایا جاتا ہے۔ یہ خواتین کو درپیش مسائل پر غور کرنے اور صنفی مساوات کےلیے جاری جدوجہد کے بارے میں شعور بیدار کرنے کا دن بھی ہے۔ خواتین کو بااختیار بنانے کا سب سے اہم ذریعہ تعلیم یافتہ بنانا ہے۔ تعلیم نہ صرف خواتین کو علم و ہنر کے حصول میں مدد دیتی ہے بلکہ یہ صنفی دقیانوسی تصورات کو توڑنے اور صنفی مساوات کو فروغ دینے میں بھی معاون ہے۔

خواتین کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے سے معاشرہ، ملک بلکہ پوری دنیا میں مثبت تبدیلی آسکتی ہے۔ تعلیم، خواتین کی ذاتی ترقی اور خوشحال زندگی کےلیے ضروری ہے۔ اس سے خواتین کو اپنے معاشی مواقع، ملازمتوں اور کاروبار کے ذرائع بڑھانے اور اپنی معاشرتی سرگرمیوں میں زیادہ سے زیادہ حصہ لینے میں بھی مدد ملتی ہے۔ یونیسکو کے مطابق: ’پرائمری تعلیم کا ایک سال، آنے والی زندگی میں خواتین کی آمدنی میں بیس فیصد تک اضافہ کرسکتا ہے، سیکنڈری اسکول کا ایک اضافی سال ان کی آمدنی میں پچیس فیصد اضافہ کرسکتا ہے۔ مزید یہ کہ مردوں کے مقابلے میں جو کہ اپنی آمدنی کا اوسط تیس سے چالیس فیصد اپنے گھرانوں میں خرچ کرتے ہیں، خواتین اپنی آمدنی کا نوے فیصد واپس اپنے خاندان میں لگاتی ہیں‘۔ یوں خاندانوں میں معاشی خوشحالی آتی ہے۔

تعلیم صرف خواتین کےلیے ہی نہیں بلکہ پورے معاشرے کےلیے ضروری ہے۔ جب خواتین تعلیم یافتہ ہوتی ہیں تو وہ افرادی قوت بڑھانے اور سماجی کاموں میں اپنا مثبت حصہ ڈالنے کا زیادہ امکان رکھتی ہیں۔ اس سے معیشت اور سماجی ترقی پر مثبت اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ تعلیم یافتہ خواتین کے چھوٹے خاندان، بہتر صحت کے نتائج، اور اپنے بچوں کی تعلیم میں زیادہ مصروف رہنے کا امکان بھی زیادہ ہوتا ہے۔ تعلیم خواتین کو اپنے حقوق کو سمجھنے اور اپنے اور اپنے خاندان کی وکالت کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔

تعلیم کے بہت سے فوائد کے باوجود، دنیا بھر میں بہت سی خواتین کو اب بھی تعلیم تک رسائی میں رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ بہت سے ممالک میں، لڑکوں کے مقابلے لڑکیوں کے اسکول جانے کا امکان کم اور تعلیم نامکمل چھوڑنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ یونیسیف کی 2020 کی رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر 132 ملین بچیاں اسکول سے باہر تھیں۔ کورونا وبا کی وجہ سے تقریباً دو سال تک ڈیڑھ ارب طلبا تعلیمی اداروں سے باہر رہے۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ حالات نارمل ہونے کے بعد بے شمار لڑکیاں دوبارہ تعلیم جاری نہ رکھ پائی ہوں۔ یہ متعدد عوامل مثلاً غربت، کم عمری کی شادی، ثقافتی عقائد اور امتیاز کی وجہ سے ہے۔

غربت میں زندگی گزارنے والی خواتین اکثر بنیادی وسائل جیسے مناسب غذا، رہائش اور صحت کی دیکھ بھال تک رسائی سے محروم رہتی ہیں۔ انھیں اپنے خاندانوں کی کفالت کےلیے کام کرنے کی ضرورت پڑتی ہے، لہٰذا وہ تعلیم جیسی نعمت جو کہ بنیادی انسانی حق بھی ہے، سے محروم رہتی ہیں۔ غربت کی وجہ سے بہت ساری لڑکیاں اسکول کی فیس ادا کرنے کے قابل نہیں ہوتیں، اس لیے مجبوراً ان کو تعلیم ادھوری چھوڑنی پڑتی ہے یا وہ اسکول جا ہی نہیں پاتیں۔ اسکول سے نکلنے والی بچیوں میں 12 سے 17 سال کی عمر تک یہ رجحان بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں سے تقریباً چالیس فیصد نے آج تک اس حوالے سے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا۔

خواتین کی تعلیم میں ایک اور رکاوٹ کم عمری کی شادی اور زچگی ہے۔ جن لڑکیوں کی جلد شادی ہوجاتی ہے وہ اکثر اسکول چھوڑنے پر مجبور ہوجاتی ہیں اور ہوسکتا ہے کہ انھیں اپنی تعلیم مکمل کرنے کا موقع نہ ملے۔ اس لیے ان کے معاشی اور سماجی امکانات کے ساتھ ساتھ ان کی صحت اور تندرستی کے لیے طویل مدتی نتائج ہوسکتے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ اَن پڑھ خواتین کے زیادہ بچے پیدا ہونے کے امکانات بھی تعلیم یافتہ خواتین کے مقابلے میں زیادہ ہوتے ہیں۔ جب کہ جو خواتین تعلیم حاصل کرتی ہیں، ان کی کم عمری میں شادی کا امکان کم ہوتا ہے اور صحت مند اور بہتر معیاری زندگی گزارنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ تعلیم کی بدولت وہ زیادہ آمدنی حاصل کرسکتی ہیں۔ ورلڈ بینک اور انٹرنیشنل سینٹر فار ریسرچ آن ویمن کے محققین کے مطابق تعلیم یافتہ خواتین کم بچے جنتی ہیں اور کم عمری میں زچگی سے بھی اجتناب کرتی ہیں۔ یہ عام طور پر ماں اور اس کے بچوں دونوں کےلیے محفوظ حمل اور صحت مند نوزائیدہ بچوں کےلیے بہتر نتائج کا باعث بنتا ہے۔ لہٰذا تعلیم کے ذریعے خواتین اپنے اوپر اثر انداز ہونے والے اُمور پر درست فیصلہ کرنے کی اہل ہوسکتی ہیں۔

بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں خواتین کا استحصال ہوتا آرہا ہے۔ اس کی اہم وجہ پدرسری نظام کے کئی مظالم کے ساتھ ساتھ خواتین کو تعلیم کے حق سے محروم رکھنا بھی ہے۔ اگر خواتین تعلیم یافتہ ہوں گی تو وہ کئی سماجی برائیوں اور غیر ضروری استحصال کو ختم کرنے میں مدد دے سکتی ہیں۔ مثلاً: ایک سماجی برائی جہیز کی لعنت ہے۔ بے شمار نیک اور مہذب خواتین صرف اور صرف جہیز نہ ہونے کی وجہ سے شادی کیے بِنا ساری زندگی گزار دیتی ہیں اور کئی خواتین کم جہیز کی وجہ سے طعنوں، دشنام طرازیوں اور جسمانی تکالیف کی زَد میں رہتی ہیں۔ تعلیم کی بدولت خواتین معاشرے سے آہستہ آہستہ جہیز کی برائی پر قابو پانے میں اپنا کردار ادا کرسکتی ہیں۔ نیز اچھا روزگار تلاش کرکے اپنی معاشی ضرورتوں کو پورا کرکے جہیز کی کمی کی وجہ سے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو روک سکتی ہیں۔

تعلیم یافتہ مائیں اپنے بچوں کو گھر میں تعلیم دلانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ وہ اپنے بچوں کی بنیادی دیکھ بھال کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی معلمہ کا کردار بھی ادا کرتی ہیں اور ان کے پاس اقدار پیدا کرنے اور زندگی کی اہم مہارتیں سکھانے کا منفرد موقع ہوتا ہے۔ خواتین اس موقع کا استعمال اپنے بچوں کو صنفی مساوات، تنوع کے احترام اور تعلیم کی اہمیت کے بارے میں سکھانے کےلیے کرسکتی ہیں۔

مائیں بچوں کو پڑھنے کےلیے پرسکون جگہ، مطالعہ کا باقاعدہ وقت اور سیکھنے کے ضروری وسائل فراہم کرکے گھر میں سیکھنے کا مثبت ماحول پیدا کرنے میں مدد کرسکتی ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو مطالعہ کی اچھی عادتیں پیدا کرنے میں بھی مدد کرسکتی ہیں۔ مطالعے کی ان اچھی عادات میں مختلف اہداف کا تعین کرنا، اہم کام اور نکات نوٹ کرنا اور اپنی کارکردگی کا باقاعدگی سے جائزہ لینا وغیرہ شامل ہیں۔

تعلیمی مہارتوں کے علاوہ، مائیں اپنے بچوں کو زندگی کی اہم مہارتیں بھی سکھا سکتی ہیں، جیسے کھانا پکانا، صفائی ستھرائی، وقت کا بہتر استعمال اور مالی انتظام وغیرہ۔ یہ مہارتیں ان کے بچوں کو زیادہ خودمختار اور خود کفیل بننے میں مدد کریں گی۔

تعلیم کے ذریعے خواتین بڑے پیمانے پر معاشرے کی تعلیم اور بہتری میں بھی کلیدی کردار ادا کرسکتی ہیں۔ وہ صنفی مساوات کو فروغ دینے، دقیانوسی تصورات کو چیلنج کرنے اور تبدیلی کے سفیر کے طور پر اپنے اثر و رسوخ اور مہارت کا استعمال کرسکتی ہیں۔ ان اُمور کےلیے وہ سوشل میڈیا اور دیگر آن لائن پلیٹ فارمز کا بھی استعمال کرسکتی ہیں۔ وہ اپنے تجربات اور خیالات دوسروں تک مؤثر انداز میں پہنچا سکتی ہیں اور اہم مسائل کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کےلیے اپنی آواز کا استعمال کرسکتی ہیں۔

خواتین کمیونٹی تنظیموں میں فعال شرکت سے بھی معاشرے کو تعلیم دے سکتی ہیں، مثلاً: ان تنظیموں کے پلیٹ فارم سے وہ صنفی مساوات کو فروغ دینے، خواتین کے حقوق یا خواتین کی اچھی صحت کے حوالے سے معاشرے کو آگاہی دینے کا کام کرسکتی ہیں۔ وہ ان سیاسی تنظیموں میں بھی حصہ لے سکتی ہیں جو خواتین کے حقوق اور حکومت میں نمائندگی کےلیے کام کرتی ہیں۔ یوں اپنی تعلیم کے ذریعے وہ معاشرے میں بڑے پیمانے پر اثرات مرتب کرسکتی ہیں۔

خواتین کا عالمی دن خواتین کی کامیابیوں کا جشن منانے اور ان مسائل پر غور کرنے کا دن ہے جو ابھی بھی سامنے ہیں۔ تعلیم خواتین کو بااختیار بنانے اور صنفی مساوات کو فروغ دینے کا ایک اہم ذریعہ ہے اور یہ ضروری ہے کہ خواتین کو تعلیم تک مساوی رسائی حاصل ہو۔ خواتین بھی بڑے پیمانے پر اپنے بچوں اور معاشرے کی تربیت میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔ اپنے بچوں میں مساوات اور احترام کی اقدار کو ابھار کر اور اپنی برادریوں میں تبدیلی کے سفیر کے طور پر، خواتین ایک زیادہ مساوی اور منصفانہ دنیا بنانے میں مدد کرسکتی ہیں۔

تعلیم یافتہ خواتین کے پاس بہتر معاشی مواقع ہونے، اپنی برادریوں میں مصروف رہنے اور اپنے حقوق کی وکالت کرنے کےلیے بہتر طریقے سے لیس ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ خواتین کی تعلیم میں سرمایہ کاری کرکے، ہم سب کےلیے زیادہ مساوی اور منصفانہ دنیا بنا سکتے ہیں۔ خواتین کے عالمی دن پر، آئیے! ہم خواتین کی کامیابیوں کا جشن منائیں اور اس بات کو یقینی بنانے کے اپنے عزم کی تجدید کریں کہ تمام خواتین کو سیکھنے، بڑھنے اور پھلنے پھولنے کا موقع ملے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

زین الملوک

زین الملوک

بلاگر ایم اے اردو (پشاور یونیورسٹی)، ایم اے سیاسیات (پشاور یونیورسٹی) اور ایم ایڈ (آغاخان یونیورسٹی، کراچی) ڈگری کے حامل ہیں۔ گزشتہ دو دہائیوں سے شعبۂ تعلیم اور آج کل آغا خان یونیورسٹی ایگزامینیشن بورڈ، کراچی سے بطورِ منیجر ایگزامینیشن ڈیولپمنٹ وابستہ ہیں۔ ان سے ای میل [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔