ایک اچھا ٹیچر ’’عظیم استاد‘‘ کیسے بنتا ہے؟

زین الملوک  منگل 14 مارچ 2023
عظیم اساتذہ اپنے طلبا کی ضروریات اور خدشات کو سمجھتے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

عظیم اساتذہ اپنے طلبا کی ضروریات اور خدشات کو سمجھتے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

تدریس صرف ایک کام نہیں بلکہ ایک پیشہ، ایک دعوت ہے جس میں بے پناہ لگن، صبر اور جذبے کی ضرورت ہوتی ہے۔ عظیم اساتذہ اپنے طلبا کی زندگیوں پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ وہ نہ صرف علم فراہم کرتے ہیں بلکہ ان کی صلاحیت کو مہارت تک پہنچانے کےلیے ان کی رہنمائی کے ساتھ ساتھ حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں۔

ایک اچھے استاد کو کیا چیز عظیم بناتی ہے؟ اس مضمون میں عظیم اساتذہ کی بہت ساری خصوصیات میں سے ہم بوجہ اختصار ان چند خصوصیات کا جائزہ لیں گے جو ’عظیم اساتذہ‘ کو ’فقط اچھے اساتذہ‘ سے ممتاز کرتی ہیں اور عظیم اساتذہ کی چند خصوصیات کو کچھ عملی زندگی اور کچھ بالی ووڈ کی فلمی دنیا کی مثالوں سےاجاگر کریں گے۔ فلمی دنیا کی مثالیں اس لیے لیں گے کیوں کہ یا تو فلم کسی حقیقی کردار کو دیکھ کر بنائی جاتی ہے یا پھر فلمی کرداروں سے معاشرے کے افراد کردار سازی میں مدد لیتے ہیں۔ (یاد رہے! ہم نے روزمرہ یا عمومی الفاظ کی پیروی کرتے ہوئے ’عظیم استاد‘ کو مذکر کے صیغے میں لکھا ہے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم صنفی تعصب کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔)
جذبہ

جذبہ عظیم اساتذہ کےلیے محرک ہے۔ ایک عظیم استاد وہ ہوتا ہے جو اپنے مضمون کے بارے میں پرجوش ہو اور یہ جوش متعدی ہوتا ہے۔ عظیم اساتذہ جس مضمون کو پڑھاتے ہیں اس کی گہری سمجھ اور اس سے قلبی محبت رکھتے ہیں اور وہ اپنے علم کو اپنے طلبا کے ساتھ بانٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ ہمیشہ اپنے اسباق کو دلچسپ، پرلطف اور متعامل (interactive) بنانے کےلیے نئے نئے طریقے تلاش اور ایجاد کرتے رہتے ہیں۔ وہ اس بات کو یقینی بنانے کےلیے پرعزم ہوتے ہیں کہ ان کے طلبا اس عمل کو سیکھیں اور اس سے لطف اندوز ہوں۔

بالی ووڈ فلم ’چک دے، انڈیا‘ میں شاہ رخ خان نے ساحر خان کا کردار ادا کیا ہے۔ ساحر قومی ہاکی کا سابق کھلاڑی ہے جو ہندوستانی خواتین کی قومی ہاکی ٹیم کا کوچ بنتا ہے۔ ساحر ہاکی اور اپنی ٹیم کی کامیابی کے بارے میں پرجوش رہتا ہے۔ وہ اپنے کھلاڑیوں کو تربیت دینے، ان میں فخر اور عزم کا جذبہ پیدا کرنے کےلیے انتھک محنت کرتا ہے۔ اپنے جذبے اور لگن کے ذریعے، ساحر اپنی ٹیم کو درپیش رکاوٹوں کو دور کرتا ہے جس کے نتیجے میں وہ ٹیم ورلڈ کپ جیتنے کے قابل ہوجاتی ہے۔
صبر

صبر ایک خوبی ہے جو عظیم اساتذہ کے پاس بکثرت ہوتی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ طلبا کے سیکھنے کے مختلف انداز ہوتے ہیں اور وہ ہر طالب علم کی منفرد ضروریات کو پورا کرنے کےلیے کافی صبر کرتے ہیں۔ سوالوں کے جواب دیتے وقت اور تصورات کی وضاحت کرتے ہوئے وہ صبر سے کام لیتے ہیں۔ وہ طلبا سے شفقت سے پیش آتے ہیں اور جب طلبا کسی موضوع کو سمجھنے کےلیے بار بار سوال اور جدوجہد کرتے ہیں تو وہ مایوس نہیں ہوتے۔ وہ اپنے طلبا کو سننے اور ان کے خدشات کو سمجھنے کےلیے وقت نکالتے ہیں اور اپنے طالب علموں کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑتے۔

حقیقی زندگی سے ایک مریض استاد کی ایک عظیم مثال این سلیوان (Anne Sullivan) ہے جو کہ ایک نابینا اور بہری لڑکی ہیلن کیلر (Hellen Keller) کی استانی تھیں۔ سلیوان نے کیلر کے ساتھ انتھک محنت کی۔ اُنھیں اشاروں کی زبان کے ذریعے بات چیت کرنے کا طریقہ سکھایا اور اپنے اردگرد کی دنیا کو سمجھنے میں اُن کی مدد کی۔ اس میں کام میں صبر اور لگن کے ساتھ برسوں لگے۔ سلیوان کی محنت اس وقت رنگ لائی جب کیلر بیچلرز کی ڈگری حاصل کرنے والی پہلی بہری اور نابینا انسان بن گئیں۔
اختراع

عظیم اساتذہ اپنے طلبا کو مشغول رکھنے کےلیے ہمیشہ نئے اور اختراعی (innovative) طریقے تلاش کرتے رہتے ہیں۔ وہ روایتی تدریسی طریقوں سے مطمئن نہیں ہوتے اور وہ اپنی تدریس کو بہتر بنانے کےلیے ہمیشہ جدید آلات، مہارتوں اور طریقوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ وہ خطرات مول لینے اور نئی چیزوں کو آزمانے کےلیے تیار رہتے ہیں، چاہے اس کےلیے انھیں اپنے محفوظ حصار سے باہر نکلنا ہی کیوں نہ ہو۔ چونکہ وہ تخلیقی ہوتے ہیں اس لیے جانتے ہیں کہ کس طرح سیکھنےکے عمل کو تفریح اور دلچسپ بنانا ہے۔

اختراعی استاد کی حقیقی زندگی سے ایک بہترین مثال خان اکیڈمی کے بانی سلمان خان ہیں۔ خان نے اپنے کزن کی ریاضی کے ہوم ورک میں مدد کرنے کےلیے ویڈیوز بنانا شروع کیں اور جلد ہی وہ ہر اس شخص کےلیے ویڈیوز بنانے لگے جو سیکھنا چاہتا تھا۔ تعلیم کے حوالے سے ان کے اختراعی انداز نے ہمارے سیکھنے کے انداز میں انقلاب برپا کردیا اور خان اکیڈمی مفت آن لائن تعلیم فراہم کرنے والا ایک سرکردہ ادارہ بن گئی۔ خان کے اختراعی طریقۂ کار نے لاتعداد اساتذہ کو ٹیکنالوجی کو اپنانے اور اپنے طلبا کو مشغول کرنے کے نئے طریقے تلاش کرنے کی ترغیب دی ہے۔

ہم دردی

عظیم اساتذہ ہم درد ہوتے ہیں اور وہ اپنے طلبا کی ضروریات اور خدشات کو سمجھتے ہیں۔ وہ مہربان اور شفیق ہوتے ہیں اور اپنے طلبا کی بھلائی کا خیال رکھتے ہیں۔ وہ طلبا کو جاننے اور ان کے ساتھ رابطہ بنا کر رہنے کےلیے وقت نکالتے ہیں۔ وہ ایک سازگار، محفوظ، دلچسپ اور معاون تعلیمی ماحول بناتے ہیں جہاں طلبا اپنے خیالات کا اظہار کرنے میں سہولت و تسلی محسوس کرتے ہیں۔ وہ طلبا کے ساتھ ساتھ اپنے دیگر ساتھی اساتذہ کی ضروریات اور مسائل کا ادراک بھی رکھتے ہیں اور اُن کو مفید مشورے دیتے رہتے ہیں۔

ایسی ہی ایک مثال رام شنکر نکمبھ کا کردار ہے جسے عامر خان نے انڈین فلم ’تارے زمین پر‘ میں نبھایا تھا۔ نکمبھ ایک استاد ہیں جو تسلیم کرتے ہیں کہ ان کا طالب علم ’ایشان اوستھی‘ ڈسلیکسیا (dyslexia) کے ساتھ سیکھنے کے عمل میں مشکل کا سامنا کررہا ہے۔ وہ ایشان کے منفرد سیکھنے کے انداز کو سمجھنے کےلیے وقت نکالتا ہے اور اسے کامیابی کےلیے درکار تعاون اور وسائل فراہم کرتا ہے۔ وہ ایشان کی تخلیقی صلاحیتوں اور تخیل کی بھی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور اسے یہ دیکھنے میں مدد کرتا ہے کہ اس کی جدوجہد اس کی صلاحیتوں کو کیسے جِلا نہیں بخش پائی۔

مضمون پر گرفت اور تدریسی مہارتیں

اچھی تدریس کےلیے مواد اور تصورات کا علم (content knowledge) اور تدریسی مہارتیں ضروری ہیں، لیکن صرف یہ استاد کو عظیم نہیں بناسکتے، ایک عظیم استاد کو اپنے موضوع کی گہری سمجھ ہوتی ہے، لیکن وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اسے اپنے طلبا کےلیے قابل رسائی اور متعلقہ کیسے بنایا جائے۔ ان کے پاس تدریسی تکنیکوں کا مکمل علم ہوتا ہے اور وہ متنوع انداز سے سیکھنے والوں کی ضروریات کو پورا کرنے کےلیے اپنی تدریس کو مختلف سانچوں میں ڈھالنے کے قابل بناتے ہیں اور ہمیشہ مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ کمرۂ جماعت میں جاتے ہیں۔ اس کےلیے وہ مسلسل سیکھنے کے عمل سے خود بھی گزرتے رہتے ہیں اور اپنے طلبا سے بھی بڑی بڑی امیدیں رکھتے ہیں تاکہ وہ سخت محنت کا سلسلہ جاری رکھیں۔ نیز ایک عظیم استاد ہمیشہ اپنی کارکردگی، اپنی تدریسی مہارتوں، سیکھنے کے عمل، اپنے رویوں، تاثیر، کامیابیوں اور اپنے علم کا باقاعدگی سے جائزہ لیتے رہتے ہیں تاکہ وہ اپنے آپ کو بہتر سے بہترین بناتے رہیں۔

بالی ووڈ فلم ’تارے زمین پر‘ میں رام شنکر نکمبھ اپنے طالب علموں کی تخلیقی صلاحیتوں اور تخیل کو فروغ دینے میں مدد کرنے کےلیے پرجوش ہے۔ نکمبھ اپنے مضبوط مواد کے علم اور تدریسی مہارتوں کےلیے جانا جاتا ہے اور وہ اپنے طلبا سے ذاتی سطح پر رابطہ قائم کرنے کے قابل بھی ہوتا ہے۔ وہ تسلیم کرتا ہے کہ ہر طالب علم کا اپنا الگ سیکھنے کا انداز ہوتا ہے اور وہ اپنی انفرادی ضروریات کو پورا کرنے کےلیے اپنے تدریسی طریقوں کو تیار کرتا ہے۔

اسی طرح ایک اور بالی ووڈ فلم ’ہچکی‘ میں رانی مکھرجی کا نبھایا ہوا نیہا ماتُھر کا عظیم استانی کا کردار واقعی ایک غیر معمولی معلمہ کی خصلتوں کا مجسم ہے۔ اُنھیں پڑھانے کا گہرا جذبہ رکھنے کے طور پر پیش کیا گیا ہے جو اُن کے طلبا کی کامیابی کےلیے ان کی غیر متزلزل وابستگی سے ظاہر ہوتا ہے۔ بے شمار مسائل کا سامنا کرنے کے باوجود وہ تدریس کے حوالے سے اپنے نقطہ نظر میں غیر معمولی صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتی ہیں، اپنے طلبا سے کبھی دستبردار نہیں ہوتیں اور ہمیشہ انھیں مختلف تعلمی سرگرمیوں میں مشغول رکھنے کے نئے طریقے تلاش کرتی ہیں۔ اُن کے جدید تدریسی طریقے تجربہ کرنے اور مؤثر انداز میں سیکھنے کی جستجو میں خطرات مول لینے کی خواہش کو ظاہر کرتے ہیں۔ وہ ہمدردی کا گہرا احساس رکھتی ہیں، ہمیشہ اپنے ہر طالب علم کی منفرد ضروریات کو سمجھنے اور ان پر توجہ دینے کی کوشش کرتی ہیں۔ نیز اُن کے پاس مضمون پر دسترس اور تدریسی مہارتوں کا خزانہ ہے جو اُنھیں مؤثر ہدایات فراہم کرنے اور اپنے طلبا کو تعلیمی فضیلت کی طرف رہنمائی کرنے کے قابل بناتا ہے۔ یہ خوبیاں اُنھیں متاثر کن شخصیت اور ایک بہترین مثال بناتی ہیں کہ ایک عظیم استاد ہونے کا کیا مطلب ہے۔

ایک اچھا استاد علم فراہم کرسکتا ہے اور طلبا کو ضروری ہنر سکھا سکتا ہے، لیکن ایک عظیم استاد اس سے کہیں زیادہ کام کرتا ہے۔ ایک عظیم استاد کے پاس خوبیوں کا مجموعہ ہوتا ہے جس میں جذبہ، صبر، اختراع، ہمدردی، مضمون پر گرفت اور تدریسی مہارتیں شامل ہیں، جو ان کے طلبا کو سیکھنے اور آگے بڑھنے کی ترغیب دیتی ہیں۔ عظیم اساتذہ سیکھنے کا سازگار ماحول بناتے ہیں، متنوع انداز سے سیکھنے والوں کی ضروریات کو پورا کرنے کےلیے اپنی تدریس کو ڈھالتے ہیں اور ٹیکنالوجی کو بامعنی انداز میں استعمال کرتے ہیں۔ جیسا کہ ساحر خان، Anne Sullivan، سلمان خان، رام شنکر نکمبھ اور نیہا ماتُھر کی فراہم کردہ مثالیں اس بات کو ظاہر کرتی ہیں کہ عظیم اساتذہ اپنے طلبا اور اُن کے مستقبل کی تشکیل میں کیا اثر ڈال سکتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

زین الملوک

زین الملوک

بلاگر ایم اے اردو (پشاور یونیورسٹی)، ایم اے سیاسیات (پشاور یونیورسٹی) اور ایم ایڈ (آغاخان یونیورسٹی، کراچی) ڈگری کے حامل ہیں۔ گزشتہ دو دہائیوں سے شعبۂ تعلیم اور آج کل آغا خان یونیورسٹی ایگزامینیشن بورڈ، کراچی سے بطورِ منیجر ایگزامینیشن ڈیولپمنٹ وابستہ ہیں۔ ان سے ای میل [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔