گندم اور زرعی زمینیں

محمد ابراہیم خلیل  ہفتہ 18 مارچ 2023

ملک بھر میں اس وقت آٹے کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس اضافے کا تسلسل جلد ختم ہونا چاہیے کیوں کہ صوبہ سندھ میں گندم کی فصل تیار ہو چکی ہے۔ کئی اضلاع مثلاً بے نظیر آباد اور حیدرآباد میں گندم کی فصل تیار ہو کر بوریوں میں بند کی جا رہی ہے۔

چند روز قبل ٹرین کے سفر کے دوران یہ مشاہدہ کر رہا تھا کہ ان اضلاع کے کسانوں ، ہاریوں کی محنت رنگ لے آئی ہے۔ گندم کے سنہری ریشوں سے سونے کی ڈلیاں ڈھیر کی صورت میں پڑی تھیں اور کھیتوں میں کام کرنے والے انھیں بوریوں میں بند کر رہے تھے۔

گزشتہ سال کی فصل میں سے ایسی ہی ڈیڑھ لاکھ بوریاں تیار کرکے ضلع نواب شاہ کے سرکاری گوداموں میں اس لیے محفوظ کردیا گیا تھا کہ بہ وقت ضرورت کام آئے۔ چکیوں کے مالکان ، فلور ملز والے انھیں خرید کر اپنی چکیوں کو رواں دواں رکھیں اور آٹے کی قیمت میں بلا جواز اضافہ نہ ہو۔

آٹے کی قیمت میں اضافے کی وجوہات کچھ اور بھی ہو سکتی ہیں لیکن یہ خبر انتہائی دل شکنی کا باعث ہے کہ ضلع نواب شاہ کے سرکاری گوداموں سے گندم کی ڈیڑھ لاکھ بوریاں غائب ہوگئی ہیں، جو کہ اس ضلع کے مختلف گوداموں میں حفاظت سے رکھی گئی تھیں۔ ملک میں اس طرح کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں جس کے باعث گندم کی مصنوعی قلت پیدا کردی جاتی ہے اور بعض اوقات انھی وجوہات کی بنا پر آٹے کی قیمت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

چند ہفتے قبل چکی کا آٹا 140 روپے فی کلو دستیاب تھا، اب چند روز سے اس کی قیمت بڑھ کر 160 روپے فی کلو ہوچکی ہے لہٰذا اب 20 روپے میں ملنے والی روٹی کا وزن مزید ہلکا تر ہو چکا ہے۔

ان کے وزن کا اس طرح ہلکا ہونا عوام پر بھاری پڑ رہا ہے۔ اس لیے کہ غریب مزدور دن بھر کی مزدوری کے بعد دو روٹی کے بجائے تین روٹی کھا کر بھی پیٹ نہیں بھر پا رہا ہے۔ حکومت نے گندم کی کمی پوری کرنے کے لیے گندم امپورٹس کا سلسلہ تیز بھی کردیا ہے۔

گزشتہ ماہ جنوری تک کی بات ہے یعنی جولائی 2022 تا جنوری 2023 ان 7 ماہ میں حکومت تقریباً ساڑھے انیس لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کرچکی ہے اور اس درآمد پر تقریباً پونے دو کھرب روپے خرچ کرچکی ہے۔ اس طرح سے گندم کی بوریاں غائب ہوتی رہیں تو گندم کی فصل اترنے کے بعد بھی صورتحال ویسی ہی رہے گی۔ موجودہ سیزن میں ملک بھر میں گندم کی بہار برپا ہو چکی ہے۔

پنجاب کے کھیت و کھلیان ہوں یا سندھ کی زرخیز زمینیں، ہر طرف ملک بھر میں یہ فصلیں اپنی مستی میں لہلہا رہی ہیں، کسانوں کے پسینے ٹپک ٹپک کر گندم کے دانوں کو توانا کر رہے ہیں، چند ہی ہفتوں میں پنجاب بھر میں یہ فصل جوکہ ابھی کہیں سبز لباس زیب تن کیے کھڑی ہے، اور کہیں ہلکا ہلکا سا سونے کا رنگ چڑھ رہا ہے اور سندھ کے کھیتوں نے انھیں سونے کی ڈلیوں میں نچھاور کرنا بھی شروع کردیا ہے۔

امید تو ہے کہ ڈھائی کروڑ من سے زیادہ گندم کی پیداوار حاصل ہو کر رہے گی جوکہ ملکی کھپت اور ضرورت سے کہیں زیادہ ہے۔ قلت اس لیے پیدا ہوتی ہے اور درآمد کی ضرورت اس لیے پیش آتی ہے کہ کہیں اسمگلنگ، کہیں ذخیرہ اندوزی، کہیں گندم کی مصنوعی قلت اور کہیں بلاوجہ گرانی کا مسئلہ پیدا کردیا جاتا ہے۔

حکومت کی طرف سے کنٹرول کا سخت ترین نظام بظاہر نظر نہیں آتا۔ اس مرتبہ بھی ہم سوا ارب ڈالر سے زیادہ کی گندم درآمد کر لیں گے اور یہ بالحاظ مقدار ملکی مجموعی پیداوار کے 12 سے 13 فی صد تک بھی ہو سکتا ہے۔ پیداوار میں مزید اضافہ بھی عین ممکن ہے۔

اگر غیر آباد سوسائٹی کی زمینوں کے بارے میں یہ شرط لگا دی جائے کہ جب تک ہاؤسنگ سوسائٹیز آباد نہ ہو جائیں ان سوسائٹیوں کی خالی غیر آباد زمینوں پر پہلے جو فصلیں کاشت ہوتی تھیں اسی طرح ہوتی رہیں۔

پنجاب اور سندھ کے درمیان ٹرین کا سفر ہو یا بس کے ذریعے یہ نظارے جو حیران کن ہیں کہ بڑے بڑے وہ قطعہ اراضی جو کبھی گندم، چاول، گنا، کپاس اور دیگر فصلوں کی پیداوار مہیا کرتی رہی ہیں اب ان سے ان کا یہ زیور ان کا یہ حسن ان کا فخر چھین لیا گیا ہے اور ہاؤسنگ سوسائٹی کا بورڈ لگا کر کہیں ان کو چار دیواری میں قید کردیا گیا ہے کہیں یہ بنجر ہو چکی ہیں لہٰذا وہاں کی انتظامیہ ہو یا ضلع انتظامیہ اگر اس طرف توجہ دیں کہ سالہا سال سے قید کی گئی یہ زمینیں ان لمحات تک آزاد کردی جائیں جب تک وہاں لوگ اپنا مکان یا بنگلہ نہیں بنا لیتے اور اس دوران وہاں سے بھرپور فصل حاصل کی جاسکتی ہے۔

اسی طرح مختلف اداروں، بڑی بڑی فیکٹریوں اور پاکستان ریلوے اور دیگر کے پاس بھی مجموعی طور پر ہزاروں ایکڑ سے بھی زائد اندازہ ہے کہ لاکھوں ایکڑ قابل کاشت زمینیں بے کار پڑی ہیں۔ان سے فائدہ اٹھانے کا وقت آگیا ہے۔

گزشتہ مالی سال بھی تقریباً ایک ارب ڈالر کی گندم درآمد کی اس اس سال اس میں مزید اضافہ ہو کر سوا ارب ڈالر سے زائد ہو سکتا ہے اور اسی ایک ارب 20 کروڑ کی خاطر آئی ایم ایف سے طویل مذاکرات بھی ہوئے جو مزید طوالت کا شکار ہوچکے ہیں لہٰذا اگر ہم اپنی تمام قابل کاشت زمینوں سے بھرپور فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ملکی زرعی پیداوار کے حصول اور اس کی برآمدات سے مزید کروڑوں ڈالر کی آمدن حاصل ہو سکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔