کس طرح رہ سکے گا تھر آباد۔۔۔۔

انسان جب اپنے مفاد کی خاطر خودغرض ہوکر اپنے فرائض سے غافل ہوجاتا ہے تو پھر تمام تباہیوں کا ذمہ دار قدرت کو ٹھہراتا ہے


گلن بھنڈ April 17, 2014
انسان جب اپنے مفاد کی خاطر خودغرض ہوکر اپنے فرائض سے غافل ہوجاتا ہے تو پھر تمام تباہیوں کا ذمہ دار قدرت کو ٹھہراتا ہے فوٹو: فائل

کاش عظیم شاعر شاہ لطیف سائیں کے ملک ملیر (تھر) کی ریت آٹا بن جاتی، تھری مائیں اسے گوندھ کر اس سے روٹیاں بنا کر اپنے بچوں کو کھلاتیں اور اپنے جگرگوشوں کو بھوک سے مرتا ہوا نہیں دیکھتیں اور نہ خود بھوک سے مرتیں۔

تھر کوئی دیو مالائی قصہ نہیں ہے، جسے کوئی سمجھ نہ سکے۔ تھر کا جو حشر ہوا، وہ حکم رانوں نے ہی کیا۔ لطیف سائیں کی سورمی ماروی کے ساتھ ملک ملیر کے حاکم عمر بادشاہ نے ظلم کیا کیوں کہ اس دور میں بھی تھر کے مارو لوگ غریب تھے اور آج کے جدید، جمہوری، آئینی و قانونی اور انسانی حقوق کے دور میں بھی مجبور ہیں۔ ایسے حکم رانوں کے لیے لطیف سائیں نے کہا ہے کہ

گر عمر کی یہی رہی بیداد، کس طرح رہ سکے گا تھر آباد

ان غریبوں کی کون سنتا ہے، پیارے مارو کہاں کریں فریاد

جس کو سمجھتے تھے راہ بر اپنا، وہ ہے اک راہ زن ستم ایجاد

انسان جب اپنے مفاد کی خاطر خودغرض ہوکر اپنے فرائض سے غافل ہوجاتا ہے تو پھر تمام تباہیوں کا ذمہ دار قدرت کو ٹھہراتا، اور خود کو اپنی ذمہ داری اور فرائض سے فارغ سمجھ کر شتر مرغ کی طرح اپنا منہ ریت میں چھپا لیتا ہے۔ بالکل اسی طرح سندھ کے حکم رانوں نے تھر کی تباہی پر اپنی غیر ذمہ داری، غفلت اور عوام سے لاتعلقی کے ناقابل معافی گناہ کو قدرت پر تھوپ دیا ہے۔ حکم ران اشرافیہ کی حالت یہ ہے کہ بھوک اور پیاس سے مرنے والے تھر کے باسیوں میں گندم کی تقسیم کے حوالے سے منعقدہ اجلاس میں کس طرح فائیو اسٹار ہوٹل کے کھانے کھائے جارہے تھے، جسے لوگوں نے میڈیا میں دیکھا اور پڑھا لیکن اس شرم ناک عمل پر انہیں کوئی پچھتاوا نہیں کیوں کہ اقتدار کے نشے میں وہ اتنے گم ہوگئے ہیں کہ بے حیائی اور بے شرمی ان کے سامنے شرما جاتی ہے۔



تھر کے معاملے پر حکم رانوں کو پریشانی صرف یہ ہے کہ امدادی سامان میں ان کے کمیشن کا حصہ کتنا ہوگا اور بھوکے پیٹوں کے لیے بھیجی گئی گندم میں کس طرح خرد برد کی جاسکتی ہے۔ جس طرح ان ہی حکم رانوں نے 2010ء کے سیلاب میں کیا تھا، جس میں امداد کے نام پر بڑے عہدے داروں کی بات تو اور تھی مگر نچلی سطح کے کارکن بھی راتوں رات کروڑ پتی بن گئے تھے اور ان کے اکائونٹ سیلاب کی طرح بڑھتے جارہے تھے۔

جدید سائنس نے دن کی روشنی کی طرح یہ بات واضح طور پر سمجھادی ہے کہ کوئی بھی آفت قدرتی نہیں ہوتی اور تمام آفات یا مصیبتیں غیر ذمہ داری، غفلت، لاپروائی، لاتعلقی اور رویوں کے پیش نظر آتی ہیں۔ اگر آفات کے اسباب پر قابو پالیا جائے تو آفات یا مصیبت کے کسی بھی شکل میں نمودار ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ جب کہ تھر کے اندر قحط سالی کی صورت میں نازل ہونے والی آفت سندھ کے غافل اور نااہل حکم رانوں اور ان کی طرف سے مقرر کردہ ڈپٹی کمشنرز سمیت سیاسی اثر و رسوخ کی بنا پر مقرر انتظامی افسران کی پیدا کی ہوئی ہے۔ قحط سالی کی صورت میں نمودار ہونے والی آفت سیکڑوں بچوں، خواتین اور مردوں کی زندگیاں نگل گئی ہے اور اموات کا یہ سلسلہ روز بروز تیز ہوتا جارہا ہے۔

اس وقت بھی بچے اور بڑی عمر کے مرد و خواتین بھوک اور بدحالی کی وجہ سے کئی بیماریوں میں مبتلا ہیں اور ان پر موت منڈلا رہی ہے، جس سے ان کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ آج بھی ضلع تھرپارکر میں بیشتر بنیادی صحت مراکز بند ہیں۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ، وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن اور وزیر اعلیٰ کی مشیر برائے ثقافت شرمیلا فاروقی سمیت حکومت سندھ میں شامل تمام ذمہ داران اور بیورو کریسی آج بھی یہ بات ماننے کو تیار نہیں ہے کہ تھر میں ہونے والی اموات غذئی قلت اور بیماریوں کے باعث ہوئی ہیںلیکن حکمراں یہ کہتے ہیں کہ اموات کی وجہ سردی ہے۔ حکم رانوں کی یہ بات ذی شعور انسان کیسے مانیں گے کہ دنیا کے کئی علاقوں میں سال کے گیارہ ماہ برف پڑتی ہے۔



پاکستان میں مری، کوئٹہ، کاغان، ناران، گلگت بلتستان سمیت کئی علاقوں میں برف باری ہوتی ہے اور درجہ حرارت منفی میں چلا جاتا ہے پھر ان برفیلے علاقوں میں تھر جیسی صورت حال کیوں نہیں پیدا ہوئی۔ تھر میں تو کبھی بھی برف باری نہیں ہوئی۔ اگر اموات کی وجہ سردی ہے تو پھر تھر کے ساتھ ہندوستان کے راجستھان میں بھی ایسی صورت حال پیدا ہونی چاہیے تھی، صرف سندھ کے تھر کے علاقے میں کیوں؟ یہ بات دنیا پر عیاں اور تاریخی طور پر ثابت ہے کہ سندھ کا خطہ کبھی بھی غریب اور بھوکا نہیں رہا اور آج بھی ملک کے 20 کروڑ عوام کا پیٹ پالنے میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے، تو پھر اس امیر صوبے کے لوگوں کا بھوک، پیاس اور علاج معالجے کی سہولیات نہ ملنے سے مرجانا دنیا کے سامنے ایک سوالیہ نشان ہے۔

جب کہ چند لوگوں کے ذاتی چندے سے کچھ سماجی تنظیمیں اگر روزانہ پانچ لاکھ غریب افراد کو اپنے دستر خوان پر دو وقت کا بہترین کھانا کھلا سکتی ہیں تو روزانہ اربوں روپے عوام سے ٹیکس لینے والی حکومت کے پاس اتنی بڑی بیورو کریسی کی فوج ہونے کے باوجود اپنے فرائض سے غافل کیوں ہے، جن کی غفلت کی وجہ سے اتنی بڑی تعداد میں اموات ہوئیں۔ اگر حکومت سندھ چاہتی تو قحط سالی کے جو آثار ایک سال پہلے ہی تھر میں ظاہر ہونا شروع ہوگئے تھے ایمرجینسی نہ بھی نافذ کرتی، تب بھی معمولی اقدام سے موجودہ صورت حال پر قابو پاسکتی تھی۔ مگر غفلت کے باعث 6 ماہ سے تھر کے مکینوں کے لیے لائی گئی 60 ہزار گندم کی بوریوں کا آٹا بھی ان کے مٹی کے چولہے تک نہ پہنچ سکا اور تھر کے بچے اس دنیا کی رنگینیوں کو دیکھنے سے پہلے ہی موت کا شکار ہوگئے، جسے کسی بھی صورت طبعی موت نہیں قرار دیا جاسکتا۔

آئین پاکستان کے عوامی نمایندہ ایکٹ کے آرٹیکل 184 اور 199 کے تحت عوام کی جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری حکومت اور ریاست کی ہے تو پھر سندھ کے حکم رانوں کی غفلت و لاپروائی اور عوام سے لاتعلقی کے نتیجے میں تھر کے باسیوں کی ہلاکتوں کو کسی بھی صورت طبعی موت قرار نہیں دیا جاسکتا اور یہ نئے طریقے کار کے تحت قتل ہے، جس میں انسانوں کے ساتھ پالتو و جنگلی جانوروں سمیت کئی اقسام کے پرندے و دیگر جان دار موت کے منہ میں چلے گئے، جن کے متعلق ملک میں قانون موجود ہے۔ مگر اس قانون پر کبھی عمل نہیں کیا گیا، جس کی وجہ سے حکمران ہر مرتبہ اپنی سازشوں، چالاکیوں اور مکاریوں میں کام یاب ہوتے رہے ہیں۔



مگر ان سازشوں کو ناکام بنایا جاسکتا ہے جس کا طریقہ آسان اور سستا بھی ہے، صرف تھوڑی ہمت، غیرت اور احساس کی ضرورت ہے، جس کے لیے ملک کے تمام مکتبہ فکر کے باشعور، باضمیر اور درد رکھنے والے اہل دل و دماغ پر لازم ہے کہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا مقدمہ درج کرانے کے لیے پچاس پیسے کا کاغذ خرید کر سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس کے نام ایک درخواست لکھیں اور موقف اختیار کریں کہ وزیر اعلیٰ سندھ، چیف سیکریٹری سندھ، خوراک، بحالی، صحت، ریونیو، اطلاعات، لائیو اسٹاک اور فنانس کے صوبائی وزراء، تمام محکموں کے سیکریٹریز، ڈی جیز، ڈائریکٹرز، ضلعی سطح کے افسران، وفاقی و صوبائی ڈزاسٹر منیجمنٹ کے چیئرمین، کمشنر میرپور خاص، ڈپٹی کمشنر تھرپارکر سے لے کر متاثرہ علاقوں کے ملوث تحصیل دار تک تمام ذمہ داران پر تعزیرات پاکستان دفعہ 302 کے تحت مقدمات درج کیے جائیں اور عوام کے جان و مال کا تحفظ نہ کرنے پر انہیں عہدوں سے فارغ کرکے ان کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کی اپیل کی جائے۔

اگر پاکستان کی 20 کروڑ آبادی میں سے2 لاکھ لوگ 50 پیسے کا کاغذ اور ڈاک کا خرچ برداشت کرسکیں اور دو لاکھ درخواستیں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی میز تک پہنچ جائیں تو یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا مقدمہ بن سکتا ہے۔ جس کے بعد مستقبل میں حکم رانوں کی غفلت کے نتیجے میں پاکستان کے کسی بھی حصے میں آفت نہیں آئے گی۔ سزا و جزا کا یہ عمل ناممکن بھی نہیں، کیوں کہ نواب اکبر بگٹی اور غازی عبدالرشید کے قتل کی سازش اور شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی سیکیورٹی میں غفلت برتنے پر پرویز مشرف پر مقدمات درج ہوسکتے اور وہ سب جیل بھی جاسکتے ہیں اور یوسف رضا گیلانی سوئس حکام کو خط لکھنے میں لاپروائی کے نتیجے میں وزارت عظمیٰ کے منصب سے فارغ ہوسکتے ہیں تو قائم علی شاہ اور تمام ذمہ داران تھر کے مقدمے سے کسی صورت بچ نہیں سکتے کیوںکہ وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ سمیت ملوث اشرافیہ نہ تو آسمانی مخلوق ہے اور نہ ہی ان کی زندگیاں تھر کے لوگوں سے زیادہ قیمتی ہیں۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تھر کے معاملے پر از خود نوٹس لے چکے ہیں، پائلر اور فشر فوک فورم پہلے سے ہی اس ازخود نوٹس پر حکومت سندھ کے خلاف فریق بن چکے ہیں۔ اگر اس درخواست پر آئینی فیصلہ آگیا تو لطیف سائیں کی جنت جیسا تھر مستقبل میں بچ جائے گا جس کے لیے لطیف سائیں نے کہا ہے کہ

تن پر کپڑا نہیں تو کیا غم ہے، مقصد جسم و جاں سمجھتے ہیں

ہم بیاباں نورو 'ڈھٹ' والے، تھر کو جنت نشاں سمجھتے ہیں

مقبول خبریں