افغان بادشاہت اور گریٹ گیم

ڈاکٹر عرفان احمد بیگ  اتوار 21 مئ 2023
داؤد خان ظاہر شاہ کا تختہ نہ اُلٹتے تو افغانستان کی تاریخ مختلف ہوتی۔ فوٹو : فائل

داؤد خان ظاہر شاہ کا تختہ نہ اُلٹتے تو افغانستان کی تاریخ مختلف ہوتی۔ فوٹو : فائل

افغانستان ہمارا ایسا ہمسایہ ملک ہے جس کے گہر ے تاریخی، ثقافتی، تمدنی، سیاسی، اقتصادی اور مذہبی اثرات برصغیر پر مرتب ہوتے رہے ہیں اور اب تک کسی نہ کسی اعتبار سے مرتب ہو رہے ہیں۔

گزشتہ صدی یعنی 20 ویں صدی کے نصف تک دنیا کے بہت سے ملکوں میں بادشاہتیں قائم تھیں اور یہ بادشاہتیں صدیوں سے مختلف شاہی خاندانوں کی رہیں اسی طرح خود افغانستان پر بھی سنٹرل ایشیا ایران اور روس کے اثرات بھی مرتب ہو تے رہے۔

افغانستان سے ہی غزنوی ، غوری اور دیگر مسلمان بادشاہ انڈیا کا رخ کرتے رہے۔ آخر میں ظہیر الدین بابر افغانستان کے راستے بھارت پر حملہ آور ہوا اور 1526 ء میں ابراہیم لودھی کو شکست دے کر ہندوستان میں مغلیہ سلطنت بنیا د رکھی۔ بابر جب ازبکستان میں اپنی چھوٹی سے ریاست فرغانہ سے فرار ہوا تو چند سال بعد اُس نے افغانستان پر قبضہ کر لیا اور پھر کابل پر مستحکم حکومت قائم کر نے کے بعد ہندوستان پر حملہ کیا۔

کابل اسے اتنا پسند آیا کہ وہ ہندوستان کی بجائے کابل ہی میں دفن ہوا۔ 1709 ء سے 1738 ء تک افغانستان میں ہوتاک بادشاہت قائم تھی جو خود مختار اور طاقتور نہ تھی۔ 1747 ء میں نادر شاہ افشار کو ایران میں قتل کر دیا تو اُس کادست ِ راست افغان کمانڈر احمد شاہ درانی کو ’جسے ابدالی بابا بھی کہتے ہیں‘ افغانستان میں پشتون لوئی قبائلی جرگہ نے بادشاہ بنایا۔ یہ افغانستان کا افغان اور علاقے کا ایک مضبوط اور طاقتور بادشاہ تھا اُس نے اپنی طاقت کا بھر پور مظاہر ہ کیا۔

احمد شاہ ابدالی نے ہندوستان پر حملہ کر کے مرہٹوں کا زور توڑا اُس کی سلطنت بخارہ ،ترکستان ، خراسان، آمودریا کے علاقے اور شمالی ہندوستان تک پھیلی ہو ئی تھی۔ اس کو سلطنت سدوزئی کہتے ہیں۔ سدوزئی سلطنت کا تیسرا بادشاہ زمان شاہ تھا جو 1793 ء سے1801 ء افغا نستان کا بادشاہ رہا اس زمانے میں ہندوستان میں انگریز مستحکم ہو رہا تھا ۔

سدوزئی سلطنت میں شاہ شجاع درانی جو پہلی بار 1803 ء سے 1809 ء تک افغانستان کا بادشاہ رہا تھا وہ باشاہت سے بے دخلی کے بعد امرتسر آگیا تھا، جہاں وہ بعد میں انگریزکی سر پرستی میں آگیا ۔1823 ء سے 1926 ء تککابل میں بارکزئی سلطنت رہی۔ بارکزئی سلطنت کا پہلا بادشاہ سلطان محمد خان تھا جس کا دور 1823 ء سے1826 ء رہا۔ اِن کے بعد دوسرا بادشاہ دوست محمد خان تھا جس کا پہلا دور ستمبر1826 ء سے اگست 1839 ء پر محیط تھا۔ انگریز یہ جانتا تھا کہ روس نپولین سے رابط کر نا چاہتا ہے تا کہ وہ یہاںساحل پر گرم سمندر تک پہنچ سکے۔

انگریز نپولین سے1815 ء تک مقابلہ کرتا رہا اور یورپ سے فارغت پا کر انہوں نے سوچا کہ ہندوستان میں حملہ آور شمال یعنی افغانستان سے ہو کر آتے رہے ہیں اور اکثر ہندوستان کے بادشاہ اِن حملہ آوروں کا مقابلہ ہند وستان میں پانی پت کے میدان میں کرتے تھے یہ ایک دفاعی جنگ ہوتی تھی، یہ حملہ آور وسطیٰ ایشیاء افغانستان اور ایران سے آیا کرتے تھے مگر اب 1801 ء سے روس بھی یہ منصوبہ بندی کر رہا تھا کہ وہ بلوچستا ن تک پہنچ جا ئے۔ انگریزوں نے ہندوستان سے افغانستان جاسوس بھیجے اور یہی کام روس نے بھی کیا۔

روس سنٹرل ایشیا کے علاقوں پر قبضہ کرتے ہو ئے افغانستان کی سرحد تک پہنچ رہا تھا۔ پھر جب راجہ رنجیت سنگھ نے پشاوراور دیگر علاقوں پر قبضہ کیا تو افغان بادشاہ نے ہندوستان کی انگریز سر کار سے مدد مانگی تھی مگر انگریزوں نے مدد نہیں کی تو افغانستان نے روس سے رابط کیا۔ شاہ شجاع امرتسر میں موجود تھا اورر افغانستان کا دوبارہ بادشاہ بننا چاہتا تھا۔ انگریزوں نے 1839 ء میں جب افغانستان پر حملے کا منصوبہ بنایا تو راجہ رنجیت سنگھ سے بھی فوجی مدد لی، جس کی فوج جلال آباد سے افغانستان پر حملہ آور ہوئی۔

انگر یز دس ہزار باقاعدہ ہندوستانی فوج کے علاوہ 30000 پنجاب کی مدد گار فوج اور شاہ شجاع کا پانچ ہزار پر مشتمل لشکر کے ساتھ افغانستان پر حملہ آور ہوا، افغان فوج کو شکست ہوئی اور یہاں انگریز نے اپنے وفادر شاہ شجاع کو بادشاہ بنا دیا۔ فتح کے بعد اٖضافی فوجیں واپس ہو گئیں اور افغانستان میں 12000 ہزار انگریز فوج رہ گئی۔ دوست محمد کے بیٹے اکبر خان نے 1842 ء میں انگریز وں اور شاہ شجاع کے خلا ف جنگ کی اور انگریزوں کی فوج کے ساتھ دیگر مددگاروں کا بھی صفایا کردیا۔

شاہ شجاع دوسری بار 7 اگست1839 ء سے5 اپریل 1842 ء تک بادشاہ رہا۔ یہ دراصل افغانستان میں روس اور برطانیہ کے درمیان ہو نے والی گریٹ گیم کی پہلی بڑی جنگ تھی جس میں بر طانیہ کو شکست ہوئی۔ مگرافغا نستان کی حیثیت خاموشی سے حائلی ریاست کی ہو گئی جس کو انگریزی میں بفر زون کہا جا تا ہے۔ اس جنگ میں انگریز فوجیں کراچی سے ہو تے ہوئے بلوچستان سے گذری تھیں اور جب یہ فوجیں درہ بولان سے گزریں تو بلوچوں نے انگریزی فوج پر گوریلا طرز کے حملے کئے۔

جب 1839 ء ہی میں انگریزی فوجیں افغانستان سے واپس ہو ئیں تو بلوچستان کے حکمران خان آف قلات میر محراب کو اطاعت قبول کر نے کا پیغام بھیجا جس پر میر محراب خان نے جرات سے جواب دیا کہ وہ غلامی کو قبول نہیں کر یں گے۔

قلات کے قریب بلوچوں اور انگریزوں کے درمیان جنگ ہوئی اور میر محراب خان نے اپنے ہزاروں جانثاروں کے ساتھ شہادت پائی یوں انگریز فوجیں یہاں بھی آگئیں۔ واضح رہے کہ ابدالی دور سے بلوچستان کو ایک آزاد خود مختار اور وسیع رقبہ کی ریاست کی حیثیت حاصل ہو چکی تھی۔ افغانستان کے بادشاہ احمد شاہ ابدالی کے دور میں ہی خان آف قلات میرنصیر نوری کی حکمرانی بلو چستان میں قائم ہو ئی تھی جس نے احمد شاہ ابدالی کے ساتھ جنگوں میں اپنے بلوچ لشکر کے ساتھ حصہ لیا تھا، خصوصاً جب ابدالی نے ہندوستان پر فیصلہ کن حملہ کر کے مرہٹوں کا زور توڑ دیا تھا۔

پہلی اینگلو افغان جنگ کے بعد اکبر خان مئی 1842 تا 1843 ء بادشاہ رہے پھر دوست محمد خان کا دوسرا دور 1843 ء سے1863 ء تک رہا،اس دوران سندھ میں انگریزوں کے خلاف دارالحکومت حیدر آباد کے تالپور حکمران اور بلوچوں نے جنگ لڑی ،جس میں جنرل محمد ہوش عرف ہوشو، شیدی شہید نے شہرت پائی۔ انگریز نے24 مارچ 1843 ء میں اس لڑائی میں فتح پائی اور سندھ پر اپنا قبضہ مکمل کر لیا۔

دوسری جانب 1839 ء میں راجہ رنجیت سنگھ کا انتقال ہو گیا تو اس کے بعد اُن کے خاندان کے لوگ اقتدار کی خاطر آپس میں الجھ گئے۔ پھر اُنہوں نے انگریزی علاقے پر حملہ کردیا انگریزوں نے اس جنگ میں فتح پائی اور پنجاب پر بھی انگریزوں کا قبضہ مکمل ہو گیا۔

انگر یزوں کو پہلی اینگلو، افغان جنگ میں شکست کے بعد ایک سیاسی اور عسکری چیلنج افغانستا ن اور روس کے حوالے سے درپیش تھا۔ انگریز 1843 ء سے 1846 ء تک سند ھ، پنجاب اور خیبر پختونخوا تک اپنی حکومت قائم کر چکا تھا۔ انگریز اگرچہ 1839 ء میں محراب خان کی شہادت کے بعد بلوچستان میں بھی آ چکا تھا مگر یہاں پر قبائل نے انگریزوں کے خلاف گوریلا طرز کی مزاحمت جاری رکھی ہوئی تھی۔

انگریز 1842ء کی شکست کا جواب افغانستان کو دینا چاہتا تھا تاکہ روس اور افغانستان ہندوستان میں اُس کی طاقتور پوزیشن کو تسلیم کر لیں اور مستقبل میں کسی قسم کے ایڈونچر کی کوشش نہ کریں۔ مگر عسکری طور پر وہ یہ جانتا تھا کہ بلو چستان میں اگر قبائل اُس کے خلاف ہیں تو وہ اتنے وسیع علاقے میں یہاں قبائلیوں کی شورش کو کبھی بھی مکمل طور پر ختم نہیں کر سکے گا اور اس کے لیے انگریز کی کو شیشں1877 ء تک کامیاب نہیں ہو ئیں۔

اسی سال سر رابرٹ سنڈے من بلوچستان میں تعینات ہوا۔ رابرٹ سنڈیمن نے 1857 ء کی جنگ آزادی میں لکھنو پرکنٹرول حاصل کرنے کا کارنامہ انجام دیا تھا، پھر وہ ڈیرہ غازی خان میں اسسٹنٹ کمشنر کے طور پر تعینات رہا۔ یہاں سے بلوچستان کے قبائلی معاشرے کا مطالعہ کرنے اور اِس کو سمجھنے کے بعد اُس نے بلوچستان میں اندرونی طور پر مکمل خود مختاری کی بنیاد پر خان آف قلات سے معاہدہ کیا اور اس کے بعد 1878 ء میں نہ صرف یہاں زمین خرید کر کو ئٹہ جیسا شہر اور ایک بڑی چھاؤنی بنائی بلکہ اسی سال بر ٹش انڈیا نے موقع کو مناسب جا نتے ہوئے دوسری اینگلو افغان جنگ کی۔

افغانستان میں دوست محمد کے بعد 1863 ء سے خانہ جنگی کی کیفیت رہی اور اب بارکزئی سلطنت کا نواں بادشاہ شیر علی خان برسراقتدار تھا۔ جب انگریزوں نے دوسری اینگلو افغان جنگ شروع کی تو شیرعلی کے مقابلے میں انگریز کمانڈر جنرل سموئل براؤنی ۔ فریڈک روبرٹس اور ڈونالڈ اسٹیورٹ تھے۔ یہ جنگ 1878 ء سے1880 ء تک جاری رہی۔ اِ س دوران شیر علی کے بعد محمد یعقوب اور پھر محمد ایوب خان 12 اکتوبر 1879 ء سے 31 مئی 1880 تک حاکم رہے۔

اس کے بعد عبدالرحیم 31 مئی 1880 ء سے یکم اکتوبر1901 ء تک بادشاہ رہا۔ اب افغانستان سے انگریز نے Gandamak گنڈا میک معاہد ہ کرلیا۔ دوسری اینگلو افغان جنگ جب افغانستان میں ختم ہوئی افغانستان میں برطانوی ہندوستانی فوج کی پوزیشن مضبوط ہو گئی۔ اُس موقع پر پہلے انگریز نے ایک تجویز یہ رکھی کہ افغانستان کو دو یا تین حصوں میں تقسیم کر دیا جائے مگر بعد میں ایسا نہیں کیا اور افغانستان میں بادشاہت کو قائم رکھتے ہو ئے گنڈا میک معاہدہ کے تحت افغانستان کو سالانہ ایک بڑی رقم سبسڈی کی صورت میں دی جانے لگی۔

افغانستان کے دفاع کی ذمہ داری انگر یز نے لے لی۔ افغانستان کی خارجہ پالیسی کے خطوط کو بھی انگریزوں کی مشاورت سے مشروط کر دیا گیا جب کہ اندرونی معاملات میں افغا نستا ن کو آزادی دے دی گئی۔ روس اور بر طانیہ گریٹ گیم کے اعتبار سے یہ جنگ ایسی تھی کہ اس میں افغانستان کی بفر زون کی حیثیت متا ثر ہو ئی تھی مگر اس سے ہندوستان میں انگریز سرکارکو تقویت ملی کہ اب اُس کو افغانستان سے روسی مداخلت کا کو ئی خطرہ نہیں تھا البتہ یہ ضرورتھا کہ اس دوران روس افغانستان کی شمالی سرحد پر سنٹرل ایشیا کے ملکوں پر اپنا تسلط قائم کر چکا تھا۔ برطانیہ نے یہاں بفر زون کو قائم رکھا اور اس سے آگے پیش قدمی نہیں کی۔

واضح رہے کہ افغانستان اور اس کے بعد ازبکستان ، تاجکستان ، کرغیزستان ، قزاکستان،ترکمانستان، آذر بائجان یہ تما م ممالک لینڈ لاک ہیں، یعنی ایسے ممالک ہیں جن کے پاس سمندر نہیں ۔ جہاں تک روس پر حملوں کا تعلق ہے تو اُس وقت تک فرانس کے نپولین ہی نے یہ غلطی کی تھی اور وہ بھی روس میں یورپ سے داخل ہوا تھا جہاں سردیوں کی آمد پر اُس کی فوج کا 80 فیصد حصہ سردی سے ہلا ک ہو گیا تھا اور بعد میں یہی غلطی دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کے ہٹلر نے کی تھی۔

جبکہ یہاں افغا نستان سے آگے روس کا یہ ایشیائی حصہ تھا جو سنٹرل ایشیا کہلاتا ہے اور اُس وقت یہاں پر روس کا قبضہ بھی نیا نیا تھا۔ یہاں آبادی کی اکثریت مسلمان ہے، معاشرہ قبائلی طرز کا تھا لیکن یہ رقبہ وسیع اور دشوار گذار ہے، اس لیے انگریز نے افغانستان میں جو سبق 1842 ء کی پہلی اینگلو افغان جنگ کی شکست سے سیکھا تھا اُ س کو مدنظر رکھتے ہو ئے انہوں نے اپنی بڑی ہندوستانی فوج کو روس کے خلاف مہم میں جھونکنے سے گریز کیا اور افغانستان میں یہاں کی حکومت کے ساتھ تقریباً بلوچستان جیسا معاہد ہ کر لیا، مگر یہاں فرق یہ تھا کہ بلوچستان لینڈ لاک خطہ بھی نہیں تھا اور سائز اور آبادی کے اعتبار سے افغانستان سے چھوٹا تھا۔

پہلی عالمی جنگ کے بعد برٹش انڈیا میں جب مسلمانوں نے ترکی کے حق میں تحریک خلافت شروع کی تو بہت سے مسلمان افغانستان کے راستے ترکی جانے کی کوشش کر تے رہے لیکن یہاں افغانستان کے حبیب اللہ خان نے سرکاری طور پر اُن کی مدد نہ کی اور جنگ ِعظیم اوّل کے دوران بھی افغانستان کو باوجود عوامی دباؤ کے غیرجانبدار رکھا اور جب معاہدہ وراسائی ہو رہا تھا تو اُسے امید تھی کہ برطانیہ اسے معاہدے میں شرکت کی دعوت دے گا مگر ایسا نہیں ہوا۔

20 فروری1919 کو صوبہ لغمان میں شکار کے دوران حبیب اللہ کے ایک ملٹری آفیسر نے اُسے قتل کردیا۔ اس کے بعد اُس کا بھائی نصراللہ خان کو ئی آٹھ دن بادشاہ رہا اور پھر افغانستان کی تاریخ کا اہم کردار غازی امان اللہ بادشاہ بن گیاجو مقتول بادشاہ حبیب اللہ خان کا تیسرا بیٹا تھا۔ امان اللہ خوش شکل تھا، قوم کا خیر خواہ تصور کیا جا تا تھا اور عوام میں بھی بہت مقبول تھا۔ غازی امان اللہ عوامی لیڈر نہیں بلکہ مطلق العنان بادشاہ تھا لیکن اس کے ساتھ وہ لبرل ضرور تھا۔ اُس کی ملکہ ثریا اور خسر کسی حد تک آزاد خیال تھے جب کہ افغانستان کے عوام کہیں زیادہ مذہبی اور روائتی تھے۔

غازی امان اللہ خان نے Gandamak گنڈا میک معاہدہ ختم کر دیا اور افغانستان کی خارجہ پالیسی اور دفاع کو اپنے ہاتھ میں لے لیا جو ایک جرات مندانہ اقدام تھا جسے افغان عوام نے پسند کیا اور امان اللہ کی مقبولیت میں اور اضافہ ہو گیا۔ غازی امان اللہ نے یہ فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کیا تھا جنگِ عظیم اوّل کو ختم ہو ئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا انگریز کے لیے لڑنے والی ہندوستانی فوجیں ابھی تک مختلف محاذوں پر تھیں۔

ہند وستان میں کانگریس اور خلافت کی تحریکیں زوروںپر تھیں کہ دہلی کی لیجسلیٹوکو نسل نے 8 مارچ 1919 ء کو Rowlatt Act منظور کر لیا تھا جس میں احتجاج پر کسی بھی شخص کو غیر معینہ مدت کی نظر بندی ہو سکتی تھی۔ اس پر 13 اپریل کو حکومت کی وارنگ کے باوجود امرتسر میں جیالوالہ باغ میں اس قانون کے خلاف ایک احتجاجی جلسہ کیا گیا جس پر جنرل ڈائر کے حکم سے اندھا دھند فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں سینکڑوں افراد ہلا ک اور زخمی ہو ئے۔ اس قتل عام پر پوری دنیا میں برطانیہ کو خفت اٹھانا پڑ ی جب کہ ہندوستان میں شدید احتجاج شروع ہوا۔

غازی امان اللہ کو یقین تھا کہ اِن حالات میں انڈیا سے افغانستا ن کے خلاف کو ئی کاروائی نہیں ہو گی مگر امان اللہ خان کو یہ اندازہ نہیں تھا برٹش انڈیا میںجاگیر دارانہ نظام نہ صرف بہت مضبوط تھا بلکہ انگریز کا اتنا وفادار تھا کہ اس کے راجاوں مہا راجاوں اور نوابین نے ہندوستان کی جنگ ِآزادی میں ہم وطنوں کے خلاف انگریز کا ساتھ دیا تھا اور اسی لئے جنگِ آزادی ناکام ہو گئی تھی۔ یوں جب انگریز نے 6 مئی 1919 ء کو افغانستان پر حملہ کیا تو انڈیا میں انگریزوں کے خلاف کو ئی مزاحمت نہیں ہو ئی حالانکہ غازی امان اللہ خان کا خیال تھا کہ اسی وقت ہندوستان میں بڑی بغاوت ہو جا ئے گی اور کم ازکم آج کے پاکستانی علاقے آزاد ہو جا ئیں گے مگر ایسا نہیں ہوا۔

اس تیسری اینگلو افغان جنگ میں سرکاری افغان فوج پچاس ہزار تھی جب کہ مسلح قبائلی لشکر80000 پر مشتمل تھا۔ اِن کے پاس توپیں بھی تھیں۔ اس جنگ کی کمانڈ جنرل خود امان اللہ خان اور جنرل نادرخان نے کی۔ انگریز فوج کے کمانڈر لیفٹنٹ جنرل سر آرتھر برائٹ بریگیڈئر جنرل ریجینڈ ڈائر بریگیڈئر جنرل الیگزنڈر تھے۔

یہ جنگ5 مئی 1919 سے8 اگست1919 ء تک جاری رہی۔ اس جنگ میں کابل شہر پر انگریز وں کے حکم سے طیاروں نے بمباری کی جنگ میں افغا نستان کے ایک ہزار افراد جاں بحق ہو ئے جبکہ انگریز ی فوج کے 1250 فوجی ہلا ک ہو ئے اور پانچ سو سے زیادہ ہیضے کی وبا سے مرے۔ اس جنگ کو افغانستان نے اپنی فتح قرار دیا جبکہ جنگ کے اختتام پر انگریزوں نے امان اللہ خان سے دونوں ملکوں کے درمیان Durand line ڈیورنڈ لائن کا معاہد ہ کر لیا اور اس بنیاد پر جنگ کو اپنی فتح قراردیا۔ تیسری اینگلو افغان جنگ1919کے بعد راولپنڈی میں ایک شاہی دربار منعقد ہوا جس میں غازی امان اللہ خان کی جانب سے اُن کے سسر سردار محمدطرزی، وزیر خزانہ دیوان نرجن داس اور سردارعلی احمد جان نے شرکت کی، جبکہ برٹش انڈیا یعنی انگریز کی جانب سے سرفرانسس ہمفریز،،افغانستان میں برطانیہ کے سفیر ،، اور سرجان ٹامپسن تھے۔

اِن مذاکرات میں انگریز نمائندے کی تقریر کے بعد سرداراحمد جان نے تقریر کی۔ اُن کی تقریر شدید جذباتی انداز کی تھی جس میں اُنہوں نے کہا کہ انگریز قوم جو دنیا میں خود کو مہذب اور شائستہ کہتی ہے، حقیقت میں ایک وحشی سفاک اور بے رحم قوم ہے جس نے اس جنگ میں کابل جیسے پُر امن شہر پر بمباری کی اور معصوم شہریوں کو ہلاک کیا۔ اس معاہدہ کے بعد افغانستان کی خارجہ اور دفاعی پالیسی آزادی ہو گئی تو غازی امان اللہ خان نے ایک سفارتی وفد سوویت یونین(روس) بھیجا جس کا لینن نے بہت ہی پُر تپاک خیر مقدم کیا۔

جواب میں سوویت یونین نے بھی اپنا وفد کابل بھیجا اور سوویت یونین نے اپنی جانب سے امداد کی پیش کش کی۔ 1921 ء میں افغانستان اور سوویت یونین کے درمیان دوستی کا معاہدہ ہو گیا۔ اس کے بعد سوویت یونین نے افغانستان کو مالی اور فوجی امداد کے ساتھ چند طیارے بھی دیئے اور اِن کی فضائیہ بنا نے اور پائلٹوں کو تربیت دینے کا انتظام کیا ، انگریز معاہدہ راولپنڈی کے دوران اپنی بے عزتی نہیں بھولے تھے اور ساتھ ہی اپنی ڈپلو میسی کے تحت افغانستان کو اپنی دشمنی کے بجائے دوستی دکھا نا چاہتے تھے۔

بر طانیہ نے غازی امان اللہ خان کو ایک آزاد ملک کے سربراہ کے طور پر یورپ خصوصاً برطانیہ کے دورے کی دعوت دی۔ امان اللہ دنیا پر یہ واضح کر نا چاہتا تھا کہ افغا نستان کی خارجہ پا لیسی بالکل آزاد ہے اس لیے وہ سوویت یونین کی پرواہ کئے بغیر یورپ کا دورہ کرئے گا اور یوں امان اللہ نے دورے کی دعوت قبول کر لی۔

بر طانیہ نے امان اللہ کو خوش کر نے کے لیے ایک شاہی ٹرین تیار کروائی جس سے امان اللہ کر اچی تک گیا۔ وہاں سے بذریعہ بحری جہاز یورپ پہنچا جہاں فرانس بلجیم اور برطانیہ میں اُس کے استقبال کی تیاریاں ایسے ہو ئیں جیسے امریکی صدر کے استقبال کے لیے ہو تی ہیں۔ پیرس میں صدر پوانکارے نے اپنی پوری کابینہ کے ساتھ غازی امان اللہ کاستقبال کیا۔ جب کہ برطانیہ میں ملکہ میری اور شہزادگان نے غازی امن اللہ خان کا استقبال کیا۔

اِن کے اعزاز میں بہت اعلیٰ ضیا فتوں کا اہتمام کیا گیا ملکہ ثریا نے ہر جگہ اپنی تصویریں بنوائیں کیونکہ وہ اہل مغرب کو یہ پیغام بھی دینا چاہتے تھے کہ افغان حکومت لبرل ہے۔ دورہ ختم ہو رہا تھا تو غازی امان اللہ خان نے یہ اعلان کیا کہ اُن کی واپسی ماسکو سے ہو تے ہوئے ہو گی شاید وہ یہ فیصلہ دل میں پہلے ہی کر چکے تھے یہ فیصلہ برطانیہ اور یورپ کے دیگر ملکوں کے حکام پر بجلی بن کر گرا۔ اُنہوں نے امان اللہ خان کو ماسکو کے دورے سے روکنے کی بھر پور کوشش کی۔

برطانیہ کے وزیر اعظم کی جانب سے اِن اقدامات کا ذکر سیکرٹری آف انڈیا نے پارلیمنٹ میں بھی کیا۔ غازی امان اللہ یہاں یہ تاثر دینا چاہتے تھے کہ افغانستان مکمل طور پر آزاد ہے اور وہ اپنی خارجہ پالیسی کی بنیاد پر برطانیہ اور یورپ کے دیگر ملکوںکے مقابلے میں سوویت یونین سے بھی متوازن تعلقات قائم رکھنا چاہتا ہے۔ جنگ عظم اوّل کے منفی سیاسی اقتصادی اثرات رفتہ رفتہ پوری دنیا پر مرتب ہو نے لگے تھے مگر اس کے باوجود برطانیہ غازی امان اللہ جیسے افغان بادشاہ سے غافل نہیں تھا اور یوں برطانیہ نے جلد ہی امان اللہ کے خلاف سازشیں شروع کر دیں۔

اس مقصد کے لیے امرتسر کی ایک پریس میں ملکہ ثریا کی برہنہ اور نیم برہنہ تصاویر کے پوسٹر شائع کئے گئے جن میں اُن کے اسی دورہ ِ یورپ کے مختلف مناظر کی بنیاد پر جھوٹی اور مصنوعی عکاسی کی گئی تھی۔ اِن پو سٹروں کو افغانستان کے بھولے بھالے عوام میں تقسیم کیا، پھر کرنل لارڈ لارنس المعروف لارنس آف عریبہ کو یہاں بھیجا گیا جو ایک پیر ِ کرامات کی صورت افغا نستان گیا اور عوام کو بہکایا اور امان اللہ کے خلاف بغاوت بھڑک اٹھی۔ 1929 ء میں امان اللہ کے خاندان کے کئی افراد کو قتل کردیا گیا اور وہ بہت مشکل سے اپنی کار میں فرار ہو کر چمن پہنچا اور یہاں سے روم چلا گیا اور جلا وطنی کے دوران 25 اپریل1960 ء کو وفات پائی۔

امان اللہ کے بعد محمد نادر شاہ 15 اکتوبر 1929 ء سے 8 نومبر1933 ء تک افغانستان کا بادشاہ رہے۔ اِن کو 8 نومبر 1933 ء کو قتل کردیا گیا توافغانستان کے آخری بادشاہ ظاہر شاہ نے تخت سنبھالا۔ وہ 15 اکتوبر 1914 ء میں کابل میں پید اہو ئے اور اپنے والد کے قتل کے بعد صرف 19 برس کی عمر میں افغانستان کے باد شاہ بنے۔

یہ وہ دور تھا جب برٹش انڈیا میں مسلم لیگ کے قائد اعظم اور کانگریس کے جواہر لال نہر و کی سربراہی میں آزادی اور پارلیمانی جمہوریت کے لیے جد وجہد شروع ہو چکی تھی اور جنگ عظیم اوّل کے منفی اقتصادی اثرات اب پوری دنیا پر پھیل رہے تھے۔ عالمی کساد بازاری نے دنیا کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ ظاہر شاہ کی تعلیم میٹرک تک انگلش میڈ یم کی ہو ئی تھی پھر اُن کی تعلیم فرانس میں ہو ئی جہاں اُن کے والد پہلے افغانستان کے سفیر بھی رہے تھے۔ بعد میں انہوں نے انفنٹری اسکول سے بھی تعلیم حاصل کی۔

بادشا ہ بننے سے پہلے وہ نائب وزیر جنگ اور وزیر تعلیم بھی رہے۔ جب بادشاہ بنے تو انہوں نے افغانستان کو ایک اسلامی اورآزاد ملک کی حیثیت سے عالمی سطح پر متعارف کرایا اور 1934 ء میں افغانستان لیگ آف نیشن یعنی اقوام عالم کا رکن بنا۔ ظاہر شاہ ہی کے دور میں امریکہ نے افغانستان کو ایک آزاد ملک کی حیثیت سے تسلیم کیا اور 1930 کی دہائی کے آخر تک اس اعتبار سے افغانستان کو بہت سے ملکوں سے امداد بھی ملنے لگی۔

عالمی سطح پر سیاست، تجارت اور اقتصادیات کی بنیاد پر دنیا کے بہت سے ملکوں سے تعلقات قائم ہو ئے۔ 1934 ء میں ظاہر شاہ نے پہلی جمہوریہ مشرقی ترکستان کی تشکیل پر اس ریاست کو بچانے کے لیے ا فغان جنگجو وںکے ساتھ وہاں کے کر غیز اور یوگر مسلمان باغیوں کو اسلحہ بھی فراہم کیا مگر افغانستان کی یہ امداد چینی مسلم فوج کی 36 ڈویژن کی قوت کے مقابلے میں ناکافی تھی۔

چینی فوج نے کاشغر اور یارکند کی لڑائیوں میں باغیوں کو شکست دے کر وہاں چین کا کنٹرول بحال کر دیا۔ علاقے میں اُس وقت سابق سوویت یو نین میں کیمونزم مضبوط ہو چکا تھا چین میں بھی مغربی مفادات کے مقابلے میں ماوزے تنگ کی اشتراکی اور آزادی کی تحریک طاقت پکڑ چکی تھی اس صورتحال میں سنٹرل ایشیا میں چینی سر حد کے ساتھ اس نئی آزاد جمہوریہ مشرقی ترکستان کو ظاہر شاہ نے بادشاہ بنتے ہی بچا نے کی کوشش کی۔

اِن کے بادشاہ بنتے ہی دنیا جنگِ عظیم اوّل کے بعد اقتصادی معاشی اور سیاسی بحرانوں سے گذر رہی تھی دوسری جنگ عظیم کے بادل چھا رہے تھے اُنہوں افغانستان کو ایک آزاد ملک کی حیثیت سے منوایا اور عالمی براردری میں افغانستان کی اہمیت بڑھ گئی ،خصوصاً اُس زمانے میں جب دنیا میں مسلم آبادی کے ملک ترکی اور سعودی عرب کے علاوہ افغانستان ہی تسلیم شدہ آزاد اسلامی ملک تھا۔

ظاہر شاہ اشتراکی سوویت یونین اور برٹش انڈیا کے درمیان افغانستان کی بفر اسٹیٹ حیثیت کو برقرار رکھے ہو ئے تھے مگر جب 1939 ء میں دوسری جنگ عظیم شروع ہو ئی تو آغاز میں سوویت یونین کے اسٹالن اور جرمنی کے ہٹلر میں اتحاد ہو گیا تھا اور دونوں نے مل کر پو لینڈ پر قبضے کے بعد اس ملک کو آپس میں تقسیم کرلیا۔ یہ صورتحال افغانستان کے لیے سیاسی اعتبار سے بہت ہی تشویشناک تھی سوویت یونین افغانستان کا ہمسایہ اور ایک طاقتور ملک تھااور دوسری جانب دنیا کے اتحادی ملک تھے۔

اب دوسری عالمی جنگ کے حالات میں افغانستان کے لیے غیر جانبدار رہنا مشکل ہو رہا تھا اور یہ بھی تشویش تھی کہ ذرا سی غلطی سے افغانستان سوویت یونین جرمنی دوسری جانب برٹش انڈیا اور اتحادیوں کے درمیان سیندوچ بن سکتا تھا لیکن اس موقع پر دوسری جنگ عظیم کی صورت حال تھوڑے ہی عرصے میں تبدیل ہوگئی کہ سوویت یونین ،جرمنی اور جاپان کے مقابلے میں برطانیہ کے زیر اثر قائم اتحاد میں شامل ہو گیا ۔

نپولین کی طرح ہٹلر نے بھی سوویت یونین پر حملے کی بھیانک غلطی کی اور اس کا نتیجہ بھی نپولین جیسا ہی نکلا مگریہ افغانستان کے حق میں بہتر رہا۔ سوویت یونین کے اتحادیوں میں شامل ہو نے سے کیمو نزم کے اعتبار سے دوسری جنگِ عظیم سے قبل جو سرد جنگ سوویت یونین اورسرمایہ دار ممالک کے درمیان تھی وہ بھی دوسری عالمی جنگ کے دوران خاموش ہوگئی اور یوں حالات افغانستان کے لیے متوازن اور کافی حد تک محفوظ ہو گئے۔

اس جنگ کے دوران واقعی افغانستان متوازن اور غیر جانبدار ملک رہا۔ جنگ عظیم کے زمانے میں افغانستان کے ہمسائے میںایران میں روس بر طانیہ کھچاؤ بھی رہا مگر افغانستان میں ظاہر شاہ اُس وقت سب کے لیے قابلِ قبول تھے ۔ ظاہر شاہ نے بڑی خوبی سے دوسری جنگ عظیم کا زمانہ گذرا اور 1945 ء میں جب اقوام متحدہ قائم ہو ئی تو افغانستان اس کے ابتدائی رکن ممالک میں شامل ہوا۔

1947 ء میں جب اس کے ہمسایہ میںپا کستان آزاد ہوا تو اگرچہ بعد میں افغانستان نے پاکستان کو تسلیم کر لیا مگر اس کے ڈیورنڈ لائن کے علاقوں پر دعویٰ کے اعتبار سے ظاہر شاہ کا موقف پاکستان کے موقف سے متضاد تھا۔ اب ظاہر شاہ نے ملک کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی کوششیں کیں کیونکہ افغانستان میں ہمیشہ سے قبائل کی کشمکش رہی اس لیے ظاہر شاہ یہاں تعلیم کو عام کر نا چاہتے تھے.

اس مقصد کے لیے اُنہوں ترقی یا فتہ ممالک سے مشیر لیئے اور پھر کابل میں یو نیورسٹی کے علاوہ تعلیمی ادارے قائم کئے اور جلد ہی کابل شہرکے کچھ مخصوص علاقے یورپ کے عکاس دکھائی دینے لگے مگر اندرون افغانستان اس جدید انداز کی مخالفت کی گئی۔

جب سرد جنگ اپنے عروج پر تھی، افغانستان اُن ملکوں میں شامل تھا جو امریکہ بر طانیہ سے بھی امداد حاصل کر تا تھا اور سوویت یونین سے بھی۔ 1960 کی دہائی میں جب پاکستان سیٹو سینٹو کے معاہدوں میں شامل ہو کر امریکی برطانوی مفادات کے لیے اِن کے بلاک میں شامل ہو گیا تھا تو پاکستان میں پشاور کے قریب بڈابیر کے امریکی فضائی اڈے سے اڑنے والے جاسوسی طیارے کو مار گرانے کے لیے افغان پائلٹ کو جاسوس بنا کر سوویت یونین نے پا کستان بھیجا تھا، پائلٹ نے امریکی ہوائی اڈے پر صفائی کر نے والے کی حیثیت سے ملازمت حاصل کی ، اور پھر ایک دن جا سوس طیارے یوٹوکے بلندی ظاہر کرنے والے میٹر میں ایسی خرابی پیدا کی جس کی وجہ سے طیارے کی بلندی ظاہر کرنے والا نظام بہت کم بلندی پر زیادہ بلندی ظاہر کرنے لگا اور اسی دھوکے میں طیارہ روسی میزائل کی زد میاں آ کر تباہ ہو گیا۔

اس کے باوجود ظاہرشاہ سے امریکہ کے تعلقا ت خراب نہیں ہو ئے اور ستمبر1963 ء میں ظاہر شاہ نے امریکہ کا دورہ کیا تھا۔ امریکی صدر جان ایف کینڈی نے اُن کا شاندار استقبال کیا تھا۔ 1969 ء میں ظاہر شاہ نے ایک انٹرویو میں کہا کہ وہCapitalist سرمایہ دارانہ نظام کے طرفدار نہیں، وہ سوشلزم بھی نہیں چاہتے کیونکہ اس سوشلزم کی وجہ سے وہ چیکو سلاوکیہ جیسی صورتحال نہیں چاہتے۔

پاکستان نے افغانستان جیسے لینڈلاک ملک کو کر اچی کی بندر گاہ سے بیرونی تجارت کی اجازت دے رکھی ہے لیکن ظاہر شاہ نے بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے بہت سے لیڈروں اور سیاسی کارکنوں کو افغانستان میں سیاسی پناہ بھی دی اور اس اعتبار سے اُن کے تعلقات بھارت سے بھی بہت بہتر رہے لیکن ظاہر شاہ نے بھارت اور پاکستان کے درمیان ، 1947-48 ء کی جنگ ، 1965 ء کی جنگ اور پھر۔1971 ء کی جنگ میں بھی پاکستان کے خلاف کسی کارروائی میں حصہ نہیں لیا بلکہ ان مواقع پر پاکستان کی حمایت کی۔

یوں دیکھا جائے تو 1772 ء میں جب افغانستان میں احمد شاہ ابدالی کا دور ختم ہو ا اُس زمانے سے1973 ء تک جب ظاہر شاہ کا دور ختم ہوا دو سو سالہ دور میں ظاہر شاہ کے اقتدار کا40 سالہ دور افغانستان میں امن و آتشی کا دور رہا اور افغانستان دنیا کے جدید تقاضوں کے مطابق ترقی کر نے اور آگے بڑھنے کی کوششیں کر تا رہا۔ اگر اس دوسو سالہ ماضی میں1973 کے بعد 50 سال بھی شامل کر لیں تو پھر افغانستان کی تاریخ ڈھائی سو سال میں آخری بادشاہ ظاہر شاہ کے دور کے 40 سال امن اور ترقی کے ہیں اور باقی210 سال جنگوں سرابرہان کے قتل بیرونی مداخلت اورخانہ جنگیوں کے سال ہیں۔

ظاہر شاہ کا قتدار اُس وقت جا تا رہا جب وہ بیرونی دورے پر تھے تو اُن کے قریبی رشتہ دار سابق وزیرا عظم سردار محمد داؤد نے اُن کی عدم مو جودگی میں تختہ الٹ دیا اور ملک میں صدارتی نظام نافذ کر کے خود صدر ہو گئے۔ اس نام نہاد انقلاب کے دوران شاہ ظاہر شاہ کے خاندان کے افراد کو قتل بھی کیا گیا یوں افغانستان کی خونریز سیاست 40 سال بعد دوبارہ افغانستان میں زندہ ہو گئی جب ظاہر شاہ کے باپ نادر شاہ کو 8 نومبر 1933ء میں قتل کیا گیا تھا وہ64 برس کی عمر میں صدر بنے ایک سخت گیر انسان تھے۔ صدر داؤد ظاہر شاہ کی طرح افغانستان کی بفر زون حیثیت کو مستحکم انداز میں دنیا کے سامنے رکھنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔

اُن کے دور میں پا کستان دو لخت ہوا جس کے بعد ایک مقبول منتخب حکومت کے ساتھ حقیقی معنوں میں اسلامی جمہوریہ بن گیا۔ 1973 میں جب وہ صدر بنے تو عرب اسرائیل جنگ ہو ئی جس میں اسرائیل کو جزوی طور پر شکست ہو ئی۔ 1974 پاکستان میں OIC کے تخت اسلامی سربراہ کانفرنس لاہور میں منعقد ہو ئی جس سے اُس وقت سرد جنگ کے دونوں بلاک یعنی امریکہ اور سوویت یونین پر یشان ہو گئے۔

تھوڑے عرصے بعد ہی صدر داؤد جو ابتدا میں پا کستان کے شدید مخالف تھے بھٹو سے مذاکرات پر آماد ہ ہو گئے اب دنیا میں تیل کے بحران کے بعد خطے کی سیاست میں تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو نے لگیں۔ جولائی 1977 ء میں پا کستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ختم ہو گئی اور جنرل ضیا الحق مارشل لا لے آئے۔

ایران میں آیت اللہ خمینی کی قیادت میں انقلابی جد وجہد تیز رفتار ہو گئی یہ صور تحال سوویت یونین کے لیے ناقابل قبول تھی۔ 28 اپریل 1978 ء کو افغانستان میں اشتراکی نظریا ت کی حامل سوویت یونین کی حامی فوجی بغاوت ہو ئی اور اس کے فوراً بعد نور محمد تراکئی صدر ہو گئے۔ وہ 30 اپریل 1978 ء سے 14 ستمبر1979 ء تک صدر رہے اور اسی روز قتل کر دیئے گئے۔14 ستمبر1979 ء کو حفیظ اللہ امین صدر ہو ئے اور 27 دسمبر1979 ء کو قتل کر دئیے گئے۔ پھر ببرل کارمل صدر ہوئے۔

حاجی محمد چمنی 30 ستمبر 1987 ء تک 310 دن صدر رہے۔ پھر محمد نجیب صدر ہو ئے اور 16 اپریل1992 ء تک 4 سال 199 صدر رہے ، بعد میں اُن کو قتل کر دیا گیا۔ اس دوارن مجاہدین پہلے سوویت یونین کی افواج سے جنگ کر تے رہے 1988 ء میں جینوا مذاکرات کے بعد روسی فوجیں اربوں ڈالر کا اسلحہ صدر نجب اللہ کی فوج کو دے کر رخصت ہو گیں تو اِن کے خلاف بھی مجاہدین کی جنگ جاری رہی۔ جب اِن مجاہدین کو اقتدار ملا تو اِ ن کے مختلف گروپ آپس میں دست وگریبان ہو گئے۔

عبدالرحیم حاطف، سبغت اللہ مجددی چند دنوں کے لیئے صدر رہے اور اِن کے بعد برہان الدین ربانی 28 جون 1992 ء سے 22 دسمبر2001 ء تک 9 سال 177 دن صد ر رہے طالبان کے پہلے دور میں 11 ستمبر 2001 ء کے واقعہ کے بعد اِن کی حکومت ختم ہو ئی اورپھر صدر حامد کر زئی کا دور 22 دسمبر2001 ء شروع ہوا 29 ستمبر2014 ء سے 15 اگست2021 ء تک اشرف غنی صدر رہے۔ ملا ہیبت اللہ اخوند زادہ15 اگست 2021 ء سے افغانستان کے سربراہ صدر ہیں۔

صدر حامد کر زئی کے دور میں ایک بار یہ کوشش بھی کی گئی کہ کسی طرح سابق بادشاہ ظاہر شاہ کو روم سے لاکر یہاں افغانستان میں حالات کو ساز گار بنانے کے لیے اِن کی مدد لی جا ئے وہ اس کے لیے آماد ہ بھی ہو گئے مگر پھر بات نہیں بنی۔ 23 جولائی2007 ء کو ظاہر شاہ کا 92 سال کی عمر میں انتقال ہو گیا ،صدر داؤد کے قتل کے عرصے تک یہ معلوم نہیں تھا کہ اُن کی لاش کہاں ہے۔

صدر کر زئی کے دورِ صدرات میں پل چرخی جیل کے باہر دو قبریں دریافت ہو ئیں جن میں اجتماعی طور پر ایک قبر سے16 اور دوسری قبر سے12 لاشیں ملیں اور پھر سردار صدر داؤدکی لاش کو اُس سنہری جلد کے پاکٹ سائز قرآن پا ک سے پہچان لیا گیا جو اُن کو سعودی عرب کے باشاہ نے تحفے میں دیا تھا۔ اس کے بعد 17 مار چ 2009 ء کو اُن کو دوبارہ پور ے سرکاری اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا ۔آج افغانستان کے آخری بادشاہ ظاہر شاہ کے اقتدار کے خاتمے کو پورے50 سال یعنی نصف صدی ہو چکی مگر افغانستان میں امن وامان قائم نہیں ہو سکا۔

اگر اُن کو اقتدار سے ہٹا یا نہ جاتا تو وہ ملکہ الزبتھ دوئم کے دورِا قتدار 1952 ء سے2022 ء تک 70 سال رہا اگر ظاہر شاہ جو1933 ء میں افغانستان کے بادشاہ بنے اور اگر 40 سال بعد 1973 ء میں سردار داؤد اُن کو اقتدار سے بے دخل نہ کر تے تو وہ اپنی وفات2007 تک بادشاہ رہتے اور ملکہ الزبتھ سے بھی چار سال زیادہ یعنی74 سال اُ ن کی بادشاہت رہتی اور آج نہ صرف افغانستان میںامن اور ترقی ہو تی بلکہ پاکستان سمیت ریجن کے دیگر ملکوں میں بھی امن رہتا۔اور حالات اتنے خراب نہ یوتے جتنے خراب آج ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔