کوئٹہ میں مئی 1935 کے زلزلے کا سبق فراموش کردیا گیا؟

محمد عاطف شیخ  اتوار 28 مئ 2023
زلزلے کے بعد جو شہر 50 ہزار آبادی کے لئے ڈیزائن کیا گیا تھا آج 9 لاکھ سے زائد افراد کا بوجھ اٹھارہا ہے، معلوماتی تجزیاتی رپورٹ ۔ فوٹو : فائل

زلزلے کے بعد جو شہر 50 ہزار آبادی کے لئے ڈیزائن کیا گیا تھا آج 9 لاکھ سے زائد افراد کا بوجھ اٹھارہا ہے، معلوماتی تجزیاتی رپورٹ ۔ فوٹو : فائل

قدرتی آفات چاہے ارضی ہو ں یا سماوی ہمیشہ سے بنی نو آدم کی آزمائش کا باعث بنیں ہیں اورانسان چاند پر کمند ڈال لینے کے باوجود آج بھی ان امتحانات کے آگے بے بس ہوجاتا ہے جن میں کچھ تو قدرتی نظام میں اِس کی اپنی بڑھتی دخل درازیوں کے نتیجے میں واقع ہوتی ہیں تو کچھ مکمل طور پرمظاہر قدرت ہیں۔

کچھ کے رونما ہونے کی وہ پیشن گوئی کرسکتا ہے تو کچھ کے ظہور پذیر ہونے کے حوالے سے وہ بالکل بے خبر رہتا ہے اور اپنی اس بے خبری کے باعث وسیع پیمانے پر جانی ومالی نقصان کا شکار ہوتا ہے۔ ان خاموش آفات میں سر فہرست زلزلہ ہے جو آتا تو دبے پاؤں ہے لیکن اپنے پیچھے آہیں، سسکیاں اور ماتم چھوڑ جاتا ہے ۔

ہر کوئی یہی کہتا ہے کہ آخر یہ زلزلے کیوں آتے ہیں۔ بحیثیت مسلمان ہم اسے شامت اعمال کانتیجہ کہتے ہیں تو دنیا کے اکثر مذاہب میں زلزلہ آنے کی مختلف روایات بیان کی گئی ہیں۔ سائنس کہتی ہے کہ زمین اندر سے گرم ہوتی ہے اس کے اندر کہیں کہیں پتھر یلی پگھلتی مٹی جسے عام زبان میں ہم لاواکہتے ہیں پائی جاتی ہے۔ جب اس لاوا کوکمزور جگہ ملتی ہے تو وہ باہر کی جانب زور سے خارج ہونے لگتا ہے۔

اس عمل سے نزدیک علاقوں میں زمین ہلنے لگتی ہے ۔یہ زلزلہ جسے ہم آتش فشاں سے منسوب کرتے ہیں زیادہ تر لاوا اگلنے والے پہاڑی علاقوں میں آتے ہیں۔

اس کے علاوہ زمین کی سطح کے نیچے چٹانوں(پلیٹوں) کے تیزی سے کھسکنے اور ایک دوسرے سے ٹکرانے کی وجہ سے بھی زلزلے آتے ہیں ۔کچھ اوروجہ تسیمہ بھی سائنس کے نزدیک زلزلوں کے باعث ہیں مثلاً زمین کی اوپر کی سطح مٹی کی ایک تہہ ہے جس کے نیچے دور تک بڑی چھوٹی چٹانیں ہیں اگر زمین میں کوئی ایسی جگہ ہو جہاں سے زمین کے اوپر موجود پانی رس کر زمین کی گرم تہہ تک پہنچ جائے تو وہ وہاں سے بھاپ کی صورت میں زمین کی سطح کو توڑ کر باہر نکلنے کی کوشش کرتا ہے۔

نتیجتاً زمین ٹوٹتی ہے اس کشمکش کے نتیجے میں تھرتھراہٹ شروع ہوجاتی ہے۔ جبکہ زلزلے کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ اگر زمین کے اندر کا گرم حصہ ٹھنڈا ہوکر سکڑ جا ئے تو پتھریلی تہہ زیادہ دباؤ میں آکر پھٹ جاتی ہے جس سے زمین پر لرزہ طاری ہوجاتا ہے اور زلزلہ محسوس ہوتا ہے۔

امریکن جیالوجیکل سروے کے مطابق دنیا میں سالانہ 5 لاکھ ایسے زلزلے آتے ہیں جن کی پیمائش کی جاسکتی ہے۔ ان میں سے ایک لاکھ محسوس کیے جاتے ہیں جبکہ ایک سو نقصان کا باعث بنتے ہیں۔ماہرین کے مطابق زیادہ تر زلزلے زمین کی سطح سے 80 کلومیٹر (50 میل) سے کم گہرائی میں آتے ہیں۔ان زلزلوں کا مرکز اگر سطح زمین سے 70کلومیٹر تک نیچے ہوتواس طرح کے زلزلوں کو Shallow earthquakes کہتے ہیں۔

70 سے300 کلومیٹر گہرائی کے زلزلے کو intermediate earthquakes اور 300 سے700 کلومیٹر گہرائی والے زلزلوں کو deep earthquakes کہتے ہیں۔ ماہر ارضیات کا کہنا ہے کہ جو زلزلہ جتنی کم گہرائی کا حامل ہوگا وہ اتنا ہی زیادہ نقصان کا باعث ہوگا۔ اور ایسی ہی قسم کے زلزلے کی وجہ سے8اکتوبر2005 کو ملک کے شمالی علاقہ جات ،آزاد کشمیر اور خیبر پختونخواہ کے کئی علاقے اور 31مئی 1935ء کوکوئٹہ اور بلوچستان کے دیگر علاقے تباہی کی زد میں آئے۔

ماہرین ارضیات کے مطابق آج سے تقریباً200ملین سال قبل انڈوپاک کی پلیٹGANDWANALAND سے ٹوٹ کرEURASIA پلیٹ سے ٹکرائی، اس کے نتیجے میں ہمالیہ‘ ہندوکش ‘ قراقرام اورسلیمان کے پہاڑی سلسلے وجود میں آئے جو اس پلیٹ کی باؤنڈری متعین کرتے ہیں اور ٹکراؤ کا یہ عمل آج بھی جاری ہے جس کی رفتار4سینٹی میٹر سالانہ ہے ۔ ماہرین ارضیات نے زلزلے کے خطرے کی شدت کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کو پانچ سیسمک زونز (زونز 1، 2A، 2B، 3 اور 4) میں تقسیم کیا ہے۔

زون 1 سب سے کم اور زون 4 سب سے زیادہ زلزلہ زدہ زون ہے۔ سیسمک زوننگ کے نقشے سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان کے شمالی حصے کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے شمال مغربی حصے زیادہ زلزلہ والے علاقوں میں واقع ہیںجب کہ پنجاب اور سندھ کا زیادہ ترحصہ کم زلزلہ والے علاقوں میں واقع ہے۔ وفاقی وزارت برائے ہاؤسنگ اینڈ ورکس کی رپورٹ ’’ بلڈنگ کوڈآف پاکستان۔۔سیسمک پروویژنز 2007 ‘‘ کے مطابق پاکستان کے445 تحصیلیں جن کی زوننگ کی کیٹگری کی نشاندہی رپورٹ میں موجود ہے سیسمک زونز1 سے4 تک میں واقع ہیں۔

اِن 445 تحصیلوں میں سے 133 تحصیلیں سیسمک زون تین اور چار میں آتی ہیں یعنی ملک کے زلزلہ سے متاثر ہوسکنے کے امکان کی حامل تحصیلوں کا 30 فیصد ایسے علاقوں میں واقع ہے جہاں زیادہ زلزلہ آنے کا امکان ہے۔سیسمک زون تین اور چار میں آنے والی تحصیلوں کی آدھی تعداد (51%)کا تعلق بلوچستان سے ہے۔جہاں 68 تحصیلیں ایسے علاقوں پر مبنی ہیں جہاں زلزلہ زیادہ بار آنے کا امکان موجودہے۔

سیسمک زون چار میں ملک کی 13 تحصیلیں شامل ہیں جن میں سے 8 کا تعلق بلوچستان سے ہے یعنی 61.5 فیصد۔اِن میں پشین، حرمزئی، کاریزات، بوستان،نوشکی،مسلم باغ،زیارت اور سنجاوی شامل ہیں۔ جبکہ کوئٹہ سیسمک زون تھری میں واقع ہے۔

خیبر پختونخواہ میں دو تحصیلیںسیسمک زون چار میںواقع ہیں چترال اور بالا کوٹ جبکہ باقی تین تحصیلیں آزاد جموں و کشمیر میں موجود ہیں باغ، مظفر آباد اور ہاجرہ۔اس کے علاوہ ملک کے 145 تحصیلیں سیسمک زون2B میں موجود ہیں۔

ملک کے اس قدر وسیع علاقو ں کا زلزلہ زونز میں واقع ہونا اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ وطن عزیز میں زلزلوں کے جھٹکے اکثر آتے رہتے ہیں۔

جن سے کبھی کبھار کافی جانی ومالی نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے جس کا کچھ اندازہ بلیجیئم حکومت اور عالمی ادارہ صحت کے اشتراک سے قائمCENTER FOR RESEARCH ON THE EPIDEMIOlOGY OF DISASTERSکے ایمرجنسی ایونٹس ڈیٹا بیس سے لگایا جاسکتا ہے۔

سینٹر کے مطابق1972ء سے مارچ 2023ء تک پاکستان میں مجموعی طور پر 79ہزار 9سو36افراد زلزلوں کا باعث ہلاک ،ایک لاکھ 50 ہزار8سو55 زخمی اور 51لاکھ 87ہزار4سو85بے گھر ہوئے دیگر متاثرین کی تعداد 21 لاکھ 37 ہزار 1سو 36 ہے جبکہ ان زلزلوں سے ملک کو5 ارب 34 کروڑ87لاکھ 55ہزار ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔10یااس سے زائد افرادکی ہلاکت،100یااس سے زائد افراد کے متاثر ہونے، بیرونی امداد کی اپیل یا پھراسٹیٹ ایمرجنسی ڈیکلیئر کرنے جیسے کسی ایک یا زائد پہلوؤں کے رونما ہو نے کی صورت کو مد نظر رکھ کرتیار کردہ یہ اعداد وشمار جہاں زلزلوں کے باعث ہونے والے نقصانات کی ایک جھلک پیش کر رہے ہیں۔

وہیں ہماری اُن کوتاہیوں کی بھی نشاندہی کر رہے ہیں جو ہم اپنی عمارتوں کی تعمیر میںبرتتے ہیں کیونکہ یہ وہ عمارتیں ہی ہیں جو زلزلے کی صورت میں نقصان کا پیش خیمہ بنتی ہیں ۔ کیونکہ یہ کہا جاتا ہے کہ زلزلے لوگوں کو نہیں مارتے، عمارتیں مارتی ہیں۔

اس کی ہم کئی ایک واضح مثالیں 2005 زلزلے میں مارگلہ ٹاور اور دیگر بہت سی عمارتوں کے منہدم ہونے کی صورت میں دیکھ چکے ہیں اور ماضی میں ایسی ہی تلخ مثالیں ہمیں31مئی1935ء کوکوئٹہ اور بلوچستان کے دیگر علاقوں میں آنے والے زلزلے( جو زیادہ شدت کے ساتھ68میل لمبی اور16میل چوڑی پٹی میں آیا تھا) کے نتیجے میں ہونے والی تباہی سے ملتی ہے۔

پاکستان کی تاریخ میں قدرتی آفات سے ہونے والی ہلاکتوں کے پہلے دو بڑے سانحات کا تعلق بھی زلزلوں سے ہی ہے جو 8اکتوبر2005ء اور31مئی 1935ء کو آئے۔ جس میں بالترتیب 73ہزاردو سو13اور60ہزار افراد ہلاک ہوئے ۔31مئی 1935ء کو کوئٹہ شہر( ماسوائے چھاؤنی) مکمل طور پر 7.6 شدت کے آنے والے زلزلہ سے تباہ ہوگیا اور شہر کے ملبے کو صاف کرنے میں دو سال کا عرصہ لگاجو آغاز میں حکومت کی جانب سے اور مارچ1936 سے نجی افراد نے انجام دیا جن کو حکومت نے ملبہ اٹھانے کے اخراجات کا 80 فیصد ادا کیا۔

گلوبل شیلٹر کلسٹر کی INDIA 1935 / EARTHQUAKE نامی کیس اسٹڈیز کے مطابق ’’ تعمیر نو کے عمل کی نگرانی مرکزی حکومت کی کوئٹہ تعمیر نو کمیٹی کے پاس تھی جس میں فوجی اور سول حکام شامل تھے۔ بلوچستان میں مقامی حکومتی عہدیداروں نے مقامی فوجی اور صحت کے حکام کے ساتھ مشاورت سے نئے شہر کی ترتیب کے لیے حقیقی منصوبے بنائے اور پھر انہیں مرکزی حکومت کو پیش کیا۔

اس منصوبے میں وسیع گلیوں اور پانی کی فراہمی اور نکاسی کے بہتر نظام شامل تھے۔ نیا منصوبہ اچھی شہری منصوبہ بندی کے بارے میں عصری خیالات کے مطابق بنانے کے ساتھ ساتھ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا کہ چوڑی گلیوں نے ایک اور زلزلے کی صورت میں فرار اور رسائی کے راستے فراہم کیے ہوں۔ یکم فروری 1937 کو کوئٹہ کے آخری وارڈز کو دوبارہ قبضے کے لیے کھول دیا گیا اور ایک نیا مستقل بلڈنگ کوڈ نافذ ہوا۔ یہ پہلا موقع تھا جب کسی میونسپلٹی میں لازمی بلڈنگ کوڈ نافذ کیا گیا تھا۔

کوئٹہ میں املاک کے مالکان نے بلڈنگ کوڈ کے تقاضوں کے خلاف احتجاج کیاجس کی ممکنہ وجہ تعمیر پر لاگت کازیادہ ہونا ہوسکتا ہے۔ مقامی حکومت نے بہرحال بلڈنگ کوڈ پر عمل کرنے پر اصرار کیا‘‘۔ ڈسٹرکٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی بلوچستان کی رپورٹ ڈیزاسٹر رسک مینجمنٹ پلان ڈسٹرکٹ کوئٹہ، بلوچستان کے مطابق ’’برطانوی انجینئر مسٹر ہنری اوڈن ٹیلر (جو پہلے سکھر بیراج کے ڈیزائن اور تعمیر میں مدد کر چکے تھے) کو شہر کی تعمیر نو کا کام سونپا گیا۔

اوڈن ٹیلر نے اینٹوں کے کام کے ذریعے عمودی دھاتی سلاخوں کا استعمال کرتے ہوئے عمارت کی تعمیر کے نئے معیارات متعارف کرائے۔ یہ تکنیک کافی کامیاب رہی۔ 1941 میں شہر میں ایک بڑا زلزلہ آیا لیکن اس طرح تعمیر ہونے والی عمارتیں کھڑی رہیں‘‘۔

زلزلے کے خطرے کے پیش نظر کوئٹہ کیلئے سات اقسام کے مکانات اور عمارتیں تعمیر کرنے کی اجازت دی گئی اوران ساتوں کیلئے نمونے کے طور پر کچھ مکانات اور عمارتیں تعمیر کی گئیں۔ یہ سات اقسام کے مکانات اور عمارتیں زلزلہ کی زیادہ شدت کو براشت کرسکتی تھیں۔ انگریزوں نے سب سے پہلے کوئٹہ کے جنوب مشرق میںٹین کے کئی مکانات بنائے جس کی وجہ سے اس علاقے کو ٹین ٹاؤن کہا گیا جو آج بھی موجود ہے۔

یہ مکانات لکڑی اور لوہے کے اینگل آئرن سے سٹرکچر بناکر انکی دیواریں اورچھت ٹین کی بنائی گئیں تھیں اور اندر کی طرف موٹا گتہ یعنی ہارڈ بورڈ لگایا گیا تھا۔ یہ سیون ٹائپ یعنی سات اقسام میں سے مکانات کی تعمیر کی پہلی قسم تھی۔ اسی طرح کے کچھ مکانات ریلوے کے ملازمین کیلئے بھی بنائے گئے جو آج بھی موجودہ ہیں ۔ریلوے لائن کے درمیان جو پندرہ سولہ فٹ لمبے تقریباً ایک فٹ چوڑے اور آٹھ سے دس انچ موٹے لکڑی کے سیلپر لگائے جاتے ہیں ان کو دوانچ چوڑی اورایک انچ موٹی لوہے کی پٹیوں سے جوڑ کر لکڑی کے دو کمروں صحن اسٹور باتھ روم پرمشتمل مکانات تعمیر کئے گئے۔ یہ مکانات آج بھی موجود ہیں۔

کوئٹہ کی سول آبادی کے لئے زیادہ تر سیون ٹائپ کے مکانات بنائے گئے بلکہ شہر میں 90فیصد مکانات سیون ٹائپ کے بنائے گئے تھے۔ ان مکانات کی تعمیر یوں تھی کہ سطح زمین سے ایک سے دو فٹ نیچے بنیاد بنائی گئی جو کہ دو سے اڑھائی فٹ گہری اور ایک سے ڈیڑھ فٹ چوڑی تھی اس بنیاد کی تعمیر میں چونے کے پتھر کے چھوٹے ٹکڑے سیمنٹ کی مدد سے یکجا کئے گئے۔

بنیاد میں 4سے 5فٹ کے فاصلے میں لکڑی کے شہتیر لمبائی کے رخ میں زمین سے آسمان کی جانب کھڑے کردیئے گئے۔ بنیاد کے اوپر ریت بجری اورسیمنٹ کی ایک ہلکی تہہ کے بعد اس کے اوپر 9انچ موٹی( یعنی تین اینٹ) دیوار لکڑی کے کھڑے شہتیروں کے درمیان چن دی جاتی ۔شہتیروں کو دیواروں میں مضبوطی کے ساتھ کھڑا رکھنے کیلئے لکڑی کے شہتیر کے ساتھ لوہے کی موٹی پٹیوں کاایک سرا ٹھونک کر دوسرے سرے کودیوار میں اینٹوں کے درمیان چن دیا جاتا ۔یہ دیواریں بنیاد کے اوپر چار سے پانچ فٹ تک اونچی ہوتی تھیں ۔

اس کے بعد دیواروں پر ریت بجری اورسیمنٹ کے آمیزے کی ایک تہہ بچھادی جاتی ۔ بنیاد سے آئے ہوئے کھڑے شہتیروں کا وہ حصہ جو دیوار سے اوپر کی جانب ہوتا تھا اس ڈھانچے یا کھانچے پر باہر کی جانب ٹین کی چادریں کیلوں سے ٹھونک دی جاتی ہے اوراندر کی طرف لکڑی کی آدھی انچ موٹی اور چھ انچ چوڑی پٹیاں کیلوں سے ٹھونک دی جاتیں اور پھر اندر کی طرف سے ان پرمٹی کے گارے کا پلستر کردیا جاتا اور بعض مکانات میں باہر کی جانب ٹین کی چادروں کی بجائے لوہے کی درمیانے سوراخ کی جالیاں ٹھونک کر اسے سیمنٹ ملی درمیانے درجے کی موٹی بجری سے بھر دیا جاتا ہے جو خشک ہونے کے بعد پختہ ہوجاتی ہے۔

یہ بھی زلزلہ پروف ہوتی ہیں اس طرز کی تعمیر دراصل’’ کوئٹہ بانڈ ‘‘کے نام سے مشہور ہے۔ ان مکانات کی بلندی بارہ فٹ سے زیادہ نہیں ہوتی اور سب کی چھتیں ٹین کی موٹی چادروں کی ہوتی ہیں۔ جو لکڑی کے شہتیروں پرنٹ بولٹ کی مدد سے کَسی ہوئی تھیں ۔

شہر میں زلزلہ کے خطرات کے پیش نظریہ تعمیراتی اصول ساٹھ اورستر کی دہائی تک اپنائے جاتے رہے لیکن بعد میں ان اصولوں کو آہستہ آہستہ فراموش کردیا گیا ۔جس کی بنیادی وجہ اربنائزیشن کا وہ عمل ہے جس نے کوئٹہ شہر کی صورت کو تبدیل کرکے رکھ دیا۔ اور آج کوئٹہ پاکستان کے گنجان آباد شہروں میں شمار کیاجاتا ہے۔

جس کی میٹرو پولیٹن حدود کے اندر آبادی میں 1998ء سے2017ء کے دوران3.30فیصد سالانہ اضافہ ہوچکا ہے۔ اور2017ء کی مردم شماری کے مطابق کوئٹہ میٹرو پولیٹن کی حدود کے اندر آبادی9 لاکھ7ہزار سے زائد ہے۔ وہ شہر جو زلزلے کے بعدتقریباً50ہزار افراد کی آبادی کیلئے ڈیزائن کیا گیا تھا آج9لاکھ سے زائد افراد کا بوجھ برداشت کررہا ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کی رہائش اور دیگر ضروریات کو پورا کرنے کیلئے کوئٹہ میںکثیر منزلہ عمارتوں کی تعمیر کا سلسلہ جاری ہے جو کہ پہلے کبھی ایکا دوکا ہوا کرتی تھیں اب جا بجا نظر آتی ہیں۔ موجودہ تعمیرات میں اگرچہ معیار کاکسی حد تک خیال رکھا جاتا ہے لیکن پھر بھی تعمیرات کا عمل ماضی میں آنے والے زلزلوں کے حوالے سے احتیاط کا متقاضی ہے۔

کیونکہ کوئٹہ کے علاقے میں زلزلوں کا تاریخی ریکارڈ واضح طور پر ظاہر کرتا ہے کہ یہ علاقہ انتہائی فعال زلزلہ زدہ زون میںہے اور اس وجہ سے درمیانے درجے سے لے کر بڑا زلزلہ کسی بھی وقت بغیر کسی وارننگ کے دوبارہ آ سکتا ہے۔

1997ء میں ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق کوئٹہ شہر میں 30فٹ سے اونچی عمارت تعمیرکر نے پر پابندی تھی۔اب حکومت بلوچستان کے بلوچستان بلڈنگ کنٹرول اینڈ ٹاؤن پلاننگ رولز 2021 کے مطابق’’ کوئٹہ میں رہائشی عمارتوں کی زیادہ سے زیادہ اونچائی 50 فٹ تک اور کمرشل عمارتوںکی60 فٹ سے زیادہ نہیں ہونی چاہیئے‘‘۔ لیکن شہر میں آج بھی چند تعمیرات ان رولز کی خلاف ورزی کرتی نظر آتی ہیں۔

اس تمام صورتحال کے ساتھ ساتھ ایک تشویشناک بات یہ بھی ہے کہ شہر کی آبادی کا ایک بڑا حصہ کچی آبادیوں/ پسماندہ علاقے(slums / underserved) پر مشتمل ہے۔ جوکسی زلزلے کی صورت میں وسیع پیمانے پر جانی ومالی نقصان کا شکارہو سکتی ہیں۔ کیونکہ ان کچی آبادیوں کی تعمیرات میں کسی قسم کے تعمیراتی کوڈ کو کوئی خیال نہیں رکھا جاتا ہے۔وجہ غربت کا وہ شکنجہ ہے جس میں لوگوں کی اکثریت جکڑی ہوئی ہے اورزلزلہ زون میں واقع ہونے کے باعث یہ آبادیاں شدید خطرے سے دوچار ہوسکتی ہیں۔

یونیسیف کی ٹیکنیکل سپورٹ کے ساتھ صوبائی اور وفاقی ای پی آئی پروگرامز کی لیڈرشپ کے تحت ’’رپورٹ آف پروفائلز آف سلمز/ انڈرسرووڈ ایریاز آف کوئٹہ سٹی آف بلوچستان‘‘ نامی رپورٹ جو کہ جولائی2020 میں جاری کی گئی۔

اس کے مطابق ’’کوئٹہ کی 50 یونین کونسلز میں سے 22 یونین کونسلز میں کچی آبادیاں/ پسماندہ علاقے(slums / underserved) ہیں۔جن کی مجموعی تعداد 315 ہے۔281 کچی آبادیاں اور 34 پسماندہ علاقے اس میں شامل ہیں۔

57 فیصد کچی آبادیاں غیر رجسٹرڈ ہیں اور کسی سرکاری ریکارڈ میں موجود نہیں ۔ رپورٹ کے مطابق کوئٹہ کی 7 لاکھ 12 ہزار سے زائد آبادی ان315 کچی آبادیوں/ پسماندہ علاقوں میں رہتی ہے‘‘۔ اگر ہم کوئٹہ کی میٹرو پولیٹن کی حدود کے اندر کی کل آبادی، 2017 کی مردم شماری والی لیں تو پھرشہر کی تقریباً 78 فیصد آبادی ان پسماندہ علاقوں میں سکونت پذیر ہے۔

ماہر ارضیات اس بات پر خاص زور دیتے ہیں کہ کسی بھی قسم کی تعمیر سے پہلے اگر زمین کی ساخت کا مکمل جائزہ کر لیا جائے تو ناگہانی آفت کی صورت میں نقصان کی شدت کو کم کیاجاسکتا ہے جبکہ ماہر تعمیرات اس بات پر زور دیتے ہیں کہ تعمیرات میں معیار کے پہلو پر کبھی بھی سمجھوتہ نا کیا جائے اور عمارتوںمیں ایمرجنسی کے وقت نکلنے کیلئے ضرور کوئی راستہ رکھا جانا چاہیے اور ٹاؤن پلاننگ ایسی ہونی چاہیے جو کسی ہنگامی صورتحال کے وقت لوگوں کو زیادہ سے زیادہ معاونت فراہم کرے۔

لہذا انسانی عقل یہ کہتی ہے کہ تعمیرات ایسی ہوں جو زلزلوں کو بڑی اچھی طرح برداشت کرنے کے ساتھ بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیتوں اور زلزلہ جیسی ہنگامی صورتحال میں لوگوں کے محفوظ اخراج کے موثر نظام کی حامل ہوں۔

31 مئی1935 ء کو کوئٹہ میں پیش آنے والے سانحہ کو ہم زندگی بھر نہیں بھولیں گے اور ہماری خواہش اور دعا ہے کہ اس طرح کی آفت دوبارہ کبھی نہ آئے۔ تاہم ہمیں مستقبل میں زلزلہ سے ہونے والے نقصانات کو کم کرنے کے لیے شہر اور اس کے گردونواح میں بلڈنگ کوڈز کو سختی سے نافذ کرنا ہوگا۔ قدرتی آفات کے لیے تیاری خطرے میں کمی کا سب سے اہم عنصر ہے۔ کیونکہ نہ تو ہم زلزلے کی پیش گوئی کر سکتے ہیں اور نہ ہی اسے ہونے سے روک سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔