کراچی، تجاوزات کے خلاف گرینڈ آپریشن

عبداللطیف ابو شامل  جمعـء 2 مئ 2014
ماضی کی طرح یہ کارروائی بھی نمائشی ثابت ہوگی؟  فوٹو : فائل

ماضی کی طرح یہ کارروائی بھی نمائشی ثابت ہوگی؟ فوٹو : فائل

شہرِ قائد میں تجاوزات کا مسئلہ نیا نہیں اور کئی مرتبہ بلدیہ عظمٰی اور متعلقہ اداروں کی جانب سے قبضہ مافیا کے خلاف آپریشن اور تجاوزات کے خاتمے کی کوشش کی جاچکی ہے، لیکن آج بھی شہر کی خوب صورتی برباد کرنے اور شہریوں کو مسائل اور مشکلات سے دوچار کرنے کا سلسلہ تجاوزات کی صورت میں جاری ہے۔

پچھلے دنوں صوبائی وزیر بلدیات شرجیل انعام میمن کی ہدایت پر بلدیہ عظمیٰ نے شہر بھر میں تجاوزات کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا۔ اس ضمن میں مختلف علاقوں میں غیرقانونی تعمیرات کو مسمار کیا گیا ہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے، لیکن یہ آپریشن بھی ماضی کی طرح ناکامی سے دوچار ہوتا نظر آرہا ہے، کیوں کہ متعلقہ اداروں اور ضلعی انتظامیہ کے ساتھ قبضہ مافیا کا گٹھ جوڑ ہے، جو ملی بھگت سے دوبارہ عوامی مقامات، سرکاری زمینوں اور نجی املاک پر قابض ہو رہے ہیں۔ اس مصیبت سے مکمل نجات نہ پانے کی وجہ متعلقہ اداروں اور محکموں کی اپنے فرائض سے روگردانی اور ذاتی مفادات کی خاطر غیرقانونی کام کرنے والوں کی پشت پناہی کرنا ہے۔

شہر کی سڑکوں، گلیوں اور بازاروں میں ہر طرف تجاوزات کی بھرمار ہے اور فٹ پاتھوں کو بھی کاروباری مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ ایک طرف تجاوزات کی وجہ سے شہریوں کو دشواری کا سامنا ہے اور دوسری جانب حکومت ٹیکس اور دیگر ادائیگیوں سے محروم ہو رہی ہے۔ مقامی انتظامیہ کی چشم پوشی کی وجہ سے یہ تجاوزات تھوڑے عرصے کے بعد پختہ اور مستقل کردی جاتی ہیں۔ بعض صورتوں میں قابضین کے خلاف کارروائی کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔

کبھی ان کی غربت اور بے روز گاری کو جواز بنا کر ہنگامہ برپا کر دیا جاتا ہے تو کبھی تجاوزات کے ذمہ دار نہایت چالاکی سے خود کو مظلوم ثابت کر کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا شور مچا دیتے ہیں۔ مصلحتیں اور مجبوریاں اس قانون شکنی کو جلا بخشتی ہیں، جس سے دوسروں کو بھی حوصلہ ملتا ہے۔ متعلقہ اداروں کا کہنا ہے کہ اب تک اربوں روپے کی سرکاری زمین قبضہ مافیا کی بھینٹ چڑھ چکی ہے اور اس کے خلاف کارروائی کے راستے میں کئی مجبوریاں اور رکاوٹیں موجود ہیں۔

شہر قائد میں ان دنوں ایڈمنسٹریٹر رؤف اختر فاروقی کی ہدایت پر تجاوزات کے خلاف آپریشن جاری ہے۔ اس سلسلے سینئر ڈائریکٹر لینڈ و ٹاسک فورس اور اینٹی انکروچمنٹ سیل کے دیگر افسران کی نگرانی میں صدر، زینب مارکیٹ، سائٹ ایریا، ملیر، لانڈھی، قائد آباد، چکرا گوٹھ، گلستان جوہر، لیاقت آباد، نارتھ ناظم آباد، کلفٹن اور دیگر علاقوں میں مختلف سرکاری اور نجی زمینوں پر اینٹی انکروچمنٹ سیل کے ذمہ داران کی موجودگی میں جھگیوں، ہوٹلوں اور فٹ پاتھوں پر پتھاروں اور قریبی دکانوں کا نمائش کے لیے رکھا گیا سامان ہٹایا گیا۔

اس موقع پر بعض علاقوں میں قابضین کی جانب سے سخت ردعمل ظاہر کیا گیا۔ لوگوں نے حکومت اور انتظامیہ کے خلاف نعرے لگائے اور متعلقہ عملے پر پتھراؤ بھی کیا گیا۔ اس آپریشن کے دوران متعلقہ عملے پر فائرنگ کا واقعہ بھی پیش آیا۔ اس بارے میں ٹاسک فورس کے افسر بلال منظر کا کہنا ہے کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے تحت شہر میں تجاوزات کے خلاف آپریشن کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں۔ ذمہ دار اور باشعور شہری ہم سے مکمل تعاون کررہے ہیں۔ شہر سے تجاوزات کے مکمل خاتمے تک اس آپریشن کو جاری رکھا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اب تک جن علاقوں میں آپریشن مکمل کر لیا گیا ہے، وہاں کڑی نگرانی کی جا رہی ہے تاکہ دوبارہ تجاوزات قائم نہ کی جاسکیں، لیکن بعض مقامات پر ایک مرتبہ پھر یہ سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے، اس کے خلاف پھر کارروائی کریں گے۔ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے انسداد تجاوزات کی ٹاسک فورس نے شہر کے مختلف مقامات سے پتھارے، پان کے کیبن، ٹھیلے، جھگیوں، ہوٹلوں، پختہ و نیم پختہ دکانوں اور غیرقانونی طور پر قائم بس اڈوں کو بھی ختم کیا ہے۔ آپریشن کے دوران مختلف علاقوں میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے جارہے ہیں، لیکن انتظامیہ کو کئی جگہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

پچھلے دنوں کورنگی، چکرا گوٹھ کے رہائشیوں نے اپنے گھروں کو مسمار کیے جانے کے خلاف کراچی پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ تجاوزات کے خاتمے کے نام پر ان کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے اور انہیں بے گھری کا عذاب سہنا پڑ رہا ہے۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ گذشتہ دنوں چکرا گوٹھ میں تجاوزات کے خلاف آپریشن کیا گیا، جس میں ایک زمین پر تعمیرات کو ناجائز قرار دے کر مسمار کر دیا۔ وہاں بسے ہوئے لوگوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے لاکھوں روپے دے کر پلاٹ حاصل کیے تھے، اس منصوبے کو کے ڈی اے حکام نے کلیئر کیا تھا۔

ان مظاہرین کا کہنا تھا کہ جب سرکاری ادارے ہی دھوکا دہی میں ملوث ہوں تو عام آدمی کہاں سے کسی زمین یا تعمیراتی منصوبے کے قانونی اور غیر قانونی ہونے کا معلوم کرے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ کے ڈی اے کے افسران کو گرفتار کر کے سزا دی جائے۔ متاثرین کے مطابق انہیں باقاعدگی سے یوٹیلٹی بلز بھی جاری کیے جاتے رہے ہیں۔

اسی طرح پچھلے دنوں گلستان جوہر، چمن کالونی میں تجاوزات کے خلاف کریک ڈاون کے دوران فائرنگ کا تبادلہ ہوا، جس میں چار افراد زخمی ہو گئے۔ یہاں بھی متعلقہ اداروں کے اہل کاروں نے پولیس کی موجودگی میں غیر قانونی طور پر تعمیر کردہ مکانات کو مسمار کرنا چاہا تو انہیں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ پولیس اور مشتعل افراد کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں چار افراد زخمی ہوئے جب کہ مظاہرین نے بلدیہ کے ایک بلڈوزر کو نذر آتش کر دیا۔ شہر میں مختلف رہائشی منصوبوں کے لیے تشہیری مہم سے متاثر ہو کر عام آدمی اپنے رہنے کو مکان خرید لیتا ہے یا زمین کا ٹکڑا حاصل کر کے اس پر اپنا مکان تعمیر کرتا ہے، لیکن بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ وہ متعلقہ اداروں سے منظور شدہ پراجیکٹ نہیں اور زمین پر بھی قبضہ کیا گیا ہے۔

یہ مسئلہ بھی فوری توجہ کا متقاضی ہے اور اس سلسلے میں سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔ صوبائی حکومت اور بلدیہ کو چاہیے کہ شہر میں تجاوزات کی روک تھام کے ساتھ مختلف محکموں میں موجود رشوت خور اور بدعنوان افراد سے بھی نمٹا جائے۔ شہر میں تجاوزات کے خلاف جاری آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچانے اور حقیقی معنوں میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے نیک نیتی اور جرات مندانہ اقدامات کی سخت ضرورت ہے۔ ہر قسم کے دباؤ اور ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس آپریشن کے مختلف مراحل طے کیے جانے چاہیئں ورنہ اب تک کی جانے والی تمام کوششیں برباد ہوجائیں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔