بنگلہ دیش کے اسلامی بینک میں ایک لاکھ کروڑ کا ڈاکہ

 حسینہ واجد کی سرپرستی میں اسلامی بینک سے قرضوں کے ذریعے اُڑائی جانے والی قومی دولت کی عبرتناک ڈرامائی داستان


سید عاصم محمود December 08, 2024

بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم ، بیگم حسینہ واجد نے خود پر دیانت دار، محنتی اور عمدہ منتظم ہونے کا جو لیبل لگا رکھا تھا، وہ اقتدار سے الگ ہونے کے بعد اتر چکا۔اور نیچے سے اس کی کرپٹ اور شیطان صفت شخصیت نمایاں ہو گئی۔

پھر یہ سچائی بھی عیاں ہوئی کہ بیگم حسینہ اس لیے طویل عرصہ حکومت کر گئی کیونکہ وہ اشرافیہ کی جائز و ناجائز مانگیں پوری کرتی رہی۔ چناں چہ بیوروکریسی، جرنیلوں ، ججوں، سیاست دانوں اور بڑے کاروباریوں نے مل کر بیگم صاحبہ کو تخت پر بٹھائے رکھا تاکہ وہ کُھل کر سرکاری خزانہ لوٹتے رہیں اور ان کی کرپشن جاری و ساری رہے۔ لالچ و ہوس اور اقرباپروری پر مبنی اس عمل کی ایک خوفناک مثال پچھلے دنوں سامنے آئی۔

بڑا صنعتی گروپ

ایس عالم گروپ آف انڈسٹریز بنگلہ دیش کا ایک بڑا صنعتی ادارہ ہے جو سیمنٹ، توانائی، خوراک، اسٹیل، رئیل اسٹیٹ، ٹرانسپورٹ، شپنگ، مینوفیکچرنگ کی بیس سے زائد کمپنیاں چلا رہا ہے۔ ان کمپنیوں کی مالیت اربوں ٹکہ ہے۔ یہ ادارہ 1985ء میں محمد ایس عالم مسعود چودھری نامی شخص نے چٹاگانگ میں قائم کیا تھا۔یہ شہر میں سرگرم عمل عوامی لیگی لیڈر، اخترالزماں چودھری بابو کا قریبی عزیز تھا۔ اخترالزماں درحقیقت ایک غنڈہ اور کرپٹ آدمی تھا۔ اس نے دسمبر 1971ء کی جنگ کے دوران کئی بہاریوں اور پاکستان کے حامی بنگالیوں پہ ظلم وتشدد کر کے انھیں شہید کر دیا تھا۔

بنگلہ دیش بننے کے بعد اس نے اپنے سیاسی اثرورسوخ سے فائدہ اٹھایا اور شیخ مجیب الرحمن حکومت سے کمپنیاں قائم کرنے کے لائسنس لے لیے۔وہ سرمایہ کاروں سے رقم لینے میں بھی کامیاب رہا۔ موصوف نے اپنی سیاسی طاقت اور غنڈہ گردی کے سہارے صنعتی گروپ کھڑا کر لیا۔ بعد ازاں اس نے اپنے عزیز، محمد ایس عالم مسعود کی بھی ہرممکن غیر اخلاقی اور غیر قانونی مدد کی تاکہ وہ بھی اپنا کاروباری و صنعتی ادارہ قائم کر لے۔

 اخترالزماں چودھری طاقت کے بل پر اپنی بات منوانے کا عادی تھا۔ اس نے اسیّ کے عشرے میں قائم ہونے والے بینک، یونائٹیڈ کمرشل بینک میں سرمایہ کاری کی تھی۔بینک کے پہلے سربراہ، ہمایوں ظہیر ایک ایمان دار اور اصول پرست آدمی تھے۔ 1993ء میں اختر الزماں نے مطالبہ کیا کہ بینک اس کے گروپ کو بھاری رقم بطور قرضہ دے۔ قانون کے لحاظ سے اتنا بڑا قرضہ بینک کے کسی حصے دار کو دینا ممنوع تھا۔ لہذا ہمایوں ظہیر نے قرض دینے سے انکار کر دیا۔ اس پر اختر الزماں اتنا زیادہ طیش میں آیا کہ اس نے ہمایوں کو قتل کرایا اور خود بیرون ملک فرار ہو گیا۔

ملک واپسی

جب 1996ء میں بنگلہ دیش میں عوامی لیگ کی حکومت بنی تواخترالزماں واپس آ گیا۔ ملکی قانون اس قاتل کا کچھ نہیں بگاڑ سکا کیونکہ بنگلہ دیش جیسے تمام ترقی پذیر ممالک میں قانون لولے لنگڑے ادارے کی حیثیت رکھتا ہے۔یہی وجہ ہے، کرپٹ عناصر کھلے عام جرم کرتے ہیں اور کسی مائی کے لال میں اتنی ہمت نہیں کہ انھیں سزا دے سکے۔اخترالزماں بھی وطن واپس آ کر دوبارہ کرپشن اور غنڈہ گردی کرنے میں مصروف ہو گیا۔

اثرورسوخ کے باعث وہ پھر یونائٹیڈ کمرشل بینک کے بورڈ آف گورنرز میں شامل ہونے میں کامیاب رہا۔ کچھ عرصے بعد اختر الزماں نے دوبارہ مطالبہ کیا کہ بینک اسے بھاری قرضہ فراہم کرے۔تب ظفر احمد چودھری بینک چئیرمین تھے۔وہ بھی قانون پسند تھے۔انھوں نے قرض دینے سے انکار کر دیا۔ 26 اگست 1999ء کو اختر الزماں اور اس کے بیٹے ، سیف الزماں نے چالیس مسلح غنڈوں سمیت بینک کے ہیڈکوارٹر پر دھاوا بول دیا۔

بندوق کی نوک پر

اس وقت بینک کے بورڈ آف گورنرز کا اجلاس ہو رہا تھا۔اختر الزماں نے بندوق کی نوک پر ظفر احمد چودھری اور ان کے ہم نوا ارکان سے استعفی لے لیا ۔یہی نہیں، قوت کے بل پر وہ بورڈ کا سربراہ بننے میں کامیاب رہا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے سب کے سامنے ظفر احمد کا لباس اتروا کر انھیں برہنہ کر دیا تھا۔ اس کھلی غنڈہ گردی کے باوجود بنگلہ دیشی قانون اختر الزماں کا بال بیکا نہیں کر سکا کیونکہ وہ وزیراعظم بیگم حسینہ واجد کے قریبی ساتھیوں میں شامل تھا۔چیرمین بن کر اس نے ازخود اپنے صنعتی ادارے کو بھاری قرض دینا منظور کر لیا۔یوں لاقانونیت کے شکار بنگلہ دیش میں اشرافیہ (یا حکمران طبقے)نے ایک بار پھر دن دیہاڑے بھیانک جرم کر ڈالا۔

اُدھر محمد ایس عالم مسعود بھی اپنے چچا(اخترالزماں)کی طاقت کے سہارے اور بذریعہ رشوت اپنا کاروبار پھیلاتا چلا گیا۔2009ء میں چچا بھتیجے کی پھر لاٹری لگ گئی جب بیگم حسینہ واجد نے دوبارہ اقتدار سنبھال لیا۔ اس بار اسے جرنیلوں اور بیوروکریسی کی بھرپور مدد حاصل تھی، بیگم حسینہ اپنی حکومت مستحکم کرنے کے لیے ہر ممکن اقدام کرنے لگی۔اس نے حزب اختلاف کے اکثر لیڈر جیلوں میں ڈال دئیے۔ جماعت اسلامی کے رہنماؤں کو پھانسی دے دی۔ بیوروکریسی و فوج کے تعاون سے الیکشنوں میں دھاندلی کی اور کامیاب ہوتی رہی۔

کرپٹ بھتیجا

اختر الزماں 2012ء میں چل بسا مگر اس کے بھتیجے کی قیادت میں ایس عالم گروپ کی ترقی جاری رہی۔ سیاسی اثرورسوخ اور روپے پیسے کی طاقت سے وہ تمام قانونی رکاوٹیں دور کرتا چلا گیا۔ اب محمد ایس عالم مسعود بھی کرپٹ چچا کی طرح کوشش کرنے لگا کہ ہر بینک اسے بھاری قرضے دے تاکہ وہ اپنا کاروبار پھیلا سکے۔ حکومتی دباؤ پر کچھ بینک تو اس کو قرضے دے دیتے، باقی کوئی نہ کوئی اعتراض کر کے اس کی درخواست رد کر دیتے۔جب2017ء میں بیگم حسینہ کا دوسرا دور حکومت شروع ہوا تو اس کی نگاہیں مملکت کے سب سے بڑے نجی بینک، اسلامی بینک بنگلہ دیش پی ایل سی پر جا کر ٹھہر گئیں۔

اسلامی بینک بنگلہ دیش 1983ء میں قائم ہوا تھا۔ سعودی اور کویتی سرمایہ کاروں نے ستر فیصد ابتدائی سرمایہ کاری فراہم کی۔ بقیہ سرمایہ بنگلہ دیشی حکومت اور مقامی سرمایہ کاروں نے دیا۔ یہ اسلامی بینک تیزی سے ترقی کرنے لگا۔جلد ہی اس کا نیٹ ورک پورے ملک میں پھیل گیا اور اسے بنگلہ دیش کے سب سے بڑے نجی بینک ہونے کا اعزاز حاصل ہو گیا۔بینک کو سرمایہ کاروں سے وافر سرمایہ ملتا تھا۔ دئیے گئے قرضوں کا بھی بڑا حصہ واپس مل جاتا۔ اہل انتظامیہ بینک کو بہت اچھے طریقے سے چلا رہی تھی۔ بینک بنگلہ دیش کی جانی مانی کمپنیوں کو قرضے دیتا تھا۔یوں وہ قومی معیشت کے پھلنے پھولنے میں بھرپور حصہ لے رہا تھا۔ 2015 ء میں اچانک بینک زوال کے راستے پر چل پڑا۔

آج نو سال بعد اسلامی بینک بنگلہ دیش ایک مختلف تصویر پیش کرتا ہے۔ کبھی بینک کو بن کہے سرمایہ مل جاتا تھا، اب وہ رقم کی شدید کمی سے دوچار رہتا ہے۔پچھلے دو برس کے دوران بنگلہ دیشی اسٹیٹ بینک اسے کئی ارب ٹکہ فراہم کر چکا…صرف اس لیے کہ اسلامی بینک بدستور کام کرتا رہے اور دیوالیہ نہ ہو۔سوال یہ ہے کہ اتنا زیادہ مستحکم مضبوط ادارہ آخر کیونکر زوال وپستی کا شکار ہوا؟اس گراوٹ کی کہانی 2013 ء سے شروع ہوتی ہے۔

گراوٹ کی کہانی

یہ باقاعدہ منصوبہ بندی تھی جس کی مدد سے ایس عالم گروپ نے اسلامی بینک پر قبضہ کیا اور اسے تباہ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔منصوبے کے مطابق سے پہلے 2013ء میں یہ مہم چلائی گئی کہ ’دہشت گرد ‘‘تنظیمیں اسلامی بینک کے ذریعے چندے منگواتی ہیں۔ نیز اپنی رقم دنیا بھر سے منگواتی ہیں۔اس پروپیگنڈے میں سٹیٹ بینک کے گورنر نے بھی حصہ لیا جو ایس عالم گروپ کا حمایتی تھا اور اس سے قیمتی تحائف وصول کرتا۔

شمس الحق تکو 2009ء سے 2014ء تک بنگلہ دیش کا وزیرداخلہ رہا۔ اس نے بھی جلتی آگ پر تیل پھینکا۔ 2013ء میں وزارت خزانہ میں ہوئی ایک میٹنگ کے بعد موصوف نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے دعوی کیا کہ اسلامی بینک کا ’آٹھ فیصد‘‘سرمایہ دہشت گردوں اور ان کی تنظیموں سے تعلق رکھتا ہے۔اس دعوی نے مملکت کی شعبہ بینکاری میں زلزلہ پیدا کر دیا۔جبکہ سٹاک ایکسچینج میں اسلامی بینک کے حصص کی مالیت کافی گر گئی۔

ماحول بنایا گیا

اس وقت محمد عبدالمنان اسلامی بینک کے سربراہ تھے۔ وہ شمس الحق سے ملے اور شکایت کی :آپ ’’ نے کس بنیاد پر دعوی کیا کہ اسلامی بینک کا آٹھ فیصد سرمایہ دہشت گردی سے متعلق ہے؟آپ کو علم ہے کہ ہمارا بینک عالمی کاروبار کرتا ہے۔ہمارے کلائنٹس دنیا بھر میں پھیلے ہیں۔ آپ کے بیان سے بینک کی ساکھ کو بہت نقصان پہنچا ہے۔‘‘شمس الحق آئیں بائیں شائیں کرنے لگا اور کہا کہ اس کی زبان سے غلط طور پہ نکل گیا۔ واقعہ یہ تھا کہ ایس عالم گروپ کی ایما پر اسلامی بینک کی موجودہ انتظامیہ کو فارغ کرنے کے لیے ماحول بنایا جا رہا تھا۔

مئی 2016ء میں سٹیٹ بینک نے اسلامی بینک میں چار آزاد ڈائرکٹروں کا تقرر کر دیا۔ ان میں سے ایک ،پروفیسر احسن العالم چٹاگانگ یونیورسٹی میں ڈیپارٹمنٹ آف مارکیٹنگ کا ہیڈ تھا۔ یہ شخص خفیہ طور پہ ایس عالم گروپ کے پے رول پر تھا۔ پروفیسر احسن آڈٹ رپورٹ پر سیکڑوں اعتراضات کرنے لگا۔یوں اس نے ایس عالم گروپ کے لیے یہ راہ ہموار کر دی کہ وہ اسلامی بینک اپنی مٹھی میں لے ڈالے۔

جعلی کمپنیوں کی تشکیل

تبدیلیاں سرعت سے انجام پذیر ہوئیں۔2016ء ہی میں ایس عالم گروپ نے سات کاغذی یعنی جعلی کمپنیاں قائم کیں اور ان کے ذریعے اسلامی بینک کے حصص بڑی تعداد میں خریدنے لگا۔مقصد یہی تھا کہ حصص زیادہ خرید کر بینک اپنے قبضے میں لیا جا سکے۔زیادہ حصص خرید کر ان کمپنیوں کے اہلکار بینک کے ڈائرکٹر بن بیٹھے اور یوں بورڈ آف گورنرز میں اپنی حیثیت مضبوط کر لی۔

ایس عالم گروپ نے اسلامی بینک پہ قابض ہونے کی خاطر یہ سات کاغذی کمپنیاں قائم کیں:ایکسل ڈائنگ اینڈ پرنٹنگ لمیٹڈ(Excel Dyeing and Printing Limited)، آرمدا سپنگ ملز لمیٹڈ( Armada Spinning Mills Limited)، اے بی سی وینچرز لمیٹڈ(ABC Ventures Limited)، گرینڈ بزنس لمیٹڈ(Grand Business Limited)، پلاٹنیم اینڈویرز(Platinum Endeavors)، پیراڈائز انٹرنیشل لمیٹڈ (Paradise International Limited)اور بلو انٹرنیشنل(Blu International)۔ یہ سبھی کمپنیاں اسی سال جوائنٹ سٹاک ایکسچینج میں رجسٹرڈ کی گئیں۔

اس زمانے میں اسلامی بینک کے ایک سئینر ایگزیکٹو کہتے ہیں:’’ہر کمپنی نے اسلامی بینک کے ایک ارب ٹکے کے حصص خرید لیے۔کسی سرکاری ایجنسی نے یہ دیکھنے اور سوچنے کی زحمت نہ کہ ان کمپنیوں کے مالک کون ہیں، وہ کہاں سے آئے ہیں اور ان کے پاس اتنی بڑی رقم کہاں سے آئی۔غرض کسی کمپنی کی کوئی تفتیش نہیں ہوئی۔

فوجی افسر بھی کرپٹ نکلے

انہی دنوں شعبہ توانائی میں سرگرم کاروباری ادارے، یونائٹیڈ گروپ نے اسلامی بینک کے تین کروڑ پچیس لاکھ حصص خرید لیے۔یہ بینک کے کل حصص کا دو فیصد حصہ تھے۔ان کی بنیاد پر یونائٹیڈ گروپ کا ایک ڈائرکٹر بورڈ میں شامل کر لیا گیا۔ مگر ایس عالم گروپ بڑی سرگرمی سے بینک کے حصص خرید رہا تھا۔اسی لیے حصص کی قیمت بڑھنے لگی۔ یونائٹیڈ گروپ نے اگلے چند ماہ میں اپنے بیشتر حصص فروخت کر دئیے۔بتایا جاتا ہے کہ یوں یونائٹیڈ گروپ کو چند ماہ میں بیس کروڑ ٹکے کا بھاری منافع مل گیا۔اس گروپ کے اکثر حصص ایس عالم گروپ ہی نے خریدے۔

اوائل 2017ء تک ایس عالم گروپ قانونی اور غیر قانونی طریقوں کی مدد سے اسلامی بینک کے بیس فیصد سے زائد حصص حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ تب تک محمد ایس عالم مسعود کا بیٹا ، سیف السلام مسعود گروپ کا سربراہ بن چکا تھا۔ اب اس نے بینک کے بورڈ آف ڈائرکٹرز میں طاقتور پوزیشن اختیار کر لی۔ رفتہ رفتہ وہ بینک پر قبضہ کرنے کی خاطر تیاری کرنے لگا۔ انتہائی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس کے غیر قانونی منصوبے کو بنگلہ دیشی فوج کی ملٹری اینٹلی جنس اور سول خفیہ ایجنسی ،نیشنل سیکورٹی اینٹلی جنس (National Security Intelligence)کے اہلکاروں نے مل کر عملی جامہ پہنایا۔

بینک پر دھاوا

یہ 5جنوری 2017ء کی بات ہے، صبح سویرے ملٹری اینٹلی جنس کے افسروں نے اسلامی بینک کے چئیرمین، وائس چئیرمین اور مینجنگ ڈائرکٹر کو فون کیے اور کہا کہ وہ تیار ہو جائیں۔یہ سن کر قدرتاً وہ ہکا بکا رہ گئے۔ کچھ دیر بعد فوجی گاڑیاں تینوں اہلکاروں کے گھر پہنچیں اور انھیں لیے اپنے ہیڈکوارٹر پہنچ گئیں۔یہ ڈھاکہ کے کنٹونمنٹ علاقے میں واقع تھا۔وہاں فوج و پولیس کے افسروں نے تینوں بینک افسران کے سامنے استعفی رکھ دیا اور تحکم بھرے لہجے میں کہا کہ ان کاغذات پر دستخط کر دو۔

جان سبھی کو پیاری ہوتی ہے، انھوں نے مجبوراً استعفوں پر سائن کر دئیے۔ چند گھنٹے بعد بنگلہ دیشی فوج کی ملکیت پنج ستارہ ہوٹل میں اسلامی بینک کے بورڈ کی میٹنگ ہوئی۔اس میٹنگ کی کارروائی فوجی افسر انجام دے رہے تھے۔دوران میٹنگ بورڈ کے ارکان نے نئے چئیرمین ، وائس چئیرمین اور ایم ڈی کا انتخاب کر لیا۔اب آرمدا سپنگ ملز لمیٹڈ کا نمائندہ، بیوروکریٹ ارسطو خان بینک کا نیا چئیرمین بن گیا۔ جبکہ عبدالحمید میاں کو بینک کا نیا ایم ڈی بنایا گیا۔ یہ بھی ایس عالم گروپ کی ایک کمپنی میں کام کرتا تھا۔۵ جنوری ہی کو اسلامی ترقیاتی بینک نے اسلامی بینک بنگلہ دیش کے اپنے حصص اچانک رونما ہونے والی تبدیلی کی وجہ سے فروخت کر دئیے۔ امت مسلمہ کا یہ عالمی بینک اسلامی بینک بنگلہ دیش کے ۷ فیصد حصص کا مالک تھا۔

اسلامی بینک پر قبضہ کرانے میں سٹیٹ بینک کا ڈپٹی گورنر، ایس عالم گروپ کی بھرپور معاونت کرتا رہا۔ یہ آدمی گروپ کے پے رول پر تھا۔اس نے این آر بی گلوبل بینک اور ریلائنس فنانس لمیٹڈ کے سابق مینجنگ ڈائرکٹر ، پی کے ہولدار کی بھی مدد کی تھی تاکہ وہ چار مقامی مالیاتی اداروں سے دس ہزار دو سو کروڑ ٹکے کا بھاری قرض لے سکے۔ یہ قرض آج تک ان مالیاتی اداروں کو واپس نہیں مل سکا۔ ریلائنس فنانس لمیٹڈ ایس عالم گروپ کی کمپنی ہے، جبکہ گروپ نے این آر بی گلوبل بینک کے کثیر حصص بھی خرید رکھے تھے۔

اسلامی بینک ذاتی تجوری کیسے بنا

۵ جنوری کو اسلامی بینک پہ مکمل قبضہ کرنے سے قبل بھی ایس عالم گروپ نے چٹاگانگ میں واقع بینک کی خاتون گنج شاخ میں اپنا اکاؤنٹ کھول رکھا تھا۔ اس اکاؤنٹ کے ذریعے تب تک گروپ بینک سے چار ہزار کروڑ ٹکے کا قرض لے چکا تھا۔جب حسینہ واجد حکومت کی ’’مہربانی‘‘سے اسلامی بینک گروپ کی جھولی میں آ گرا تو وہ دھڑادھڑ اس سے قرضے لینے لگا۔

سیف السلام مسعود نے طریق واردات یہ اپنایا کہ وہ اسٹیٹ بینک اور بنگلہ دیش کے بقیہ بڑے بینکوں میں تعینات اعلی افسروں کو بھاری رقم بطور رشوت دینے لگا۔ بدلے میں یہ افسر ایس عالم گروپ کی کمپنیوں کو بھاری قرضے فراہم کر دیتے۔ سیف السلام مسعود نے بھائیوں، بیٹوں، بیٹیوں، بہنوں اور دیگر رشتے داروں کے نام پر سیکڑوں کاغذی کمپنیاں کھول لیں۔بنگلہ دیشی بینک اور مالیاتی ادارے ان تمام کمپنیوں کو قرضے فراہم کرتے چلے گئے کیونکہ سیف السلام مسعود جرنیلوں، ججوں ، سرکاری افسروں اور حسینہ واجد حکومت میں شامل وزرا اور سیاست دانوں کو بھی خوب کھلاتا پلاتا تھا۔ پولیس یا کسی اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کی مجال نہ تھی کہ وہ اس کی کرپشن اور لاقانویت کے سامنے کھڑا ہو سکے۔ یوں حسینہ واجد حکومت کے دور میں بنگلہ دیش کے ایلیٹ طبقے نے قانون ، اصولوں اور انصاف کی مٹی پلید کر دی۔

مجرمانہ سرگرمیاں افشا

حسینہ واجد حکومت ختم ہوئی تو اب بنگلہ دیشی میڈیا آزاد ہو کر سیف السلام مسعود اور اس کے ایس عالم گروپ کی مجرمانہ سرگرمیاں افشا کر رہا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق پچھلے دس سال کے دوران گروپ نے کئی بینکوں اور مالیاتی اداروں سے کم از کم ایک لاکھ کروڑ ٹکے کے قرض لیے اور ہضم کر گیا۔ نئی حکومت کے اہلکار اب ایس عالم گروپ کے حسابات کی جان پرکھ کر رہے ہیں اور مستبقل میں خوفناک انکشافات آنے کی توقع ہے۔

ایس عالم گروپ کی داستان سے عیاں ہے کہ اس کے مالکوں نے اپنے سیاسی اثرورسوخ سے ناجائز فائدہ اٹھایا۔ وہ سرکاری و غیرسرکاری بینکوں سے قرضے لینے لگا ۔یوں اس نے بھاری رقم سمیٹ کر نت نئی کمپنیاں کھڑی کر لیں۔ گو کئی کمپنیاں صرف قرض لینے کی خاطر بنائی گئیں جو وہ واپس کرنے کی نیت نہیں رکھتا تھا۔مگر اب گروپ مکافات عمل کا نشانہ بن کر ذلت و خواری کے دور سے گذر رہا ہے۔سیف السلام مسعود سمجھتا تھا کہ جرم وگناہ کر کے وہ کبھی پکڑ میں نہیں آ سکے گا۔ وہ بھول گیا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں دیر ہے لیکن اندھیر نہیں۔

بینک اصلاحات

یونیورسٹی آف ڈھاکہ میں رشید محمود تیتومیر ڈویلپمنٹ سٹڈیز کے پروفیسر ہیں۔انھوں نے نئی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ بنگلہ دیش کے شعبہ بینکاری میں اصلاحات متعارف کرائے۔ وہ کہتے ہیں:’’ رقم جمع کرانے والے ڈپازٹر بینکوں کے اصل مالک ہیں۔مگر صد افسوس کہ ہمارے ملک میں بینکوں کے اعلی افسر مالک سمجھے جاتے ہیں۔اب یہ سوچ بدلنا ہو گی۔ بینکاری کے ایسے قوانین تشکیل دینا ہوں گے جو ڈپازٹروں کو بینک مالکان بنا دیں۔مذید براں شعبہ بینکاری میں ایسی اصلاحات نافذ کرنا ہوں گی جن کے ذریعے چھوٹے اور وسطی درجوں کے کاروباری اداروں کے مفادات کا تحفظ ہو سکے۔‘‘

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں