یہ کہانی چناب کنارے ایک قصبہ سے شروع ہوتی ہے اور راوی کے اس پار ڈی ایچ اے کے ایک قبرستان میں ختم ہو جاتی ہے۔ لیکن، اس سے پہلے یہ کہانی دریا کنارے کی نرم خنک ہواوں کو الوداع کہتی ہوئی ایک طویل اورگرد سے اٹا ہوا سفر طے کرکے اس شہر جاہ پرستاں میں اترتی ہے، جس کی سہانی روشنیوں میں اس نے کبھی رات دیر تک بھٹکنے کی آرزو کی تھی۔
پھر ایک روز اسی شہر کی ادبی محفلوں کے بے معنی مباحثوں، چائے خانوں کے بے رونق قہقہوں اور سرکاری دفتروں کی اکتا دینے والی زندگی میں اپنا دم گھٹتا ہوا محسوس کرتی ہے، اور ایک شام جب سڑکیں گل ِسرخ سے بھری ہوئی تھیں، اور ایوان انصاف میں اندھیرا اتر رہا تھا، اور ابابیلیں اپنے مسکنوں سے دیوانہ وار باہر نکل آئی تھیں، اور گنبدوں میں بولنے والے کبوتروں نے چپ چاپ اپنی چونچیں خاموش تالاب میں ڈبو دیں تھیں، اور کھڑکیوں میں سب چہرے ایک جیسے نظر آنے لگے، تو اسے اس شہر سے وحشت ہونے لگی، ا ور ایکا ایکی اس پر منکشف ہوا کہ اپنے قصبہ کی ممتا بھری آغوش سے نکل کے اس شہر میں وہ ایک بیکار سی مصروف زندگی کا سودا کر رہی ہے۔ خوابوں کے ٹوٹنے کا زمانہ شروع ہو چکا تھا۔
اور یہ اسی ٹوٹتے خوابوں کے زمانے کی بات ہے، جب ایک روز فیروز پور روڈ پر واقع پنجابی انسٹیٹیوٹ آف لینگوئجز اینڈ کلچر کی پرشکوہ عمارت کی سیڑھیاں اتر کے میں برادر بزرگ عباس نجمی کے دفتر میں داخل ہوا، جو ان دنوں اس کے سربراہ تھے، تو زاہد مسعود پہلے سے وہاں موجود تھے۔ اپنے مخصوص سفاری سوٹ میں صوفہ میں دھنس کے بیٹھے، ناک پر عینک ٹکائے کوئی ادبی رسالہ دیکھ رہے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی رسالہ لپیٹ کے ایک طرف رکھ دیا، اور پنجابی میں کہا، ’آو جی ، نجمی صاحب تے اج مصروف نے، اسیں آپس چ گلاں کرنے آن۔‘ نجمی صاحب اس روز اپنے دفتر کی اندرونی سیاست سے کچھ زیادہ ہی پریشان دکھائی دے رہے تھے۔
عباس نجمی اور زاہد مسعود کے مزاجوں میں ویسے تو بڑا فرق تھا؛ ایک سرتاپا جلالی، دوسرے سراسر جمالی، لیکن دونوں میں پیاربھی بہت تھا، بلکہ ایک دوسرے کے بغیر گزارا ہی نہ تھا۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ عباس نجمی سے ملاقات ہوئی ہو، اور اسی روز ان کے ساتھ گھومتے پھرتے زاہد مسعود سے کہیں ٹاکرا نہ ہو، یا زاہد مسعود اورمیں رانا عبدالرحمن کے ڈیرے پر بیٹھے ہوں ، تو کچھ ہی دیر میں عباس نجمی بھی اپنا بیگ کندھے سے لٹکائے آ موجود نہ ہوئے ہوں۔
اس روز ہم عباس نجمی کے ساتھ ان کا پرہیزی کھانا کھا کے باہر نکلے، اور زاہد مسعود نے مجھے کلمہ چوک پر ایکسپریس چینل کے دفتر ڈراپ کیا، تو گاڑی سے اترتے ہوئے میں نے ان کو دفتر کے پاس ایک ٹی شاپ پرکڑک چائے کی پیشکش کی۔ مجھے یاد ہے کہ چائے پیتے ہوئے وہ دیر تک نیوکیمپس کی یادوں میں کھوئے رہے، اس کی نرم رو نہر، اس کے دو رویہ بادلوں سے سرگوشیاں کرتے اونچے اونچے درخت اور ان کے گھنے سایے میں پتوں سے اٹے ہوئے ٹھنڈے فٹ پاتھ، جن پر شام اترتے ہی دور دراز شہروں، قصبوں اور دیہات سے آئے طلبہ کی ٹولیاں آوارہ منش بدلیوں کی طرح محو خرام نظر آتیں، برسات کی موسلادھار بارشوں میں تیز زنانے دار ہواوں کے جھکڑ چلتے اور ہوسٹلوں کے اوپر منڈلاتے گہرے کالے بادل خوفناک آوازوں میںچنگھاڑتے، تو کبھی کبھی ایسے محسوس ہوتا کہ جیسے ہم سری لنکا کے کسی دور دراز جنگل میں رہ رہے ہیں۔
ہم انھی یادوں میں مگن تھے کہ زاہد مسعود کے فون کی گھنٹی نے یہ سارا طلسم توڑ دیا۔ ان کے دفتر سے کال آ رہی تھی، جو قریب ہی وحدت روڈ پر واقع تھا۔ گھنٹی کافی دیر تک بجتی رہی۔ وہ فون کی طرف دیکھتے رہے، اور یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے کہ ’مجھے اپنے دفتر پہنچنا ہے‘ ، پھر گاڑی میں بیٹھتے ہوئے خود کلامی کے انداز میں کہا کہ ’نجمی، آج کچھ زیادہ ہی مضطرب نظر آ رہا تھا ، اللہ خیر کرے۔ ‘شاید زاہد مسعود کے اندر کسی اور ہی خطرے کی گھنٹی بج رہی تھی۔
اس کے بعد چند ہی روز گزرے ہوں گے کہ عباس نجمی کو پلاک کی سربراہی سے ہٹا کے ان کی خدمات واپس محکمہ تعلیم کو منتقل کر دی گئیں۔ یہ اطلاع زاہد مسعود ہی نے سب سے پہلے مجھے دی۔ یہ بھی پہلی بار انھی کی زبانی معلوم ہوا کہ عباس نجمی کے دماغ میں ٹیومر کی تشخیص ہوئی ہے۔
اس کے بعد کے تمام مراحل جو انتہائی تکلیف دہ تھے، وہ عباس نجمی اوران کے اہل خانہ کے ساتھ اس طرح رہے کہ جیسے انھی کے گھر کا فرد ہوں۔ جی او آر میں عباس نجمی کے جنازے پر زاہد مسعود بہت بجھے بجھے ہوئے نظر آئے۔ جنازے کے بعد عباس نجمی کا جسد خاکی ان کے گاؤں روانہ کرنے کے لیے پک اپ میں رکھا جا رہا تھا، تو مجھے یاد ہے کہ میرے ساتھ کھڑے زاہد مسعود نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا،’ لو جی، عباس نجمی وی ٹرگئے۔‘ ناہید شاہدؔ کی موت پر اس نے لکھا تھا،’ ناہید شاہد، تری شادی پہ گڈوی والی نے نجمی کو رقص کی دعوت دی تھی، نجمی جیت گیا تھا، پر آج تمھاری رخصت گاہ پہ سب بیٹھے ہیں، نہ تو گڈوی والی ہے، نہ نجمی ہے، خزاں رسیدہ درخت اور ان کے پیلے پتے ہاتھ ہلاتے ہیں، تیس سال تم کہاں رہے تھے، بچے پوچھتے ہیں۔ ‘ حقیقتاً، عباس نجمی کی موت کا خلا زاہد مسعود کی زندگی میں کبھی نہ پُر ہو سکا۔
زاہد مسعود سے پہلی ملاقات نیوکمیپس ہوسٹل نمبر 18میں ہوئی تھی، جہاں وہ اپنے دوست کے ہمراہ رہتے تھے۔ لا گریجوایشن کے بعد وہ کوئی سرکاری نوکری کر رہے تھے، اور ترقی پسند نوجوان شاعر کی حیثیت سے لاہور کے ادبی حلقوں میں کافی معروف تھے۔ میں ان دنوں نیا نیا نیوکیمس وارد ہوا تھا اور انھی کے ساتھ والے ہوسٹل نمبر۱۴میں رہتا تھا۔ جب معلوم ہوا کہ وہ وزیرآباد سے ہیں، جو گجرات شہر کے ساتھ چناب کے پارواقع ہے، تو اس ’ہمسائیگی‘ کے اس احساس سے ان کے ساتھ مزید انسیت پیدا ہو گئی۔ لیکن، ملاقاتوں کا دور انتہائی مختصر ثابت ہوا، اور جب یونیورسٹی لا کالج کے زمانے میں، میں ہوسٹل نمبر 8 میں آ گیا، تو ان سے رابطہ منقطع ہو گیا۔ برسوں بعد زاہد مسعودسے پھر دوبارہ رابطہ برادر بزرگ عباس نجمی ہی کی معرفت ہوا تھا۔
میں ان دنوں نوائے وقت سنڈے میگزین کا ایڈیٹر تھا۔ جب کبھی وہ گھومتے پھرتے مال روڈ چیئرنگ کراس پر واقع ہمارے دفتر آنکلتے، تو چائے کے ہاف سیٹ پر ان کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوتا تھا۔ سفاری سوٹ میں قابل رشک صحت اور بھرے بھرے اجلے چہرے اور گھنی مونجھوں اور دل آویزمسکراہٹ کے ساتھ ، پہلی نظر میں، وہ کوئی ادھیڑ عمر خوشحال کامریڈ معلوم ہوتے تھے، جو اوائل جوانی میں بے شک ترقی پسند رہا ہو، لیکن اب اس سے کنارہ کشی اختیار کر چکا ہو، اور نظریاتی زندگی کی حقیقت اس پر آشکار ہو چکی ہو ؎ چلو اپنے خوابوں کو درختوں پر لکھ آئیں، کہ کچھ عرصے میں ان درختوں کو بھی کٹ جانا ہے، سب کچھ مٹ جانا ہے، اب کچھ بھی امر نہیں‘‘۔
عباس نجمی کی ناگہانی موت کے بعد زاہد مسعود سے پھر پہلے جیسا رابطہ نہ رہا۔ کبھی کبھار رانا عبدالرحمن کے کتابی ڈیرے پر ملاقات ہو جاتی، لیکن پھر یہ ملاقاتیں بھی نہ ہونے کے برابر رہ گئیں۔ پھرمعلوم ہوا کہ سمن آباد چھوڑ کے ڈی ایچ اے کے قریب سوئی گیس سوسائٹی میں منتقل ہو چکے ہیں۔ اس کے بعد کوئی ملاقات نہیںہوئی۔ وٹس اپ پر البتہ گاہے گاہے ان کے پنجابی میسجز ملتے رہتے تھے، لیکن پھر یہ سلسلہ بھی ٹوٹ گیا۔ جن دنوں، میں مجلس ترقی ادب کا سربراہ تھا، چند امور میں ان سے راہنمائی لینے کی ضرورت محسوس کی، تو معلوم ہوا کہ وہ ذہنی طور پر اپنے اردگرد کی دنیا سے بے نیاز ہو چکے ہیں۔
ان کی وفات سے چند ہفتے پہلے آصف جاوید ( نگارشات ) اور میں، ان کو دیکھنے کے لیے جانے کا پروگرام بنا چکے تھے، لیکن اس سے پہلے ہی انھی کی زبانی معلوم ہوا کہ عباس نجمی کے بعد زاہد مسعود بھی ہم سے روٹھ گئے ہیں۔ لیکن، وہ تو کہا کرتے تھے کہ ’ہم، آنسووں، خودرو پھولوں، دیواروں سے اترے رنگوںاورگیتوں کو ملا کر، ایک اچھی سی مسکراہٹ بنائیں گے، اور، اسے ہونٹوں پر سجائیں گے،ہمیں ابھی کچھ دیر اور زندہ رہنا ہے۔‘ لیکن، شاید آدھے راستے میں ہی ان کے سارے خواب ٹوٹ کے بکھر گئے تھے، یا شاید وہ جسمانی طور تو نئے گھر میں منتقل ہو گئے تھے، لیکن ان کی روح، ان کی جان پیچھے کہیں وزیرآباد اور سمن آباد میں ہی رہ گئے تھے، اور ان کو پکارتے رہتے تھے، اپنی طرف بلاتے رہتے تھے، شاعر نے کہا ؎
ہر کسی کو دور ماند از اصل خویش
باز جوید روزگار وصل خویش