بُک شیلف

ادبی کتابوں کا دلچسپ مجموعہ



تبصرہ نگار: سید عاصم محمود
 امام ابن تیمیہ کی زندگی کے سنہرے واقعات 
مصنف : عبدالمالک مجاہد 
ناشر : دارالسلام انٹرنیشنل ، لوئر مال ، نزد سیکرٹریٹ سٹاپ لاہور، 042-37324034
صفحات : 343فور کلر آرٹ پیپر ، قیمت : 2700روپے 

 امت محمدیہؐ میں اللہ نے لاتعداد علما اور فقہا پیدا فرمائے لیکن ان میں امام ابن تیمیہ ایک ہی تھے۔صدیاں گزر گئیں امام ابن تیمیہ جیسی کوئی دوسری علمی شخصیت پیدا نہیں ہوئی۔ امام صاحب کا تعلق حران کے معروف علمی خاندان سے تھا جس کے بارے میں بجا طور پر کہا جاسکتا ہے ’’ ایں ہمہ خانہ آفتاب است ‘‘۔ امام ابن تیمیہ حدیث ، تفسیر ، فقہ ، اصول فقہ ، تاریخ ، اسماء  الرجال ، فسلفہ ،منطق ، ادب کے امام تھے۔

ان کے علاوہ بھی وہ تمام علوم جو اس وقت رائج تھے حاصل کئے۔ کوئی بھی ایسا علم نہ تھا جو حاصل نہ کیا ہو۔ تاہم علم تفسیر آپ کا پسندیدہ موضوع تھا۔ آپ کی تربیت بہت ہی پاکیزہ علمی گھرانے میں ہوئی تھی۔ قوت حافظہ غضب کا تھا جس کتاب کو ایک دفعہ دیکھ لیتے وہ آپ کو مکمل طور پر یاد ہوجاتی۔ قرون اولیٰ کے بعد جن چند اہم شخصیات نے اسلام کی نشرواشاعت میں نمایاں کردار ادا کیا ان میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سرفہرست ہیں۔

امام ابن تیمیہ مجدد تھے اور علم وہدیت کا ایک ایسا سرچشمہ تھے جن کی ضیا پاشیوں سے دنیائے اسلام جگمگا اٹھی تھی۔اگر ہم موجودہ حالات کا موازنہ امام صاحب کے دور سے کریں تو ہمیں کافی حد تک مطابقت نظر آتی ہے۔امام صاحب کی زندگی میں دنیائے اسلام فتنہ تاتار کی غارت گری کا شکار تھی دینی ، سیاسی ، سماجی اور اخلاقی اعتبار سے زبوں حالی کا شکار تھی ، خلافت اسلامیہ پارہ پارہ ہوچکی تھی۔ حقانیت کا آفتاب ڈوب چکا تھا کہ اللہ نے امام صاحب کو علم وہدی کا آفتاب بنا پر دمشق کے آسمان پر طلوع کیا۔ آج بھی اگر ہم دیکھیں تو دنیائے اسلام اسی طرح کے حالات سے دوچار ہے۔ گو کہ آج ہم میں امام ابن تیمیہ جیسی کوئی ہستی اور شخصیت موجود نہیں تاہم امام صاحب کی کتب سے ہم رہنمائی لے سکتے ہیں۔

زیر تبصرہ کتاب ’’ امام ابن تیمیہ کی زندگی کے سنہرے واقعات ‘‘ اسی نقطہ نظر سے لکھی گئی ہے۔ یہ کتاب اہل علم کیلئے بہتر ین تحفہ ہے، اس کتاب کی اشاعت سے دارالسلام نے ایک اہم علمی خدمت انجام دی ہے۔اردو زبان میں ایسی شہرہ آفاق، جامع ، علمی اور تحقیقی کتاب کی ضرورت عرصہ دراز سے محسوس کی جارہی تھی۔ یہ اپنے موضوع پر شاندار ، بیمثال اور لاجواب کتاب ہے جو کہ دارالسلام انٹرنیشنل کے مینجنگ ڈائریکٹر عبدالمالک مجاہد کی تصنیف ہے۔

عبدالمالک مجاہد کہتے ہیں ساتویں صدی ہجری میں پیدا ہونے والے امام ابن تیمیہ نے اس وقت کی ملت اسلامیہ پر چھائے جمود ، تاریکی اور بزدلی کو اپنے قلم ، کردار اور گفتار سے دور کیا۔وہ ملت اسلامیہ کی ان چند شخصیات میں سے تھے جنھوں نے علمی جہاد کے ساتھ ساتھ قلمی جہاد بھی کیا۔اپنی زبان وبیان اور گفتار وکردار سے مجاہدین اسلام میں جہاد کی روح پھونک دی جبکہ اپنی تلوار سے فتنہ تاتار کا منہ موڑ دیا۔ یہ کتاب امام ابن تیمیہ کی زندگی ، حالات ، حیات اور خدمات کے متعلق میرے سالہاسال کے مسلسل مطالعہ کا ماحاصل ہے۔

یہ کتاب علما ، طلبہ ، اساتذہ ، سیاستدانوں اور حکمرانوں سمیت ہر ایک کیلئے مشعل راہ ہے۔ اس کتاب کے مطالعہ سے آج بھی ملت اسلامیہ پر چھائے جمود اور بزدلی کو دور کیا جاسکتا ہے۔ امام ابن تیمیہ اپنے وقت کے مجدد ، مصلح اور مجاہد تھے۔یہی وجہ تھی کہ وہ پوری زندگی حکومتی ایوانوں اور راہداریوں سے دور رہے۔ انھوں نے کوئی عہدہ قبول نہیں کیا۔ ساری زندگی مسجد اموی سے متصل ایک چھوٹے سے حجرے میں دین کی آبیاری ، درس وتدریس ، تصنیف وتحقیق اور جہاد فی سبیل اللہ میں گزار دی۔ وہ راست بازی ، حق گوئی وبے باکی ، زہد وبہادری کے اعلیٰ منصب پر فائز تھے۔

کتاب میں امام صاحب کی ولادت ، خاندان ، ابن تیمیہ کہنے کی وجہ ، ابتدائی حالات ، علوم شریعت کی تجدید ، حصول علم ، دیگر عصری علوم کا حصول ، باکمال مصنف ، محبت رسول کا والہانہ جذبہ ، مخالفین کے درمیان ہمہ گیر شخصیت ، ملکی معاملات میں اصلاحی کردار ، امام صاحب بیحثیت بت شکن ، جیل کی زندگی ، کبائر علما ء￿ کے ہاں امام ابن تیمیہ کا مقام ومرتبہ ، امام ابن تیمیہ بطور ایک مجدد ، تاتاری جنگوں میں شرکت ، شاہ تاتار سے گفتگو ، امام صاحب بطور ایک کامیاب مناظر ، راہبوں ، صلیبیوں ، پادریوں، نجومیوں ، صوفیوں سے مناظرے ، امام صاحب کا دور ابتلاوآزمائش ، ابتلا وآزمائش میں ثابت قدمی ، امام صاحب کے شاگردان رشید ، تصانیف ، آپ کی مشہور تصانیف ، فضل وکمال ، وفات اور جنازہ۔۔۔۔۔جیسے اہم موضوعات کو زیر بحث بنایا گیا ہے۔ 4کلر آرٹ پیپر پر طبع شدہ کتاب ظاہری اعتبار سے جتنی خوبصورت ہے باطنی اعتبار سے اس سے بھی کہیں زیادہ دلکش اور جاذب نظر ہے۔ ایسی علمی ، اصلاحی اور رہنما کتاب کا مطالعہ ہر ایک کیلئے بے حد ضروری ہے۔

تبصرہ نگار: شہناز احد 
اللہ میاں کے گھر
مصنف: اشرف شاد

پاکستان میں اردو پڑھنے اور بولنے والوں کے لئے ا شرف شاد کانام اب کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ گزشتہ تین د ہائیوں کے دوران جہاں انھوں نے ناول نگاری کو ایک نء جہت دی یعنی پاکستانی سیاست، صحافت، صدارت، وزارت سمیت عدالت جیسے موضوعات کو ناولوں کی شکل میں ڈھالا۔ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ان موضوعات سے جڑے کرداروں کو جو زبان دی اور جس انداز میں انھیں گھمایا پھرایا وہ کردار آج بھی بالکل گھڑی کی سوئیوں کی طرح یا تو آگے پیچھے گھوم رہے ہیں یا ساکت کھڑے ہیں۔ ناول نگاری کے ساتھ،ساتھ اشرف اندرون خانہ اور بھی کء شوق رکھتے ہیں۔

جیسے شعر کہنا پھر مجموعہ بناکے چھاپنا،ایسے ہی ان کا ایک اور شوق افسانہ نگاری کا بھی ہے۔ ان کے افسانوں کاایک مجموعہ ‘‘ پیلی لکیر’’ کے نام سے کئی برسوں قبل چھپ بھی چکا ہے۔ اس بار ان کے مجموعہ کانام ‘‘ اللہ میاں کے گھر ‘‘ ہے۔ اشرف نے جب جلاوطن، صدر محترم ، وزیر اعظم اور جج صاحب جیسے ناول لکھے تو قاری کو لگتا تھاکہ جیسے وہ خود وزیر اعظم ہاؤس یا ایوان صدارت میں بیٹھا ہواور وہاں کی دیواروں، راہ داریوں کو بولتے دیکھ رہا ہو۔

افسانوں کی اس کتاب میں ان کا افسانہ جو کہ کتاب کا عنوان بھی ہے۔ ‘‘ اللہ میاں کے گھر ! پاکستانی یاستدانوں،حکمرانوں،سیاست کے مہروں اور ان طبقات سے جڑے شاعروں، ادیبوں ،دانشوروں،مذہبی ٹھیکیداروں اور اس کاروبار سے جڑے دیگر کرداروں کاعالم بالا میں ایک خصوصی اجتماع کا حال ہے’’ یہ اجتماع ایک خصوصی این او سی کے تحت جنت کے باغوں میں، دودھ کی نہروں کے درمیان جبرئیل کے اشاروں پرمنعقد کیا گیا ہے۔

اس اجتماع کے شرکاء کی کافی بڑی تعداد خصوصی اجازت نامے کے زیر سایہ دوزخ سے جنت میں تشریف لائے ہے’’۔ اس اجتماع کی صدارت جبرئیل کی کوششوں سے قائداعظم کر رہے ہیں۔ اس خواہش اور احساس درد مندی کے ساتھ’’ پاکستان کس طرح سدھر سکتا ہے’’۔ پاکستان کا بانی ہونے کے ناطے اس اجتماع میں قائد کو جو کچھ سننا،دیکھنا، برداشت کرنا پڑا بشمول رویوں کی بدصورتی کے،اس کا اندازہ افسانہ پڑھنے سے ہی ہوسکتا ہے۔

اجتماع کے آخر میں جبرئیل قائد سے ایک سوال کرتے ہیں کہ ‘‘ آپ مجھے بتانا پسند کریں گے کیا فیصلہ ہوا؟’’ تو قائد بہت مجبوری کے عالم میں یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ’’سب کچھ اسی طرح چلتا رہے گا۔ پاکستان اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے۔ جو کچھ ہورہا ہے اسی طرح ہوتا رہے گا۔ نہ ابابیلوں کا لشکر آئے گا، نہ رحمت کے بادل من وسلوی برسائیں گے نہ ہی کوئی آسمانی مداخلت ہوگی ’’۔ افسانے کے اس موڑ پے جبرئیل غائب ہوجاتے ہیں۔ اس افسانے کی خوبصورتی وہ گفتگو ہے جو قائد اور عالم بالا میں موجود کرداروں کے درمیان ہوتی ہے۔

اس کتاب میں سات افسانے ایک دم تازہ با تازہ ہیں۔ پانچ افسانے اشرف کی پیلی کتاب کا انتخاب ہیں۔ اس کے علاوہ پانچ کرداری انتخاب ان کی مختلف ناولوں کے ہیں۔ یہ کتاب دراصل ہندوستان میں ریختہ نے چھاپی ہے۔ تازہ افسانوں کے علاوہ بقیہ انتخاب ریختہ ہی کا ہے۔ یہ کتاب اس کا پاکستانی ایڈیشن ہے۔ اشرف شاد کے افسانے ان کی ناولوں کی طرح موضوعات کے گرد ہی گھومتے ہیں۔ ناولوں کی طرح ان کے افسانوں کا رومانس بھی in between the lines ہی ہوتا ہے لیکن ان کی کہانی کا مرکز اور کردار افسانے میں رومانیت کی کمی کا احساس نہیں ہونے دیتے۔

دوسو دس صفحات پر مشتمل اس کتاب کو ‘‘ بدلتی دنیا’’ نے چھاپا ہے اور فضلی سنز اس کے تقسیم کار ہیں۔ اچھی کتب اور افسانہ پڑھنے کے شوقین لوگوں کے لئے ‘‘ اللہ میاں کا گھر ‘‘ ایک اچھی کتاب ہے۔
 

معرکہ بنیان المرصوص
’حالیہ پاک بھارت فوجی تصادم پر لکھی پروفیسر انور مسعود کی تازہ نظم‘
جو اک مدت سے دشمن ہے ہمارا
اب اس کا حال ابتر ہو گیا ہے
بڑے جنگی جہاز اس کے گرے ہیں
وہ مٹی کے برابر ہو گیا ہے
جسے شرمندگی کہتی ہے دنیا
یہی اس کا مقدر ہو گیا ہے
ہماری فتح مندی پر زمانہ
بہت حیران و ششدر ہو گیا ہے
بس اب خاموش ہیں بھارت کی توپیں
جواب ایسا موثر ہو گیا ہے
ہم اک دیوار ہیں سیسہ پلائی
یہ اب دشمن کو باور ہو گیا ہے
جری، جان بازوں کا جھرمٹ
ابابیلوں کا لشکر ہو گیا ہے
جو مودی کی مذمّت میں کہا ہے
مرا وہ شعر نشتر ہو گیا ہے
ہوئی ہے اس کی بدنامی کچھ ایسی
وہ رسوائی کا پیکر ہو گیا ہے
بہت چکرا رہا ہے اس کے ہاتھوں
جو اس کے ساتھ چکر ہو گیا ہے
جو اس نے جھوٹ بولا ہے مسلسل
وہ اب دنیا کو ازبر ہو گیا ہے
اور اب یہ مسئلہ کشمیر والا
جہاں بھر میں اجاگر ہو گیا ہے
بہت مودی نے پائی ہے ترقی
نریندر سے سرنڈر ہو گیا ہے

٭٭٭

 میر ہزار خان مری
(مزاحمت سے مفاہمت تک)

 

پاکستان کم از کم گزشتہ 4 دہائیوں سے امن و امان کی صورت حال کے حوالے سے غیر معمولی حالات سے گزر رہا ہے۔ 1979 میں افغانستان پر روسی قبضے کے بعد جس مزاحمت کا آغاز ہوا اُس کے ردعمل کا سارا وبال پاکستان پر آیا۔ اس سرد جنگ میں ’جس کا سب سے نمایاں ہتھیار دہشت گردی ہے، پاکستان آج دن تک زخم سہہ رہا ہے۔ جیسا کہ اس طرح کے معاملات میں ہوتا ہے، آپ کے دشمن صورتحال سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں لہٰذا بھارت بھیآغاز ہی سے اس جنگ میں شامل ہوگیا تھا۔ روس کو افغانستان میں شکست کے بعد پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کا یہ مشن پوری طرح سے بھارت نے سنبھال لیا اور اس کی مدد وہ تمام ممالک کرتے ہیں جو بھارت کے مقاصد سے کسی طرح کی یکسانیت رکھتے ہیں۔ پاکستان کے خلاف لڑی جانے والی یہ خفیہ جنگ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کئی روپ بدل چکی ہے، لیکن بدستور جاری ہے۔ اس عرصہ میں امریکی افواج بھی افغانستان میں داخل ہوئیں اور پھر ناکام ہو کر نکل گئیں، لیکن اس خطے میں دہشت گردی کے جو نیٹ ورک اپنی جڑیں مضبوط کرچکے ہیں وہ کسی نہ کسی صورت میں اپنا کام مسلسل دکھا رہے ہیں۔

دہشت گردی کے اس پیچیدہ منظر نامے میں فرقہ واریت کو بھی استعمال کیا جاتا ہے اور سیاسی وابستگیوں کو بھی اسی طرح صوبائیت اور قومیتوں کی تفریق کو بنیاد بنا کر دہشت گردی کو منظم کرنا بھی دشمن کا ایک آزمودہ طریقہ کار ہے۔ ہمارا صوبہ بلوچستان بھی طویل عرصہ سے بد امنی کا شکار چلا آ رہا ہے۔ اس حوالے سے یہ بات بھی تسلیم کرنا پڑے گی کہ دشمن اُسی جگہ کامیاب نقب زنی کر پاتا ہے جہاں اُسے کمزوری نظر آتی ہے۔ بلوچستان میں جس ابتری کا ہمیں سامنا ہے اس میں ریاست کی غلطیاں اور عدم توجہ اپنی جگہ ایک تلخ حقیقت ہے۔زیر نظر کتاب ’میر ہزار خان مری: مزاحمت سے مفاہمت تک، ریاست کے خلاف مسلح مزاحمت سے منسلک بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک اہم کردار کی کہانی ہے جس نے طویل عرصہ تک جنگ کے بعد مفاہمت کی راہ اختیار کی۔ گوکہ یہ کتاب ایک شخصیت کی زندگی کا احاطہ کرتی ہے لیکن درحقیقت اس شخصیت کے ذریعے ہم بلوچستان کے اصل مسئلے اور اس کی پیچیدگیوں کو سمجھنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔

کتاب کے مصنف عمار مسعود کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ یوں تو وہ صحافت سے منسلک ہیں لیکن افسانہ نگاری کا ہُنر اِن کی تحریر کا امتیازی وصف ہے۔ اُن کے تعارف میں ٹیلی ویژن بھی شامل ہے۔ افسانہ نگاری کے علاوہ مضامین بھی لکھتے ہیں اور مضامین کا مجموعہ بھی شائع ہوچکا ہے۔ سیاست پر بھی لکھتے، بولتے ہیں۔ اس کتاب کو تکمیل تک پہنچانے میں ایک اور اہم نام خالد فرید کا ہے جو بلوچستان کے معاملات کی غیر معمولی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ اپنی اہم سرکاری ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لئے طویل عرصہ بلوچستان میں رہے۔ اس کے علاوہ افغانستان اور ایران میں بھی وقت گزرا۔ ان خدمات کے اعتراف میں اعزازات سے نوازے گئے۔ میر ہزار خان سے ان کا تعلق دوستانہ تھا۔ اس کہانی کی بہت سی خفیہ تفصیلات خالد فرید کی میر ہزار خان مری سے طویل ملاقاتوں کے دوران ہونے والی بات چیت کے توسط سے ہم تک پہنچی ہیں، جبکہ کہانی کے مرکزی کردار کی زندگی کے تمام ادوار سے متعلق تصاویر بھی خالد فرید ہی نے فراہم کی ہیں۔ کتاب میں شامل اہم تفصیلات کو ہم تک پہنچانے میں بیورغ مری نے بھی ہاتھ بٹایا۔ بیورغ، میر ہزار خان کے پوتے ہیں جو تمام عمر اپنے دادا کے ساتھ رہے۔ انہوں نے اس عرصہ میں جو دیکھا اس کو بیان کیا ہے۔

عمار مسود نے اس کتاب کا آغاز ’اعتراف‘ سے کیا ہے۔ اعتراف اس بات کا کہ ملک کے دیگر حصوں کے بسنے والوں نے بلوچستان کو ’یہاں کے لوگوں کو اور ان معاملات کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی اور جو تاثر پیدا کیا جاتا رہا اسے ہی حقیقت سمجھا جاتا ہے۔ کتاب کا پہلا باب اپنے انداز بیان اور اسلوب کے اعتبار سے خاصے کی چیز ہے، جو کتاب کے مرکزی کردار میر ہزار خان کی موت کے حالات کا احاطہ کرتا ہے یوں کتاب کا بیانیہ اختتام سے آغاز کی جانب سفر کرتا ہے اور حقیقت ہے بھی یہی کہ بھٹکے ہووں کا لوٹ آنا ہی درحقیقت آغاز ہوتا ہے۔

کتاب کا پیش لفظ صدر مملکت آصف علی زرداری نے تحریر کیا ہے، وہ لکھتے ہیں ’’بلوچستان کا مسئلہ کیا ہے، بلوچوں کو شکوہ کیا ہے، ان کی محرومیوں کا مداوہ کس طرح کیا جاسکتا ہے اور کس طرح بلوچوں کو سینے سے لگایا جاسکتا ہے؟ یہ اور اِن کے مماثل کئی سوالات کے شافی جوابات اس کتاب میں ملتے ہیں۔ معروف قلم کار عمار مسعود اور خالد فرید صاحب کی یہ کاوش ہر اعتبار سے قابل تحسین ہے‘‘۔

کتاب کا دیباچہ وزیر اعظم شہباز شریف نے لکھا ہے : وہ کہتے ہیں ’’میری نظر میں میر ہزار خان کی یہ کہانی لائبریریوں کی زینت بننے کے لئے نہیں بلکہ کالجوں اور یونیورسٹیوں کی سطح پر نصاب میں متعارف کرانے کے لئے ہے۔ اس لئے کہ اس میں نوجوانوں کے لئے وہ رہنما اصول موجود ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر ملک دشمنوں کی سازشوں کو بروقت سمجھا اور ان کا سدباب کیا جا سکتا ہے‘‘۔

کتاب کی پیشکش کا معیار شاندار ہے جسے سنگ میل پبلی کیشنز 25 لوئر مال لاہور (042-37228143 نے شائع کیا ہے۔ اس با تصویر کتاب کی قیمت 2800 روپے ہے۔ عوام الناس، بالخصوص نئی نسل کو ہتھیار چھوڑ کر دلیل کو اپنانے والے ایسے کرداروں سے روشناس کرانا یقیناً ایک بڑی خدمت ہے۔ 

مقبول خبریں