پاکستان کو سیاسی و معاشی استحکام کے لیے قومی مفاہمت درکار ہے۔بالخصوص ایک ایسے موقع پر جب ہم نے کچھ علاقائی اور عالمی تناظر میں سفارت کاری کے محاذ پر کچھ بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں تو ایسے میں داخلی چیلنجز سے نمٹنا ہماری قومی ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیے۔لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ہمیں داخلی مسائل اور چیلنجز کا ادراک ہو اور تمام فریقین کھلے دل کے ساتھ حالات کی سنگینی کا احساس رکھتے ہوں اور اس کے حل کے لیے ان کے پاس ایک واضح،جامع اور شفاف روڈ میپ بھی ہونا چاہیے۔ مفاہمت تب ہی فروغ پاتی ہے جب رواداری ہو اور سیاسی اختلافات کو دشمنی کا رنگ نہ دیا جائے، اور ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کیا جائے ۔ اگر ایسا کلچر یا ماحول نہ ہو تو پھر مفاہمت کی سیاست نہیں پنپتی ۔
سیاسی میں مفاہمت اس وقت ہوتی ہے جب ضد اور ہٹ دھرمی کو چھوڑ کر آگے بڑھنے کی کوشش کی جائے۔ دوسروں کو کرپٹ اور اپنے آپ کو ایماندار قرار دے کر اپنا ایجنڈا مسلط کرنے سے مفاہمت کی سیاست آگے نہیں بڑھ سکتی ۔مفاہمت کا عمل وہیں اپنے نتائج دیتا ہے جہاں سیاسی لچک کا رویہ اختیار کیا جاتا ہے اور ایک دوسرے کے مطالبات کو سمجھا، پرکھا اور جانچا جاتا ہے تاکہ کوئی سیاسی راستہ نکالا جاسکے۔ سیاست اور مفاہمت کے عمل میں ایسا راستہ اختیار کیا جاتا ہے جو کسی کی فتح اور شکست نہیں بلکہ سب کی اجتماعی فتح کی صورت میں سامنے آتا ہے۔مفاہمت سے مراد باہمی ٹکراؤ کا خاتمہ ہی نہیں ہوتا بلکہ آئین و قانون کی حکمرانی قائم کرنا ہوتا ہے۔
سیاسی فیصلے سیاسی بنیادوں اور سیاسی حکمت عملیوں کے تحت ہی ہوتے ہیں ۔ایک دوسرے کے لیے گنجائش پیدا کرنا ہوتی ہے ۔ سیاست میں غلطیاں سب سے ہوتی ہیں اور ہوئی ہیں اور حالات کی خرابی میں تمام فریقوں کا کم یا زیادہ حصہ ہوتا ہے ۔لیکن اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ہم تو مکمل صاف اور شفاف ہیں ، باقی سب کرپٹ ہیں۔
بعض اہل دانش یک طرفہ نقطہ نظر پیش کرتے ہیں، ان کا اپنا ذاتی ایجنڈا ہوتا ہے یا کسی کی پراکسی بن کر کوئی بیانیہ پیش کرتے ہیں جو اجتماعی سیاست یا جمہوری سیاست کے برعکس ہوتا ہے۔مفاہمت کی سیاست میں سب سے اہم بات یہ ہوتی ہے کہ کیا ہم اپنی غلطیوں کو تسلیم کررہے ہیں یا ان غلطیوں کا بڑی ڈھٹائی سے دفاع کرتے ہیں ۔ ایسے میں تو مفاہمت نہیں ہوسکتی ۔ اس وقت تمام سیاسی اور غیر سیاسی سٹیک ہولڈرز مفاہمت کی بات کررہے لیکن عملاً اپنے اپنے ایجنڈے پر کاربند ہیں جو مفاہمت کے اصول کے خلاف ہے۔
ہم سب بنیادی طور پر انتقامی سوچ رکھتے ہیں، اپنے مخالفین کو دبانا ہماری سیاسی تاریخ کا ہمیشہ سے حصہ رہا ہے ۔میثاق جمہوریت پر دونوں بڑی سیاسی جماعتوں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے جن غلطیوں کا اعتراف کرکے مستقبل میں جمہوری طرز فکر اختیار کرنے کی جو سیاسی کمٹمنٹ کی تھی، ایسے میثاق کو مزید وسعت دینی چاہی اور جو سیاسی جماعیتں اس سے باہر ہیں، ان کو بھی چاہیے کہ وہ سیاسی میثاق کے ساتھ متفق ہوں۔
مفاہمت کو آگے بڑھانے میں کلیدی کردار پاپولر سیاسی قیادت کا ہوتا ہے کیونکہ ان کے پاس ہی ووٹ بینک ہوتا ہے ، الیکشن بھی انھیں سیاسی جماعتوں میں سے کسی نے جتتنا ہوتا۔ انھیں میں سے حکومت ہوتی اور انھیں میں سے اپوزیشن ہوتی ہے۔ اور ان ہی کی طرف سے مفاہمت کی طرف پیش قدمی اہمیت رکھتی ہے ۔
اگر فریقین مفاہمت کے لیے زیادہ سنجیدہ ہوتے ہیں تو اس کے لیے وہ ایسے سازگار حالات پیدا کرتی ہیں جو تمام فریقین کے لیے بھی آسانیاں پیدا کرتی ہے۔لیکن اگر یہاں دیکھیں تو وزیر اعظم تواتر سے حزب اختلاف کو پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ سے باہر مذاکرات اور مفاہمت کی دعوت دیتے ہیں تو دوسری بھی تواتر سے ایسی ہی باتیں سامنے آتی ہیں لیکن عملاً نتیجہ نہیں نکلتا۔ ایسے لگتا ہے کہ ہر فریق مذاکرات اور مفاہمت کی گردان کو سیاسی طور پر بطور ہتھیار استعمال کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ ایسا کرنا ان کے سیاسی مفادات کے فائدے میں ہے۔
اس وقت تو پی ٹی آئی کے پاس سیاسی راستہ موجود نہیں ہے ۔ بلکہ بانی پی ٹی آئی کو تو قومی سلامتی کے لیے ایک بڑے خطرے اور سیکیورٹی رسک کے طور پر پیش کیا جارہا ہے ۔ ایسے ماحول میںکیسے مفاہمت یا مصلحت کی سیاست آگے بڑھ سکتی ہے جب کہ ہر کا اپنا ایجنڈا بھی مفاہمت کی سیاست کے برعکس ہے ۔یہ نہیں کہ پی ٹی آئی سے یا بانی پی ٹی آئی سے غلطیاں نہیں ہوئی ہیں ان کی بہت سے معاملات میں سخت گیر پالیسی رکاوٹ بنی ہے ۔لیکن اس میں کے باوجود ہمیں قومی مفاہمت کی سیاست کی طرف بڑھنا ہے اور حقیقی طور پر سیاسی مسائل کا حل سیاسی حکمت عملیوں کی بنیاد پر چاہتے ہیں تو سب فریقین کو اپنے اپنے سخت گیر موقف میں ایک دوسرے کے لیے سیاسی لچک پیدا کرنا ہوگی اور اپنے اپنے سخت موقف یا شرائط سے دو دو قدم پیچھے ہٹنا ہوگا۔
ضد اور ہٹ دھرمی اور دوغلی سیاست کی بنیاد پر مفاہمت کا عمل کبھی بھی آگے نہیں بڑھ سکے گا اور خود پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی کو بھی اپنے لہجے اور الفاظ میں سخت گیر طرزعمل سے گریز کی پالیسی اختیار کرنا ہوگی۔سیاست میں اپوزیشن کا اہمیت ہوتی ہے اور اپوزیشن کو اداروں کا بھی احترام کرنا ہوتا اور حکومت کی بھی رہنمائی کرنا ہوتی ہے۔ اس لیے اس کا ذمے دار ہونا اتنا ضروری ہوتا جتنا کہ حکومت کا۔لیکن اس وقت طاقت کے کھیل یا حکمت عملی نے پورے سیاسی ماحول کو بند گلی میں ڈال دیا ہے۔ اس سے ہم سب کو باہر نکلنا ہوگا۔
سیاسی قوتوں کی یہ ہی ذمے دار ی ہوتی ہے کہ وہ اپنی سیاسی حکمت عملیوں سے سیاست میں موجود بند دروازوں کو کھولنے کا ہنر رکھتی ہے یا یہ اس کی ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیے۔لیکن جب سیاسی جماعتیں خود ہی پہلے سے بند دروازوں میں ایک اور بڑا تالا لگادیں تو پھر ان تالوں کو کون کھولے گا۔اس لیے اب بھی وقت ہے کہ سیاسی سطح پر موجود قوتیں سیاست اور جمہوریت کی بنیاد پر مفاہمت کا راستہ اختیار کریں ۔