ضمنی انتخاب

اب سیاسی کمیٹی نے فیصلے پر نظر ثانی کرتے ہوئے تمام ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کر دیا ہے


مزمل سہروردی August 26, 2025
[email protected]

تحریک انصاف نے پہلے ضمنی انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔ اب اس فیصلے کو تبدیل کرتے ہوئے ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کر دیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں آہستہ آہستہ تحریک انصاف کو سیاست کی سمجھ آرہی ہے۔ ایک وقت تھا تحریک انصاف کی سیاست ہی بائیکاٹ کی تھی۔ وہ بار بار اسمبلیوں سے استعفیٰ دے دیتی تھی۔ اسمبلیوں کا بائیکاٹ کرتی تھی، اسمبلیوں کی بے توقیری کرتی تھی، اسمبلیوں کو گالیاں نکالتی تھی۔ لیکن اب اسے احساس ہوا ہے کہ اسمبلیوں کی عزت کرنی ہے، یہی جمہوریت ہے۔

آپ کو یاد ہے کہ 2014ء کے دھرنے میں تحریک انصاف نے قومی اسمبلی سے استعفے دے دیے تھے۔ اس نے اسمبلی کے باہر کنٹینر لگا دیا تھا۔ جہاںسے اسمبلیوں اور پارلیمان کو روزانہ گالیاں دی جاتی تھیں، اسمبلیوں کا بائیکاٹ کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد جب بانی تحریک انصاف کے خلاف عدم اعتماد کامیاب ہوئی تب بھی تحریک انصاف نے قومی اسمبلی سے اجتماعی استعفے دیے۔ بعدازاں اپنی ہی پنجاب اور کے پی کی حکومتیں بھی توڑ دیں۔

اس لیے اسمبلیوں سے مستعفیٰ ہونا تحریک انصاف کی سیاسی حکمت عملی کی ایک بڑی کامیاب پالیسی سمجھی جاتی تھی۔تحریک انصاف کے اندر یہ رائے تھی کہ استعفیٰ ایک کامیاب ہتھیار ہے اور اسے بار بار کامیابی سے استعمال کیا گیا ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما فخر سے کہتے تھے کہ ہم نے استعفے دیے ہیں، کوئی منظور کر کے دکھائے۔ وہ دراصل نظام کو چیلنج کر کے یہ ثابت کرتے تھے کہ تحریک انصاف نظام سے مضبوط ہے۔ نظام کو تحریک انصاف کی ضرورت ہے۔ تحریک انصاف نظام کی محتاج نہیں، ہم ہیں تو نظام ہے، ہمارے بغیرنظام کی بھی کوئی حیثیت نہیں۔

لیکن یہ سب تب تک تھا جب تحریک انصاف کو نظام میں اسٹبلشمنٹ کی حمایت حاصل تھی۔ اسٹبلشمنٹ کی حمایت انھیں نظام سے طاقتور بنا دیتی تھی۔ اسی لیے ان کے استعفے قبول نہیں ہوتے تھے۔ ان کے کنٹینر کو کوئی ہاتھ لگانے کے لیے بھی تیار نہیں تھا، کوئی ان کو گرفتار نہیں کر سکتا تھا۔ وہ نظام کو نقصان پہنچائیں یا گالیاں دیں اسٹبلشمنٹ کی حمایت کی وجہ سے انھیں نظام میں ایک خاص مقدس حیثیت حاصل تھی۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں اسٹبلشمنٹ کی حمایت ختم ہونے سے تحریک انصاف آہستہ آہستہ نظام کے تابع ہوتی نظر آرہی ہے۔میری نظر میں یہ اچھی بات ہے۔

اگر دیکھا جائے تو فروری کے انتخابات کے بعد اگر تحریک انصاف اپنی پرانی پالیسی پر گامزن ہوتی تو انتخابی نتائج پر اعتراض کی وجہ سے پارلیمان کا بائیکاٹ کر دیتی۔ جیتی ہوئی سیٹوں سے بھی استعفیٰ دے دیتی۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ تمام تر تحفظات کے باوجود تحریک انصاف کے ممبران نے اسمبلیوں کا حلف لیا۔ کے پی میں حکومت بنائی اور آج تک اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ ورنہ اگر پہلے جیسے حالات ہوتے تو کب کا بائیکاٹ اور استعفیٰ دے دیے جاتے۔ ہم نہیں تو کوئی نہیں کی پالیسی اب نظر نہیں آرہی۔ اب تحریک انصاف کو پارلیمان کی اہمیت کا بھی احساس ہے۔

اسی طرح نو مئی کے مقدمات میں تحریک انصاف کے ممبران کی سزاؤں کے بعد ان کی نا اہلی سامنے آئی ہے۔تحریک انصاف کے بڑے بڑے نام اپنی سیٹوں سے ناا ہل ہو گئے ہیں۔ اس کے بعد بانی تحریک انصاف کی جانب سے سوشل میڈیا پر یہ اعلان سامنے آئے کہ جہاں جہاں تحریک انصاف کے لوگ سزاؤں کی وجہ سے نا اہل ہوئے ہیں وہاں وہاں تحریک انصاف ضمنی انتخاب میں حصہ نہیں لے گی۔ بلکہ ضمنی انتخاب کا بائیکاٹ کیا جائے گا۔

اس فیصلے کے خلاف تحریک انصاف میں بہت مزاحمت سامنے آئی۔ تحریک انصاف کے لوگ بانی تحریک انصاف کے اس فیصلہ کو ماننے کے لیے تیار نہیں تھے۔مزاحمت کو دیکھتے ہوئے بانی فیصلہ پر نظر ثانی پر مجبور ہو گئے۔ اور انھوں نے ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ سیاسی کمیٹی کے سپرد کر دیا۔ یہ تمہید لکھنے کا مطلب یہ ہے کہ بانی تحریک انصاف پہلے جب بائیکاٹ اور استعفوں کے فیصلے کرتے تھے توان پر نظر ثانی کی کسی کی ہمت بھی نہیں ہوتی تھی، ان کا فیصلہ اٹل حیثیت رکھتا تھا۔ لیکن اب وہ جیل میں ہیں۔ ان کے فیصلوں پر نظر ثانی ہوتی ہے۔ لوگ ان سے اختلاف کرنے کی جرات کر رہے ہیں۔

اب سیاسی کمیٹی نے فیصلے پر نظر ثانی کرتے ہوئے تمام ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کر دیا ہے۔ بلکہ وزیر آباد اور میانوالی کے انتخاب کے لیے ٹکٹوں کا بھی اعلان کر دیا ہے۔ اس طرح آپ کہہ سکتے ہیں کہ تحریک انصاف نے نا اہلیوں اور سزاؤں کے باوجود نظام کا حصہ رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وہ پارلیمان اور نظام دونوں کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ضمنی انتخاب کے ٹکٹ نااہل ہونے والے لوگوں کے خاندان کو دیے گئے ہیں۔ ویسے تو تحریک انصاف موروثی سیاست کے خلاف رہی ہے۔ لیکن اب خود ہی نا اہل لوگوں کے خاندانوں کو ٹکٹ جاری کیے جا رہے ہیں۔ اس سے پہلے سنیٹر اعجاز چوہدری کی نا اہلی کے بعد سینیٹ کے لیے بھی ان کی بیوی کو ٹکٹ جاری کیا گیا ہے۔ سینیٹ کے اس انتخاب کا بھی بائیکاٹ کیا جا سکتا تھا۔ لیکن نہیں کیا گیا۔

ایک عمومی رائے یہی ہے کہ ضمنی انتخاب حکومت جیتتی ہے۔ اب تک کے ضمنی انتخابات حکومت نے ہی جیتے ہیں۔ حال ہی میں سمبڑیال کے ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف نے بھر پور حصہ لیا۔ لیکن پاکستان مسلم لیگ (ن) نے یہ انتخاب آسانی سے جیت لیا۔ اسی لیے فواد چوہدری صاحب تو دوبارہ بھی تحریک انصاف کو یہی مشورہ دے رہے ہیں کہ تحریک انصاف کو ضمنی انتخاب لڑنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ تحریک انصاف کے ممبران بائیکاٹ کے حق میں نہیں ہیںَ کوئی بھی اپنا حلقہ خالی چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔

 پاکستان کی تاریخ میں پیپلزپارٹی نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔ جسے آج تک پیپلزپارٹی ایک غلط فیصلہ قرار دیتی ہے۔ اور یہ بتاتی ہے کہ جیت اور ہار سے قطع نظر انتخاب میں حصہ لینا چاہیے۔ ووٹ بینک بھی ساتھ رہتا ہے۔ اگر آپ بائیکاٹ کریں تو ووٹ بینک بھی ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ اس لیے شاید پیپلزپارٹی سے سبق سیکھتے ہوئے تحریک انصاف کے لوگ بائیکاٹ کے حق میں نہیں۔ یہی جمہوریت کا حسن ہے۔ یہ آپ کو نظام سے جوڑتا ہے، اور آپ کو نظام سے طاقتور نہیں نظام کے ماتحت کر دیتا ہے۔

مقبول خبریں