پاکستان کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اس کی معیشت ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ روزانہ اخبارات میں مختلف عالمی اور ملکی اداروں کے سروے شایع ہوتے ہیں جن میں بتایا جاتا ہے کہ پاکستان خطے کی ابھرتی ہوئی معیشتوں میں سے ایک ہے اورکچھ رپورٹس میں تو اسے بہتری کی رفتارکے لحاظ سے دوسرے نمبر پر قرار دیا گیا ہے۔
حکومت کے نمایندے، وزراء اور ترجمان ان اعداد و شمار کو فخر سے بیان کرتے نہیں تھکتے، لیکن جب یہی خوش کن دعوے ایک عام شہری کی زندگی سے جوڑ کر دیکھے جائیں تو ایک تلخ تضاد سامنے آتا ہے۔ ترقی کے یہ اعداد وشمار عوام کے خالی برتنوں میں کیوں نہیں جھلکتے؟
کیا معیشت کی بہتری کا مطلب صرف سرکاری رپورٹوں اور عالمی مالیاتی اداروں کے اشارے ہیں، یا پھر اس کا عکس عوام کی روزمرہ زندگی میں بھی نظر آنا چاہیے؟حقیقت یہ ہے کہ ملک میں مہنگائی نے ہر سمت سے عوام کو جکڑ رکھا ہے۔
حکومت کے بقول افراطِ زر کی شرح میں معمولی کمی آئی ہے، مگر بازار کی گواہی کچھ اور ہے۔ آٹا، جو بنیادی ضرورت ہے، اس کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ گزشتہ دنوں ملک میں آٹے کے بیس کلو تھیلے کی زیادہ سے زیادہ قیمت میں ایک سو روپے اضافہ ریکارڈ کیا گیا اور یہ قیمت بڑھ کر 2400 روپے تک جا پہنچی۔
لاڑکانہ اور سکھر جیسے شہروں میں اگرچہ 20 روپے کی معمولی کمی دیکھنے میں آئی، مگر راولپنڈی میں یہی تھیلا 53 روپے سے زائد مہنگا ہوا۔ کراچی اور بنوں کے شہری ملک بھر میں سب سے زیادہ مہنگا آٹا خریدنے پر مجبور ہیں۔
یہ اعداد و شمارکسی مخالف سیاسی جماعت کے نہیں بلکہ خود حکومتی اداروں کے جاری کردہ ہیں، جو بتاتے ہیں کہ مہنگائی کا بوجھ اب نچلے طبقے کے لیے ناقابلِ برداشت ہو چکا ہے۔ آٹے کے ساتھ ساتھ دیگر اشیائے ضروریہ جیسے سبزیاں، دالیں، چاول، چینی اورگھی بھی عوام کی پہنچ سے باہر ہو چکے ہیں۔
مرغی، انڈے اور دودھ کی قیمتیں روزانہ کی بنیاد پر تبدیل ہوتی ہیں اور عام شہری کے لیے اپنے محدود بجٹ میں گھرکا خرچ چلانا ایک کٹھن مرحلہ بن چکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ادویات کی قیمتوں میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔
جان بچانے والی ادویات، جوکبھی متوسط طبقے کی پہنچ میں تھیں، اب لگژری بن چکی ہیں۔ اسپتالوں میں مفت علاج کی سہولتیں کم ہو رہی ہیں اور نجی اسپتال عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے میں آزاد ہیں۔ ایسے میں عام آدمی کی زندگی مسائل کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ بن گئی ہے۔ مہنگائی کا جن واقعی قابو سے باہر ہو چکا ہے۔
حکمرانوں کے بیانات میں اگرچہ تسلی کے الفاظ ہیں، مگر عملی طور پر صورتِ حال روز بروز بگڑ رہی ہے۔ روپے کی قدر میں کمی، عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں کا اتار چڑھاؤ اور اندرونی بد انتظامی نے معیشت کو نچوڑ کر رکھ دیا ہے۔
حکومت عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ معاہدے کرتی ہے، سبسڈی ختم کرتی ہے اور محصولات بڑھاتی ہے۔ نتیجتاً عوام سے ہر سطح پر مزید قربانیاں مانگی جاتی ہیں۔ ٹیکس دینے والے طبقے پر دباؤ بڑھتا ہے، جب کہ امیر طبقہ بدستور مراعات کا فائدہ اٹھاتا ہے۔
اس طبقاتی تفریق نے پاکستان میں معاشی عدم توازن کو خطرناک حد تک بڑھا دیا ہے، اگر معیشت واقعی ترقی کر رہی ہے تو اس ترقی کا فائدہ کہاں جا رہا ہے؟ یہ سوال ہر شہری کے ذہن میں ابھر رہا ہے۔ ترقی کے دعوے اُس وقت حقیقی معنوں میں معتبر ہوتے ہیں جب ان کے اثرات عام آدمی تک پہنچیں۔
لیکن آج صورتِ حال یہ ہے کہ سرکاری اعداد وشمار خوش کن ہیں مگر عوام کے اعداد و شمار خوفناک غربت کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے، بیروزگاری بڑھ رہی ہے، متوسط طبقہ سکڑ کر نچلے طبقے میں شامل ہو رہا ہے۔
دوسری طرف اشرافیہ کے محلات اور بینک اکاؤنٹس پھل پھول رہے ہیں۔ یہ منظر نامہ کسی بھی ترقی یافتہ معیشت کا نہیں بلکہ غیر متوازن نظام کا عکاس ہے۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق پاکستان میں مہنگائی کی بنیادی وجوہات صرف بیرونی قرضے یا درآمدی مہنگائی نہیں بلکہ داخلی بدانتظامی، ذخیرہ اندوزی، منافع خوری اور غیر مؤثر پالیسی سازی بھی ہیں۔
جب اشیائے خور و نوش کا ذخیرہ چند ہاتھوں میں مرتکز ہو جائے تو مصنوعی قلت پیدا کی جاتی ہے اور قیمتیں بڑھا کر عوام سے ناجائز منافع کمایا جاتا ہے۔ اس عمل میں کئی بااثر افراد شامل ہوتے ہیں جنھیں سیاسی سرپرستی حاصل ہوتی ہے۔
نتیجتاً عام صارف کے لیے بازار میں اشیاء نہ صرف مہنگی ہو جاتی ہیں بلکہ معیار میں بھی کمی آ جاتی ہے۔ حکومت اگر واقعی معیشت کو بہتر بنانا چاہتی ہے تو سب سے پہلے اسے عوامی معیشت کو مستحکم بنانا ہوگا۔ اعداد وشمار کی ترقی سے پیٹ نہیں بھرتے۔
زمینی حقیقت یہ ہے کہ ایک مزدور، ایک استاد، ایک سرکاری ملازم یا ایک چھوٹے دکاندار کی قوتِ خرید کم ہو چکی ہے۔ ان کی آمدنی وہی ہے لیکن اخراجات کئی گنا بڑھ گئے ہیں۔ بجلی کے بل، گیس کے نرخ، ٹرانسپورٹ کے کرائے، تعلیمی اخراجات اور علاج کے بل سب کچھ مہنگا ہو چکا ہے۔
ایسے میں ترقی کا نعرہ عوام کے لیے طنز بن جاتا ہے۔ پاکستان کی معیشت کو پائیدار ترقی کی طرف لے جانے کے لیے چند بنیادی اقدامات ناگزیر ہیں۔ سب سے پہلے، حکومت کو مہنگائی کے اصل اسباب کا تعین کر کے مؤثر حکمتِ عملی اپنانا ہوگی۔ ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے، چاہے وہ کتنے ہی بااثرکیوں نہ ہوں۔
دوسرا، زرعی پیداوار بڑھانے کے لیے کسانوں کو سستی کھاد، معیاری بیج اور بجلی کی فراہمی یقینی بنائی جائے تاکہ خوراک کی قلت نہ پیدا ہو۔ تیسرا، درآمدات پر انحصار کم کر کے مقامی صنعتوں کو فروغ دیا جائے تاکہ روزگار کے مواقع بڑھیں اور زرِ مبادلہ کا ضیاع کم ہو۔
کم آمدنی والے طبقے کے لیے سبسڈی اور ریلیف پیکیج فوری طور پر بحال کیے جائیں۔ زرعی شعبے کو ترجیحی بنیادوں پر سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ خوراک کی قیمتیں قابو میں رہیں۔
عوامی فلاحی منصوبوں میں شفافیت لائی جائے اور ترقی کے ثمرات نچلے طبقے تک پہنچائے جائیں۔ یہی وہ اقدامات ہیں جو پاکستان کی معیشت کو محض اعداد وشمار کی ترقی سے نکال کر حقیقی خوشحالی کی طرف لے جا سکتے ہیں۔