لافانی زندگی کا تصور انسان کےلیے ہمیشہ سے بہت مسحور کن رہا ہے لیکن حقیقت میں یہ انسان کےلیے سراب یا عذاب ہی رہا۔
سب نے بچپن کی کہانیوں میں ’آب حیات‘ کا بہت ذکر پڑھا ہوگا۔ موجودہ دور میں جب مصنوعی ذہانت سے اس کے بارے میں پوچھا تو اس کا جواب تھا کہ ’’آب حیات ایک روایتی پانی ہے جو پینے والے کو لافانی عمر دیتا ہے۔ یہ اسلامی اور دیگر اساطیر میں پایا جاتا ہے۔ اس کی نسبت حضرت خضر علیہ السلام اور حضرت الیاس علیہ السلام سے کی جاتی ہے کہ جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے یہ پانی پی کر ہمیشہ کی زندگی پائی ہے‘‘۔
جب کوئی فرد اپنی طاقت کے انتہائی عروج پر ہوتا ہے تو اس شخص کی ان دونوں میں سے ایک برگزیدہ ہستی سے یا تو بالمشافہ ملاقات ہوتی ہے یا خواب میں زیارت ہوتی ہے۔ اس شخصیت کے طاقت سے ہٹنے یا بیرون ملک جانے کے بعد یہ سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے جو آپ کو سارے واقعے کی اصل حقیقت بتا دیتا ہے۔
زندگی کی اصل خوبصورتی تاحیات رہنے میں نہیں بلکہ موت میں پوشیدہ ہے۔
ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا
نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا
غالب نہ صرف خود یہ بات سمجھ گئے بلکہ دوسروں کو سمجھانے کےلیے لکھ بھی گئے۔ اگر کوئی سبق لینا چاہے تو۔ لیکن انسان اب بھی اس طفلانہ روش پر قائم ہے کہ عہدہ ہو یا زندگی، اس پر وہ تاحیات رہنا چاہتا ہے۔ حالانکہ تجربے سے ثابت ہے کہ ایسی خواہشات اپنے انجام تک پہنچتی نہیں ہے بلکہ غیر فطری انداز میں پہنچائی جاتی ہے۔
انسان کو اس کا پسندیدہ ترین کھانا بھی چند دن تک لگاتار پیش کیا جائے تو انسان کی اس کھانے سے رغبت ختم ہوجاتی ہے اور تبدیلی چاہتا ہے۔ بنی اسرائیل نے بھی من و سلویٰ کے بدلے سبزیاں مانگی تھیں۔
انسان اگر سمجھنا چاہے تو ہمیشہ رہنا صرف اللہ کا وصف ہے جو اسی کے ساتھ اچھا لگتا ہے، ورنہ انسانوں میں تاحیات کا مطلب تو رک جانا ہے جو اپنی ذات میں خود ایک موت ہے۔ قرآن میں ہے کہ انسانی تاریخ کا پہلا استثنیٰ کس نے مانگا تھا اور کیوں مانگا تھا اور اس کے انجام کے بارے میں بھی کوئی ابہام نہیں ہے۔ ورنہ انسان تو اپنے ہر عمل کےلیے جوابدہ ہے، چاہے وہ جواب انسان دنیا کی عدالت میں دے یا دنیا کو بنانے والے کی عدالت میں دے۔ استثنیٰ اس کے پاس کہیں بھی نہیں ہے۔
آخر میں حسب روایت ایک کہانی اور اختتام۔ ایک بادشاہ کو مرنے کے بعد اپنے اعمال کے حساب کتاب سے بہت ڈر لگتا تھا۔ جب اس کا آخری وقت قریب آیا تو اس نے اعلان کیا کہ جو کوئی بھی اس کی جگہ پہلی رات اس کی قبر میں گزارے گا وہ اپنی سلطنت اس کے حوالے کردے گا۔ اس کی سلطنت کا کوئی بھی شخص اس کےلیے تیار نہ ہوا۔ آخرکار اس کے وزیر نے ایک لکڑہارے کو تیار کیا کہ جس کا کل اثاثہ ایک گدھا تھا۔ لکڑہارے نے بھی سوچا کہ ایک گدھے کی صورت میں میرا کیا حساب ہوگا اور تیار ہوگیا۔ جب بادشاہ کا انتقال ہوا تو اس لکڑہارے کو اس کی قبر میں لٹا دیا۔ فرشتے جب حساب کتاب کےلیے آئے تو ان کے پاس بڑی لمبی چوڑی فرد جرم تھی کہ فلاں دن تم نے گدھے کو کھانا نہیں دیا یا دیر سے دیا یا کم دیا اور فلاں دن تم نے اس پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالا وغیرہ وغیرہ۔ غرضیکہ وہ غریب ساری رات حساب دیتا رہا۔
دنیاوی لحاظ سے تو وہ ایک رات تھی لیکن قبر میں بہت طویل محسوس ہوئی۔ بالآخر صبح ہوئی اور لوگوں نے قبر کھول کر اس کو نکالا تاکہ اس کو بادشاہ بنایا جائے لیکن لکڑہارا قبر سے نکل کر بھاگنے لگا۔ لوگوں نے پوچھا کہ کیا تمھیں بادشاہ نہیں بننا؟ اس پر لکڑہارے نے کہا کہ ساری رات میں ایک گدھے کا حساب نہیں دے سکا پورے ملک کا حساب کیسے دوں گا؟
اس کہانی میں ہر حکمران اور ہر استثنیٰ لینے والوں کےلیے سبق ہے اگر کوئی لینا چاہے، ورنہ روای نے تو چین ہی چین لکھنا ہے کیونکہ اس کو ہر مہینے اسی کام کی تنخواہ ملتی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔