مائنس کا غیر حقیقی فارمولا

یہ سو فی صد حقیقت ہے کہ بانی کا سوشل میڈیا پی ٹی آئی کی نہیں بلکہ اپنے بانی کی ترجمانی کرتا آ رہا ہے اور بانی کی زبان بول رہا ہے


محمد سعید آرائیں December 16, 2025
[email protected]

مسلم لیگ (ن) کے بعض رہنماؤں کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی والے خود اپنے بانی کو مائنس کرنا چاہتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے ایک سینیٹر کا کہنا ہے کہ حکومت میں موجود لوگوں نے ملک کو چالیس برسوں میں تباہ کر دیا ہے ہماری جماعت نے بحیثیت ادارہ فوج کے خلاف کبھی بات نہیں کی۔ کسی سیاسی جماعت سے اس کا انتخابی نشان چھین لیا جائے تو وہ ختم نہیں ہو جاتی۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے تسلیم نہ کیے جانے والے غیر قانونی چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ ایک مائنس تو سب مائنس ہوں گے۔

اداروں کے ساتھ محاذ آرائی خطرناک ہوگی ملک انتشار کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ گوہر خان نے مزید کہا کہ بانی پی ٹی آئی ایک بڑی جماعت کے لیڈر ہیں جو کبھی مائنس نہیں ہو سکتے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ ملکی اداروں کے خلاف بولنے والوں کو سیاست کا حق نہیں ہے، پی ٹی آئی کا کوئی مستقبل نہیں مگر ہر سیاسی جماعت کو آئین و قانون کے مطابق سیاست کا حق ہے مگر سیاست کی آڑ میں انتشار نہیں ہونا چاہیے۔

پاک فوج کے ترجمان نے بھی بانی پی ٹی آئی کے بیانیے پر تنقید کی ہے پی ٹی آئی پر کوئی تنقید نہیں کی بلکہ پاک فوج تو کے پی کے وزیر اعلیٰ سے بھی اچھی توقعات رکھتی ہے اور ان کی حکومت کے بھی خلاف نہیں ہے مگر پی ٹی آئی کے رہنما یہ حقائق تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ ان کے بانی مسلسل ریاستی اداروں پر غلط تنقید کرتے آ رہے ہیں اور پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا بھی الزام تراشی اور تنقید کرتا آ رہا ہے جس سے پی ٹی آئی نے کبھی لاتعلقی کا اعلان نہیں کیا کیونکہ پی ٹی آئی کے رہنماؤں کو پتا ہے کہ پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا پی ٹی آئی نہیں، اس کے بانی کی ہدایت پر چلتا ہے۔

یہ وہی سوشل میڈیا ہے جس کو بانی اپنی حکومت کے پریس ترجمانوں اور سرکاری محکمہ اطلاعات و نشریات پر ترجیح دیتے تھے اور آئے دن سوشل میڈیا چلانے والوں کے ساتھ اجلاس منعقد کرکے انھیں ہدایات دیتے تھے اور ان کا سوشل میڈیا پارٹی کی نہیں بلکہ بانی کی سربراہی میں چلتا تھا جس کے ذمے داروں کو تنخواہیں اور مراعات وفاق، پنجاب اور کے پی حکومتیں دیا کرتی تھیں اور کے پی میں پی ٹی آئی حکومت ختم ہونے کے بعد بھی نگراں حکومت میں پچیس پچیس ہزار روپے ماہانہ تنخواہ دی جاتی رہی تھی۔

بانی نے سرکاری وسائل سے اپنے سوشل میڈیا کو اس قدر مضبوط و مستحکم کر دیا تھا ان کی حکومت جانے کے بعد بھی بانی کی ہدایت پر اندرون و بیرون ملک آج بھی آپریٹ ہو رہا ہے اور حکومت اور دیگر سیاسی پارٹیاں حیران ہیں کہ جب بانی دو سال سے جیل میں ہے تو بانی کے اداروں کے خلاف زہریلے بیانات بانی کے ٹویٹر اور سوشل میڈیا پر کہاں سے آ رہے ہیں۔ بانی کے قید ہونے کی وجہ سے بانی سے زیادہ ملاقاتیں ان کی بہنوں، وکیلوں اور پارٹی رہنماؤں کی ہوتی رہی ہیں جو باہر آ کر میڈیا کو تفصیلات بتاتے تھے مگر چار ہفتوں تک بانی سے کسی کی ملاقات نہیں ہونے دی گئی مگر اس کے باوجود پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا پر بانی کے حوالے سے جو کچھ چل رہا ہے وہ اسے کہاں سے فراہم ہو رہا ہے۔

یہ سو فی صد حقیقت ہے کہ بانی کا سوشل میڈیا پی ٹی آئی کی نہیں بلکہ اپنے بانی کی ترجمانی کرتا آ رہا ہے اور بانی کی زبان بول رہا ہے جس کے متعلق چیئرمین پی ٹی آئی و دیگر رہنما کہہ چکے ہیں کہ وہ ان کے کنٹرول میں نہیں ہے اور اس کے ذریعے ملکی اداروں سے متعلق جو کچھ چل رہا ہے وہ پی ٹی آئی کی پالیسی نہیں۔ یہ بھی سو فی صد حقیقت ہے کہ سولہ ماہ تک قائم رہنے والی پی ڈی ایم کی حکومت 6 ماہ کی نگراں حکومت اور (ن) لیگ کی موجودہ حکومت پونے دو سالوں میں بانی کی خودساختہ مقبولیت کا توڑ کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہیں مگر یہ حکومتیں پی ٹی آئی سوشل میڈیا کی اصلیت کا سراغ لگا سکیں نہ اس کے جھوٹے پروپیگنڈے کو روک سکی ہیں۔

اداروں کو شکایت پی ٹی آئی سے نہیں اس کے جیل میں قید ہٹ دھرم بانی سے ہے جو اپنے بیانیوں سے اپنی پارٹی کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں اور اداروں کے خلاف مسلسل الزام تراشی میں مصروف ہیں اور باز نہیں آ رہے اور پارٹی بھی بانی کے سامنے اس لیے بے بس ہے کہ کوئی رہنما بانی کو حقائق بتانے کی جرأت نہیں رکھتا کیونکہ حقائق بتانے پر بانی مذکورہ رہنما کو فارغ کرنے میں دیر نہیں کرتے۔ بیرسٹر گوہر نے تو سب کچھ بانی کو قرار دیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بانی کو مائنس کرنے سے پی ٹی آئی مائنس ہو جائے گی۔ دوسری پارٹیوں میں متبادل قیادت موجود ہے مگر بانی نے اپنی پارٹی میں اپنے متبادل کے طور پر کسی کو ابھرنے ہی نہیں دیا اور انھوں نے پارٹی میں اپنی ذاتی آمریت قائم کر رکھی ہے۔ ان کے آگے کسی کو بولنے کی جرأت نہیں۔

بانی اور پارٹی کے بقول ان کی بہنوں کا پارٹی اور پارٹی پالیسی سے کوئی تعلق نہیں مگر تینوں بہنیں مل کر مکمل سیاست کرکے اپنی شہرت بڑھا رہی ہیں اور جیل سے باہر رہ کر پارٹی بھی اپنی مرضی سے چلا رہی ہیں۔بانی کی اہلیہ بھی جیل میں ہیں اس لیے بہنوں کا پارٹی میں عمل دخل اس قدر بڑھا ہوا ہے کہ علیمہ خان پر تنقید کے باعث علی امین گنڈا پور کو ہٹانے میں دیر نہیں کی گئی جو بانی کے بے حد وفادار تھے مگر بانی بہن کی خاطر اپنے ذاتی وفاداروں کو اہمیت نہیں دیتے جو اقربا پروری ہے۔

ملک کی سیاست سے بھرپور سرکاری کوشش سے اب تک تو کوئی پارٹی سربراہ مائنس نہیں کیا جا سکا کیونکہ مائنس کرنے کا اختیار حکومت کو نہیں بلکہ عوام کے پاس ہے اور بانی سے اختلاف رکھنے والے مفاد پرست اس خوش فہمی میں ہے کہ بانی پھر اقتدار میں آ کر انھیں نوازیں گے مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ وفاداری کا صلہ دینا بانی کا اصول ہی نہیں ہے۔ پی ٹی آئی کے موجودہ چیئرمین کی پارٹی میں جو ویلیو ہے اس کا سب کو پتا ہے۔ بانی کو مائنس کیے جانے سے پی ٹی آئی بکھر جائے گی جو ابھی سے گروپ بندی کا شکار ہے اگر مائنس کا فارمولا اپنایا گیا تو غیر حقیقی تو ہوگا مگر شاید پی ٹی آئی بہ مشکل ہی اپنا موجودہ وجود برقرار رکھ سکے۔

مقبول خبریں