افغان علماء کا فتویٰ اور امن

پاک افعان کشیدگی کی بنیادی وجہ کالعدم تحریک طالبان اور اس کے حلیف گروہوں کی پاکستان میں دراندازی ہے



پاک افغان جاری کشیدگی امت مسلمہ کے ہر فرد کے لیے تکلیف اور صدمے کا باعث، مگر یہ پاکستانی اورافغانستان کے عوام کے لیے اذیت ناک اور ناقابل برداشت ہے، سخت جملوں سے شروع ہونے والا سلسلہ ایک دوسرے پر حملوں تک جاپہنچا۔

سعودی عرب، ترکیہ، قطر، ایران کے علاوہ چین اور روس جیسے غیر مسلم دوست ممالک نے کشیدگی کم کرنے اور حالات کو نارمل سطح پر لانے کے لیے کوششیں کیں مگر بارآور ثابت نہ ہو سکیں، کئی بار مذاکرات کی ناکامی کے بعد مایوسی کے بادل چھائے اور بارڈر کے دونوں طرف ایک دوسرے کے ساتھ کلمہ طیبہ کے لڑی میں پروئے اور خونی رشتوں میں بندھے پاک افغان عوام کے چہرے اس مایوسی کی وجہ سے مرجھا گئے تھے۔ پاک افعان کشیدگی کی بنیادی وجہ کالعدم تحریک طالبان اور اس کے حلیف گروہوں کی پاکستان میں دراندازی ہے۔

پاکستان کا موقف ہے کہ ان دہشتگرد تنظیموں کی افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں ہیں اور یہ وہاں سے پاکستان کے اندر دراندازی کرتے ہیں، اس لیے یہ افغانستان کی طالبان حکومت کی ذمے داری ہے کہ ان کو روکیں اور کسی کو بھی افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف پراکسی وار یا دہشت گردی کے لیے استعمال کی اجازت نہ دیں۔

یہ دہشتگرد گروہ سرحد پار کرکے پاکستانی سکیورٹی فورسز، بے گناہ شہریوں، سرکاری و نجی املاک، مدارس، مساجد، علماء اور سیاسی قائدین پر خود کش حملے کرتے ہیں۔ مذاکراتی عمل کے دوران پاکستان کا موقف رہا کہ افغانستان کے امیر ملاہیبت اللہ اخونذادہ ان دہشتگرد گروہوں کے خلاف فتویٰ جاری کریں اور پاکستان پر ان حملوں کو حرام قرار دیں۔ جس پر افغانستان کی عبوری حکومت کا موقف تھا کہ کسی لڑائی کو جائز یا ناجائز قرار دینا ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ کا اختیار ہے نہ وہ شرعی فتوے دینے کے مجاز ہیں، یہ استحقاق افغانستان کے دارالافتاء اور افغان فتویٰ کونسل کا ہے جو اپنے فیصلوں میں خود مختار اور قرآن و سنت اور شریعت مطہرہ کے مطابق رائے قائم کرکے شرعی فتوے دینے کا مجاز ہے۔

مذاکراتی عمل میں پاکستانی وفد کو بتایا گیا یہ فتویٰ حاصل کرنے کے لیے امارت اسلامیہ افغانستان نے دارالافتاء اور فتویٰ کونسل کو ایک تحریری درخواست بھیجی ہے، اس کے جواب کا انتظار کیا جارہا ہے۔ یہ ایک انتہائی حساس نوعیت کا فتویٰ اور پورے معاملے کو حکمت کے ساتھ لے کر چلنے کا متقاضی ہے کیونکہ اسی کی بنیاد پر مولانا ہیبت اللہ اخونزادہ کا امر جاری ہوگا تو وہ کارگر اور موثر ہوگا اور یہی پاکستان کا مطالبہ تھا جو مذاکرات کی کامیابی میں بنیادی رکاوٹ بنا رہا۔ گذشتہ ہفتے کابل میں ایک ہزار سے زائد جید علماء کرام اور مشائخ کے اجتماع کے بعد جو خبر آئی، میں ذاتی طور پر اسے تازہ ہوا کا جھونکا، امید کی کرن اور امن کا ضامن سمجھتا ہوں۔ ناامیدی کے ماحول میں اس مثبت اقدام نے مجھ جیسے امت مسلمہ کے وحدت کے علمبرداروں کو ایک بار پھر امید کا دامن تھامنے پر آمادہ کیا۔

اس خبر نے ایک طرف محب وطن پاکستانیوں اور افغانیوں کے مرجھائے ہوئے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیر دیں تو دوسری طرف پاک افعان دشمنوں کے چہروں پر راکھ مل دی۔ یہ خبر پاکستان اور افعانستان کے ہر خیرخواہ اور پوری امت مسلمہ کے لیے نیک شگون اور خوشی کا باعث ہے۔ کابل یونیورسٹی میں ایک ہزار سے زائد جید افغان علماء کا ایک بڑا اجتماع منعقد ہوا ہے، جس میں ملک کے 34 صوبوں سے جید علماء و مشائخ اور مفتیان کرام کو مدعو کیا گیا تھا۔ علماء کا یہ اجتماع درحقیقت امیر ہیبت اللہ اخوندزادہ کی ہدایت پر ہوا اور اس کے انتظام و انصرام کے لیے افغانستان کی حکومت کی جانب سے بڑی تگ و دو کی گئی۔ افغانستان کی حکومت علماء پر مشتمل ہے، اس لیے اس اجتماع میں کئی وزراء اور اہم حکومتی شخصیات بھی شامل تھیں۔

ان شخصیات میں افغان وزیراعظم ملا حسن اخوند بھی شریک ہوئے۔ اس لیے یہ کوئی عام اور دکھاوے والا اجتماع نہیں بلکہ درد دل سے پاک افغان کشیدگی کے علاوہ خطے کے دوسرے ہمسایہ ممالک کے ساتھ بھی بہتر تعلقات رکھنے کے لیے افغانستان کا ایک عملی اقدام تھا۔ ملک بھر کے 34 صوبوں سے ایک ہزار سے زائد علماء و مشائخ کے اس بڑے اجتماع میں جو متفقہ اعلامیہ جاری کیا گیا اس کی حیثیت فتویٰ سے بھی زیادہ ہے۔ جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ’’افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی کے لیے استعمال نہیں ہوگی۔کسی دوسرے ملک کے خلاف جنگ کے لیے افغان سرزمین سے باہر جانے والے افراد کو ’’امیر کی حکم عدولی‘‘ کرنے والا قرار دیا گیا ہے۔ ایسے افراد کو ’’باغی اور مخالف‘‘ تصور کیا جائے گا۔

ان کے خلاف قانونی اقدامات اٹھانے اور فوری سزا دینے کا حکم دیا گیا ہے‘‘۔ اس متفقہ فتویٰ کی تصدیق افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ان الفاظ میں کی کہ کسی بھی افغان شہری کو دوسرے ممالک میں عسکری سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی جائے گی، اور اس سلسلے میں علماء کرام نے واضح شرعی رہنمائی فراہم کر دی ہے۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ افغانستان کے ممتاز علماء کرام نے پانچ اہم مسائل پر مشترکہ فتویٰ جاری کیا ہے جن کی بنیاد پر افغانستان کی موجودہ حکومت اپنی پالیسیاں مرتب کر رہی ہے۔ انھوں نے دوٹوک الفاظ میں یہ بات واضح کردی کہ افغانستان کی حکومت دیگر ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں چاہتی اور نہ ہی کسی کو افغان سرزمین کو بیرونی ممالک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ اس پالیسی پر سختی سے عمل کیا جائے گا۔ جو افراد اس حکم کی خلاف ورزی کریں گے، ان کے خلاف شرعی اور قانونی کارروائی کی جائے گی۔

افغان علماء کا یہ متفقہ فتویٰ افغانستان کی جانب سے ایک مثبت اور درست سمت میں بڑا قدم ہے۔ ہم گزشتہ کئی کالمز میں پاکستان اور افغانستان کو یہی مشورہ دے رہے کہ واحد حل علماء ڈپلومیسی ہے شکر الحمدللہ یہ اجتماع علماء ڈپلومیسی کی ابتداء، سنگ میل اور مضبوط بنیاد بن گئی ہے۔ پاک افعان کشیدگی کو دوستی میں بدلنے کے لیے علماء ڈپلومیسی سے بہترین کوئی راستہ نہیں۔ گو کہ پاکستان کی جانب سے ابھی تک اس متفقہ فتویٰ پر محتاط انداز میں ردعمل دیا گیا ہے کیونکہ اس کی روشنی میں پاکستان تحریری طور پر  ملاہیبت اللہ کا امر اور گارنٹی مانگے گا، لیکن یہ کوئی بڑی بات نہیں کیونکہ یہ اجتماع ان کی ہدایت پر ہوا، اس لیے فتویٰ اور اعلامیہ اب تک ہونے والا سب سے بڑی پیش رفت ہے۔

میرا مشورہ ہے کہ اب ریاست پاکستان جتنا جلدی ہوسکے ان پاکستانی علماء کرام اور مشائخ کا اجلاس بلائیں جن کا افغانستان میں اثر و رسوخ ہے۔ اس سلسلے میں متفقہ فتویٰ لینے کے بعد افغانستان کے علماء کرام اور پاکستانی علماء کرام کا مشترکہ اجلاس بلا کر اسی اجلاس کے متفقہ اعلامیہ اور فتویٰ کی بنیاد پر فیصلہ کریں اور دونوں ممالک اس پر عمل کریں۔ اسلام کے نام پر بندوق اٹھانے والوں کا راستہ روکنے اور عوام الناس پر ان دہشتگردوں کی اصلیت آشکار کرنے کا واحد ذریعہ قرآن و سنت کے مطابق علماء کرام کا متفقہ شرعی فتویٰ ہے۔ اگر مشترکہ اجلاس سے پہلے افغانستان کے جید افغان علماء کا ایک وفد پاکستان کے جید علماء کرام کے پاس آکر ان کے سامنے اپنے دئے گئے فتویٰ کی روشنی میں ہونے والے اقدامات اور پالیسیوں سے متعلق تفصیلات رکھیں تو معاملات مزید آسان اور سہل ہوجائیں گے۔ اگر ایک بار پاکستانی اور افغانی علماء کرام کا مشترکہ اور متفقہ فتویٰ آگیا تو انشاء اللہ دونوں ملکوں کے درمیان ایک بار پھر اخوت، محبت اور بھائی چارے پر مبنی تعلقات بحال، دہشتگردوں کے غبارے سے ہوا نکل جائے گی اور ہندوستان کو ایک بار پھر افعانستان سے بھاگنا پڑے گا۔

مقبول خبریں