طلبہ رہنما عثمان ہادی کی ہلاکت کے بعد ڈھاکا سمیت متعدد شہروں میں ہنگامے پھوٹ پڑے

حملہ آور بھارت سے آئے تھے جو واردات کے بعد واپس بھارت فرار ہو گئے ہیں، تفتیشی حکام


ویب ڈیسک December 19, 2025

سنگاپور: بنگلا دیش کے 2024 کے طلبہ احتجاج کے رہنما شریف عثمان ہادی، جنہیں فائرنگ کے بعد علاج کے لیے سنگاپور منتقل کیا گیا تھا، دورانِ علاج انتقال کر گئے۔

سنگاپور کی وزارتِ خارجہ نے جاری بیان میں کہا کہ ڈاکٹروں کی بھرپور کوششوں کے باوجود ہادی زخموں کے اثرات سے نہ بچ سکے۔

بنگلا دیش کے روزنامہ اخبار کے مطابق ہادی جنہیں آئندہ فروری میں ہونے والے قومی انتخابات میں ڈھاکا-8 حلقے کے ممکنہ امیدوار کے طور پر بھی دیکھا جا رہا تھا، 12 دسمبر کو دارالحکومت ڈھاکا میں آٹو رکشا میں سفر کے دوران سر پر فائرنگ کا نشانہ بنے۔

موٹرسائیکل پر سوار حملہ آور نے انہیں نشانہ بنایا۔ ہادی کو فوری طور پر ڈھاکا میڈیکل کالج اسپتال منتقل کیا گیا۔

مقامی ڈاکٹروں نے بتایا کہ ہادی کا دماغ شدید متاثر ہوا تھا، جس کے بعد انہیں مزید علاج کے لیے 15 دسمبر کو سنگاپور جنرل ہسپتال کے نیوروسرجیکل آئی سی یو میں داخل کیا گیا۔

یاد رہے کہ ہادی 32 سال کے تھے اور طلبہ احتجاجی گروپ انقلاب منچہ کے سینئر رہنما تھے۔ وہ بھارت کے سخت ناقد بھی رہے جو سابق وزیرِاعظم شیخ حسینہ کے قریبی اتحادی رہ چکے ہیں، اور حسینہ اب خود ساختہ جلاوطنی میں ہیں۔

انقلاب منچہ نے گزشتہ رات کو فیس بک پر اعلان کیا کہ ہندوستانی بالادستی کے خلاف جدوجہد میں اللہ نے عظیم انقلابی عثمان ہادی کو شہید قبول کر لیا۔

پولیس نے ہادی پر فائرنگ کرنے والے حملہ آوروں کی تلاش شروع کر دی ہے۔ دو مرکزی مشتبہ افراد کی تصاویر جاری کر دی گئی ہیں اور ان کی گرفتاری کے لیے پانچ لاکھ ٹکا (تقریباً 42,000 امریکی ڈالر) انعام کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔

بعض غیر ملکی میڈیا کے مطابق بنگلا دیشی حکام نے عثمان ہادی کے قتل میں ملوث مرکزی ملزم کی شناخت فیصل کریم مسعود کے نام سے کی ہے، جبکہ اس کے ساتھی موٹرسائیکل چلانے والے شخص کی شناخت عالمگیر شیخ کے طور پر کی گئی ہے۔

تفتیشی حکام کا کہنا ہے کہ دونوں مشتبہ افراد بھارت کی سرحد سے غیرقانونی طور پر بنگلا دیش میں داخل ہوئے تھے اور واردات کے بعد واپس بھارت فرار ہو گئے۔

بنگلا دیش کے ایک اخبار کے مطابق اب تک پولیس اور بارڈر گارڈز نے اس واقعے میں ملوث کم از کم 20 افراد کو گرفتار کیا ہے تاہم قتل کی تحقیقات جاری ہیں۔

مقامی میڈیا کے مطابق ہادی کی ہلاکت کی خبر کے فوراً بعد ڈھاکا اور ملک کے دیگر حصوں میں سیکڑوں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے۔

ایک گروپ ڈھاکا کے کرواں بازار میں ملک کے بڑے بنگالی زبان والے اخبار کے ہیڈ آفس کے باہر جمع ہوا اور بعد میں عمارت میں داخل ہو گیا اور وہاں توڑ پھوڑ کی۔ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق مظاہرین نے سرکاری میڈیا کے دفاتر کو بھی نذرآتش کرنے کی کوشش کی۔

چند سو گز دور مظاہرین نے ایک اور میڈیا سینٹر کے دفتر میں داخل ہو کر عمارت کو آگ لگا دی جس کی تصاویر اور ویڈیوز کالر کانٹھا سمیت کئی مقامی میڈیا نے جاری کیں۔

85 سالہ نوبل امن انعام یافتہ اور فروری 12 کے انتخابات تک بنگلا دیش کے سربراہ محمد یونس نے ہفتے کے روز کہا کہ ہادی پر فائرنگ ایک منصوبہ بند حملہ تھا، جسے ایک طاقتور نیٹ ورک نے انجام دیا۔ انہوں نے کسی نام کا ذکر نہیں کیا، لیکن کہا کہ سازشیوں کا مقصد انتخابات کو متاثر کرنا ہے۔

یونس نے مزید کہا کہ یہ حملہ علامتی نوعیت کا تھا جس کا مقصد اپنی طاقت کا مظاہرہ اور پورے انتخابی عمل کو سبوتاژ کرنا تھا۔

مقبول خبریں