آئین و قانون کی حکمرانی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ معاشرے کا کمزور ترین طبقہ بھی خود کو طاقت ور کے سامنے بے بس محسوس نہ کرے۔ اسے یقین ہو کہ اس کے ساتھ کوئی زیادتی یا ناانصافی ہوتی ہے تو مخالف فریق چاہے کتنا ہی بااختیار ہو، وہ عدالت کے سامنے جواب دہ ہو گا اور مظلوم کو انصاف ملے گا۔ کسی بھی ریاست میں عدالتیں اسی اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے کام کرتی ہیں۔
بسا اوقات ریاست اور معاشرے کا ڈھانچہ اتنا بگڑ جاتا ہے کہ عدالتوں کے سامنے یہ اصل مقصد نظرانداز ہو جاتا ہے، یا ناقص اور کمزور نظام انصاف کی وجہ سے عدالتیں چاہتے ہوئے بھی مظلوم کو انصاف فراہم نہیں کر سکتیں۔ اس کمزوری کو ختم کرنے کے لیے جہاں نظام انصاف میں اصلاحات ضروری ہیں، وہاں عدالتوں کو عوامی مفاد میں ایسے دلیرانہ فیصلے دینے چاہئیں جس سے یہ عزم سامنے آئے کہ وہ شہریوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہر ممکن کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس سے اعلیٰ عدلیہ کو نہ صرف عوام کا بھرپور اعتماد ملے گا، بلکہ بلاتفریق انصاف کی فراہمی سے حکومتی ادارے بھی عوام کے مفاد میں فیصلے کریں گے۔
اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے کس طرح شہریوں کی زندگی میں بہتری لا سکتے ہیں، اس کی حالیہ مثال سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ ہے، جس میں عدالت عظمیٰ نے قرار دیا ہے کہ اگر سرکاری فرائض کی ادائیگی کے لیے بہت ناگزیز نہ ہو تو حکومت کو ’ویڈلاک پالیسی‘ کے تحت سرکاری ملازمین کو سہولت دینی چاہیے کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ رہتے ہوئے اپنی ملازمت کر سکیں۔ یقیناً اس فیصلے کے ثمرات ان ہزاروں بلکہ لاکھوں سرکاری ملازمین کو ملیں گے، جن کی سہولت دیکھے بغیر ان کا تبادلہ محض ایک روٹین کے طور پر دور دراز کے علاقوں میں کر دیا جاتا ہے۔
درخواست گزار مبشر اقبال ظفر بطور اسسٹنٹ ہیلتھ انسپکٹر ضلع خانیوال کے قصبہ عبدالحکیم میں اپنے فرائض انجام دے رہے تھے کہ محکمے نے معمول کی کارروائی کے مطابق 8 فروری 2021ء کو ان کا تبادلہ ضلع بہاولپور کے علاقے ڈیرہ نواب صاحب میں کر دیا۔ ان کی اہلیہ بھی عبدالحکیم میں ایک سرکاری اسکول ٹیچر ہیں۔ سپریم کورٹ سے رجوع کرنے سے پہلے درخواست گزار نے ہر متعلقہ پلیٹ فارم میں درخواست دی کہ وہ اور اس کی اہلیہ دونوں بیمار ہیں، اور ان کے دو کم عمر بچے ہیں۔
اس لیے اس کو اپنے ہی شہر میں ملازمت کرنے کی اجازت دی جائے یا پھر تبادلہ ضروری ہے تو کسی قریبی اسٹیشن میں تعینات کر دیا جائے، لیکن اس کی کہیں شنوائی نہیں ہوئی۔ سپریم کورٹ میں یہ کیس جسٹس منیب اختر اور جسٹس عائشہ ملک کے دو رکنی بنچ کے سامنے پیش ہوا۔ اس کیس میں سپریم کورٹ نے ان دو سوالات پر غور کیا: (1) کیا درخواست گزار اس بات کا حق رکھتا ہے کہ وہ عبدالحکیم میں ہی اپنی خدمات جاری رکھے جہاں اس کی اہلیہ تعینات ہے (2) ویڈلاک پالیسی کے عمومی دائرہ کار اور اس کے نفاذ کے متعلق سپریم کورٹ کی رائے کیا ہے؟
سپریم کورٹ نے چند دن قبل 4 دسمبر کو درخواست گزار کے حق میں تاریخی فیصلہ سنایا، اور اس کی اپیل منظور کرتے ہوئے فیڈرل سروس ٹربیونل کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔ نو صفحات پر مشتمل یہ فیصلہ جسٹس عائشہ ملک نے تحریر کیا۔ انہوں نے اپنے فیصلے میں لکھا: ’’یہ پالیسی کوئی مطلق حق پیدا نہیں کرتی، تاہم یہ ایک جائز توقع قائم کرتی ہے کہ شادی شدہ سرکاری ملازمین کو ایک ہی مقام پر تعینات کیا جا سکتا ہے، جس سے خاندان اور ادارہ نکاح کا تحفظ ممکن ہو۔ پالیسی کا تقاضا یہ ہے کہ ایک ہی اسٹیشن پر تعینات شریکِ حیات کو عوامی مفاد کی کسی نہایت مجبوری کے بغیر پریشان نہ کیا جائے، اور یہ کہ قابلِ اجازت حدود سے زائد توسیع کی درخواست پر بھی عوامی مفاد میں ہمدردانہ غور کیا جا سکتا ہے۔‘‘
فیصلے میں مزید کہا گیا، ’’اس مقدمے میں ہم نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے بار بار یہ پوچھا کہ درخواست گزار اور اس کی اہلیہ کو درپیش طبی مسائل اور پالیسی کے تقاضوں کے باوجود، درخواست گزار کو عبدالحکیم (ضلع خانیوال) میں خدمات جاری رکھنے کی اجازت کیوں نہیں دی جا سکتی؟ بدقسمتی سے اس کا کوئی قابلِ قبول جواز پیش نہیں کیا گیا، کیونکہ تبادلہ حکم محض معمول کے طریقے سے جاری کیا گیا اور اس کی کوئی خصوصی وجہ بیان نہیں کی گئی، بالخصوص اس کے بعد کہ درخواست گزار نے طبی بنیادوں پر پالیسی کا فائدہ حاصل کرنے کے لیے درخواست دی۔‘‘
جسٹس عائشہ ملک نے فیصلے میں وضاحت سے کہا، ’’جب تک عوامی مفاد میں ناگزیر نہ ہو، شادی شدہ جوڑوں کو ایک ہی جگہ کام کرنے کا فائدہ دیا جائے۔ اسی طرح غیر شادی شدہ خواتین سرکاری ملازمین کو یہ سہولت دی گئی ہے کہ وہ اپنے خاندان کی رہائش گاہ پر کام کر سکیں۔ پالیسی کا بنیادی مقصد ہی شادی یا خاندان میں تبادلے اور تعیناتی کے باعث پیدا ہونے والی علیحدگی کی مشکلات کو دور کرنا ہے۔ ریاست کو اپنی ہی پالیسی پر خلوصِ نیت سے عمل کرنا ہوگا اور اس کے مقصد کو برقرار رکھنا ہوگا۔ اس کے برعکس، ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ عملی رویہ پالیسی کے مقاصد کے بالکل الٹ ہے۔
شادی شدہ سرکاری ملازمین سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنی پوری ملازمت کے دوران الگ الگ رہیں، کیونکہ تبادلہ ملازمت کا ایک لازمی جزو، ایک معمول اور متوقع پہلو سمجھا جاتا ہے، اور سول سرونٹس سے ان تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھالنے کی توقع کی جاتی ہے۔‘‘
قانونی ماہرین کے مطابق تمام ریاستی ادارے سپریم کورٹ آف پاکستان کی ہدایات پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔ عدالت عظمی نے اس فیصلے میں جو رہنما اصول بیان کیے ہیں، ان کی روشنی میں امید ہے کہ شادی کے ادارے اور خاندانی زندگی کے حق کا بہتر طریقے سے تحفظ ہو گا اور لاکھوں شہریوں کی زندگی میں بہتری آئے گی۔ فیصلے سے شہریوں کو ان کے جائز حقوق ملیں گے۔ ہر سرکاری محکمے کے لیے ضروری ہے کہ وہ روزمرہ کے فرائض کی انجام دہی میں صرف قانونی ضابطے کو ہی نہ دیکھے بلکہ آئین و قانون کی روح کو بھی سمجھے اور اس کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کیے جائیں۔ جسٹس عائشہ ملک جب لاہور ہائی کورٹ میں ذمہ داریاں انجام دے رہی تھیں، انہوں نے ایک فیصلے میں ریپ کا شکار خواتین کے کنوارپن کو جانچنے کے رائج غیر سائنسی ’ٹو فنگر ٹیسٹ‘ کے نقائص بیان کرتے ہوئے اسے غیرقانونی اور غیر آئینی قرار دیا تھا، جس سے کئی مظلوم خواتین کو انصاف ملا۔ اعلیٰ عدلیہ کا یہی کام ہے کہ وہ کمزور اور مظلوم کا سہارا بنے تاکہ لوگوں کا عدالت پر اعتبار قائم رہے۔
’ویڈلاک پالیسی‘ سے متعلق فیصلے کے آخر میں جسٹس عائشہ ملک لکھتی ہیں، ’’یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ حکمرانی (governance) کی بنیاد عوام کی فلاح کے تحفظ اور فروغ کے پختہ عزم پر قائم ہے۔ ہر پالیسی اور انتظامی اقدام کو عوام کے بہترین مفاد میں ہونا چاہیے، تاکہ عوام ہمیشہ حکومتی پالیسی سازی کا محور رہیں۔ یہی ریاست کا بنیادی مقصد ہے۔ عوام کی بہتری کے لیے بنائے گئے قوانین اور پالیسیاں نافذ کی جانی چاہئیں اور ایسے اسباب کی بنا پر نظر انداز نہیں کی جانی چاہئیں جو خود قانون یا پالیسی کے مقصد کی نفی کرتے ہوں۔‘‘

ویڈلاک پالیسی کا پس منظر
ویڈلاک پالیسی، شادی شدہ سرکاری ملازمین یا سرکاری ملازمت کرنے والی غیر شادی شدہ خواتین کی سہولت کے لیے ایک انتظامی فریم ورک مہیا کرتی ہے۔ اس میں شادی شدہ سرکاری ملازمین یا غیر شادی شدہ خواتین سرکاری ملازمین کے تبادلے یا ڈیپوٹیشن سے متعلق رہنما اصول اور معیاری طریقہ کار متعین کیے گئے ہیں۔ اس کا مقصد، تبادلہ اور تعیناتی کے معاملات میں شادی شدہ سرکاری ملازمین کو درپیش سماجی و معاشی مشکلات میں کمی لانا ہے۔ یہ پالیسی سرکاری محکموں کے لیے رہنمائی فراہم کرتی ہے تاکہ تبادلہ اور تعیناتی کے فیصلوں میں ان معاملات کو پیشِ نظر رکھا جائے جہاں شوہر اور بیوی دونوں سرکاری ملازم ہوں، اور انہیں ایک ہی اسٹیشن پر تعینات کیا جا سکے۔
اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جاری کردہ پالیسی متعدد دفتری یادداشتوں پر مشتمل ہے۔ 13 مئی 1998ء کی دفتری یادداشت ان مشکلات سے نمٹنے کے لیے جاری کی گئی جو مختلف ڈیوٹی اسٹیشنز پر تعینات سرکاری ملازم شوہر اور بیوی کو پیش آتی ہیں۔ اس یادداشت کے مطابق کسی شریکِ حیات کی درخواست کو اسی بنیادی پے اسکیل میں اسامی کی دستیابی سے مشروط کر کے زیرِ غور لایا جانا چاہیے۔ اس میں یہ بھی تقاضا کیا گیا ہے کہ کسی دوسرے محکمے یا ادارے میں عارضی ڈیپوٹیشن، تبادلہ یا شمولیت (Absorption) کو بھی اسامی کی دستیابی سے مشروط کر کے دیکھا جائے۔
اس دفتری یادداشت کے تحت طبی مسائل کو سب سے زیادہ ترجیح دی جانی چاہیے اور سب سے اہم یہ کہ ایک ہی اسٹیشن پر تعینات شریکِ حیات — بشمول وہ جو مقررہ زیادہ سے زیادہ مدت سے زائد ڈیپوٹیشن پر ہوں — کو عوامی مفاد کی کسی نہایت مجبوری کے بغیر پریشان نہ کیا جائے۔ لہٰذا 13 مئی 1998ء کی دفتری یادداشت کے مطابق شادی شدہ سول سرونٹس کے معاملات میں ہمدردانہ بنیادوں پر توسیع پر غور کیا جا سکتا ہے۔ مذکورہ دفتری یادداشت کے تسلسل میں، 17 دسمبر 1999ء کو ایک اور دفتری یادداشت جاری کی گئی جو غیر شادی شدہ خواتین سرکاری ملازمین کے والدین یا خاندان کی رہائش گاہ پر تبادلے سے متعلق ہے۔
یہ یادداشت ان مشکلات کے پیشِ نظر جاری کی گئی جو غیر شادی شدہ خواتین سرکاری ملازمین کو تبادلہ اور ڈیپوٹیشن کے سلسلے میں درپیش تھیں، اور اس میں دی گئی ہدایات 13 مئی 1998ء کی دفتری یادداشت سے مماثل تھیں۔ بعد ازاں 21 اپریل 2006ء کو ایک اور دفتری یادداشت جاری کی گئی جس کے ذریعے 1998ء اور 1999ء کی دفتری یادداشتوں کو وسعت دے کر شادی شدہ خواتین سرکاری ملازمین کو اس قابل بنایا گیا کہ وہ اپنے شریکِ حیات کی رہائش گاہ پر خدمات انجام دے سکیں، قطع نظر اس کے کہ شوہر سرکاری ملازم ہو، نجی شعبے میں ہو یا بے روزگار ہو۔ اس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ شوہر کی رہائشی جگہ پر بیوی کے تبادلے میں سہولت فراہم کی جائے، خواہ شوہر سرکاری ملازمت میں نہ ہو۔
بالخصوص اس دفتری یادداشت کی بنیاد پر سول سرونٹس (تقرری، ترقی اور تبادلہ) قواعد، 1973ء میں ترمیم کی گئی، جس کا 16 اپریل 2012ء کو نوٹیفکیشن جاری کیا گیا۔ قاعدہ (A) 20 کے ذیلی قاعدہ (3) کے بعد ایک استثنائی شق شامل کی گئی، جس میں واضح طور پر یہ بیان کیا گیا کہ ملازمت میں موجود شوہر اور بیوی اور غیر شادی شدہ خواتین سرکاری ملازمین کی تعیناتی قاعدہ (A) 20 سے مستثنیٰ ہوگی، جس کا مطلب یہ ہے کہ مجموعی طور پر پانچ سال کی ڈیپوٹیشن کی مدت اس بنیاد پر شریکِ حیات کو ایک ہی اسٹیشن پر کام کرنے سے بے دخل کرنے یا غیر شادی شدہ خواتین سرکاری ملازمین کو ان کے خاندان کی رہائش گاہ سے ہٹانے کا سبب نہیں بنے گی۔
سنہ 2020ء میں پالیسی کے تحت ڈیپوٹیشن کے معاملات میں فیصلوں کے لیے معیاری طریقہ کار (ایس او پیز) مقرر کرنے کے لیے ایک اور دفتری یادداشت بھی جاری کی گئی، جس میں یہ بھی بتایا گیا کہ ڈیپوٹیشن پر موجود سرکاری ملازمین پالیسی کی بنیاد پر ڈیپوٹیشن، ملازمین کا باہمی تبادلہ یا (محکمے میں) شمولیت طلب کر سکتے ہیں۔