کراچی میں پبلک ٹوائلٹس کی تعمیر

عبداللطیف ابو شامل  جمعرات 4 ستمبر 2014
شہریوں کے بنیادی مسئلے کے حل کی جانب پیش رفت۔   فوٹو : فائل

شہریوں کے بنیادی مسئلے کے حل کی جانب پیش رفت۔ فوٹو : فائل

شہر قائد کنکریٹ جنگل بن چکا ہے۔ ایسا جنگل جہاں خودرو جھاڑیوں کی طرح عمارتیں اگ آئی ہیں۔ بے تحاشا، بے ہنگم اور بغیر کسی منصوبہ بندی کے کراچی کو اس کنکریٹ کے جنگل نے اپنی لپیٹ میں جکڑ لیا ہے۔ ان تجارتی اور رہائشی عمارتوں میں عوامی بنیادی ضرورتوں کو یک سر نظر انداز کردیا گیا ہے جن میں پبلک ٹوائلٹس سرفہرست ہیں۔

عالمی ادارۂ صحت اور بچوں سے متعلق اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے (یونیسیف) نے اپنی مشترکہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ دنیا میں صاف پانی کی فراہمی اور نکاسی سے محروم اور فیض یاب ہونے والے افراد کے درمیان موجود خلا کو ختم کرنے کی اشد اور فوری ضرورت ہے۔ دنیا کے تقریباً دو ارب افراد کو نکاسی کی مناسب اور بہتر سہولتیں دست یاب ہیں جب کہ دو ارب تیس کروڑ افراد کو پینے کے محفوظ پانی تک رسائی حاصل ہے۔

دنیا کے ایک ارب ساٹھ کروڑ افراد کے گھروں میں پائپ کا پانی آتا ہے جسے اقوامِ متحدہ محفوظ اور بنیادی انسانی ضرورت قرار دے چکی ہے۔ لیکن دنیا کے ستر کروڑ افراد اب بھی محفوظ اور صاف پانی سے محروم ہیں جس کا نصف براعظم افریقہ کے صحارا خطے کے ملکوں میں بستا ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کی ایک تہائی آبادی لگ بھگ ڈھائی کروڑ افراد نکاسی کے بہتر نظام اور مناسب ٹوائلٹ کی سہولتوں سے محروم ہیں اور اس جدید دور میں بھی ایک ارب افراد چار دیواری کے بجائے سرِعام رفعِ حاجت کرتے ہیں۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ سرِعام رفعِ حاجت کرنے والے ان افراد کی نصف سے زاید یعنی 60 کروڑ افراد بھارتی باشندے ہیں۔

عالمی اداروں نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ سرِعام رفعِ حاجت اور آلودہ پانی پینے کے نتیجے میں کالرا، ڈائریا، ہیپاٹائٹس اور ٹائی فائیڈ جیسی موذی اور جان لیوا بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں جن کے سدِباب کے لیے ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے۔ صرف ڈائریا کے نتیجے میں دنیا میں سالانہ اوسطاً ساڑھے آٹھ لاکھ انسان موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا کی نصف آبادی شہروں میں رہتی ہے جہاں فراہمی و نکاسی آب کی قدرے بہتر سہولتیں دست یاب ہیں۔ لیکن اب بھی بیشتر دیہی علاقوں کی صورتِ حال انتہائی خراب ہے جہاں ٹوائلٹ اور نلکے کے صاف پانی جیسی بنیادی ضرورتیں بھی دست یاب نہیں ہیں۔

یہ ایک تلخ اور روح فرسا حقیقت ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کی انتہائی برق رفتار ترقی اور خلائی تسخیر کے باوجود دنیا میں بسنے والے انسانوں کا ایک بڑا حصہ اپنی بنیادی ضرورت یعنی ٹوائلٹس سے محروم ہے۔ اس مقصد کے لیے دیہات میں زیادہ تر ریلوے لائنوں، کھیت کھلیانوں، میدانوں اور شہروں میں نکاسی آب کے نالوں، پلوں کے نچلے حصوں اور دیگر کھلی جگہوں اور خالی اور ویران پلاٹوں کو استعمال میں لایا جاتا ہے اور یہ جگہیں ہر لحاظ سے غیر محفوظ ہیں۔

2010ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے نکاسی اور پانی کو ’’ انسان کا بنیادی حق‘‘ قرار دیتے ہوئے ہر سال 19 نومبر کو ورلڈ ٹوائلٹ ڈے منانے کا اعلان کیا تھا۔ اس دن کو منانے کا مقصد دنیا بھر کی حکومتوں اور اداروں کی توجہ اس طرف مبذول کرانا تھا کہ وہ لوگوں کو صفائی اور صحت کی بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کریں۔ اس سلسلے میں ذرایع ابلاغ اور غیر سیاسی سماجی تنظیموں کو بھی اپنا فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔

عالمی تنظیم ’’ واٹر ایڈ ‘‘ کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق، دنیا کے 2 ارب 50 لاکھ افراد پبلک ٹوائلٹس کی سہولت سے محروم ہیں۔ اس تعداد پر غور کریں تو یہ حیران کن نتیجہ بھی سامنے آتا ہے کہ دنیا کے ہر تیسرے شخص کو صاف ستھرے اور نجی ٹوائلٹ کی سہولت میسر نہیں۔ اس انتہائی تشویش ناک صورت حال کا ایک تلخ پہلو یہ بھی ہے کہ دنیا بھر میں سالانہ تقریباً سات لاکھ افراد جن میں بچوں کی تعداد زیادہ ہے، ہیضے سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔

ہیضہ غیر محفوظ پانی اور انسانی فضلے سے پیدا ہونے والے جراثیم، گندگی اور آلودہ پانی کے باعث پھیلتا ہے۔ ہر سال تقریباً ساٹھ لاکھ بچے ایسے گھروں میں پیدا ہوتے ہیں جہاں صحت و صفائی کی سہولیات سرے سے موجود ہی نہیں۔ دنیا میں ٹوائلٹس کی موجودی کے بغیر انسانی زندگی کا تصور محال ہے۔ اگر ٹوائلٹ صاف ستھرا، جراثیم سے پاک، اور پانی کی سہولت سے آراستہ ہوگا تو بیماریوں کے تدارک میں معاون ثابت ہوگا۔

وطن عزیز پاکستان میں بھی تقریباً چار کروڑ تیس لاکھ افراد ٹوائلٹس سے محروم ہیں اور ان میں خواتین کی تعداد زیادہ ہے۔ ٹوائلٹ نہ ہونے سے خاص طور پر خواتین اور بچوں کی صحت کو لاحق خطرات کے ساتھ دیگر معاشرتی مسائل میں اضافے کا خدشہ ہے۔ دنیا بھر میں تقریباً ڈھائی ارب انسان صاف ٹوائلٹس سے محروم ہیں۔ جن میں سے ایک ارب سے زاید افراد کو رفع حاجت کے لیے دیگر مقامات جانا پڑتا ہے۔

اس تشوش ناک صورت حال سے آگہی پیدا کرنے والی عالمی تنظیم ’’واٹر ایڈ‘‘ کا کہنا ہے اس صورت حال میں پاکستان میں خواتین کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات ناکافی ہیں۔ تنظیم کے مطابق ٹوائلٹس کی عدم دست یابی سے خواتین کو مختلف بیماریاں لاحق ہونے کے علاوہ ہراساں کیے جانے کے خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے نہ صرف انسانی جان خطرے میں ہے بلکہ اس کی وجہ سے امن وامان کی صورت حال بھی مخدوش ہے۔ ’’واٹر ایڈ‘‘ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ہر سال تقریباً تیس ہزار خواتین اور بچیاں صاف پانی اور نکاسی آب کی بہتر سہولتوں کے فقدان سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں مبتلا ہو کر موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔

شہر قائد کے مکین بھی اس اندوہناک صورت حال سے دوچار ہیں۔ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کا کہنا ہے کہ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں ٹوائلٹس کی سہولت سب کو میسر نہیں۔ لیکن اب ایک خوش خبری یہ ملی ہے کہ آیندہ کراچی میں کوئی بھی تجارتی عمارت اس وقت تک تعمیر نہیں کی جاسکے گی جب تک اس میں پبلک ٹوائلٹس کا انتظام نہیں کیا جاتا۔

کمشنر کراچی نے ایک اجلاس میں اس کا اعلان کیا کہ تجارتی عمارتوں کے لیے نقشے صرف اْسی صورت میں منظور کئے جائیں گے جب عمارتوں میں پبلک ٹوائلٹس موجود ہوں۔ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کا کہنا ہے کہ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں ٹوائلٹس کی سہولت سب لوگوں، خاص کر دیہات میں بسنے والوں کو میسر نہیں ہے۔

کراچی کے کمشنر شعیب احمد صدیقی نے یہ قدم اٹھا کر شہریوں کے اہم اور ایک بڑے مسئلے کو حل کرنے کی جانب پیش رفت کی ہے۔ شعیب احمد صدیقی شہر کے مختلف علاقوں میں دو سو سے زاید پبلک ٹوائلٹس تعمیر کرنے کے منصوبے پر کام کا آغاز بھی کرچکے ہیں۔

کمشنر کراچی کا کہنا ہے کہ شہر میں مختلف مقامات اور سرکاری دفاتر میں عوام کے لیے نئے پبلک ٹوائلٹس تعمیر کئے جائیں گے، جب کہ موجودہ ٹوائلٹس کی رینوویشن کرکے وہاں پانی اور بجلی کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔ شعیب احمد صدیقی نے بتایا کہ دو سو سے زاید پبلک ٹوائلٹس عدالتی احکامات کے تحت تعمیر کیے جانے کا منصوبہ ہے اور اس کا باقاعدہ افتتاح بھی کر دیا گیا۔ نئی سبزی منڈی میں بھی پبلک ٹوائلٹس تعمیر کئے جائیں گے۔ سی پی ایل سی ان کی تعمیر میں مدد کرے گی جب کہ ان کی مینٹی نینس بھی سی پی ایل سی کی ہی ذمہ داری ہوگی۔

کمشنر کراچی کے یہ اقدامات انتہائی حوصلہ افزا اور وقت کی ضرورت ہیں لیکن اس کے ساتھ انہیں اس پر بھی غور کرنا اور کوئی منصوبہ بنانا چاہیے کہ جو تجارتی عمارتیں بن چکی ہیں اور ان میں پبلک ٹوائلٹس نہیں بنائے گئے وہ اپنی عمارتوں میں اس کے لیے جگہ کا انتظام کریں، تاکہ اس مسئلے کا سدباب ہوسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔