یہ تو بہرحال ہونا ہی تھا

جاوید چوہدری  منگل 21 اکتوبر 2014
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

یہ تو بہرحال ہونا ہی تھا اور اگر یہ نہ ہوتا تو بہت پریشانی ہوتی۔

میری ایدھی صاحب سے پہلی ملاقات 2003ء میں کھارا در میں ہوئی‘ میں ان دنوں ’’سیلف میڈ کے نام سے سیلف میڈ‘‘ لوگوں پر ڈاکومنٹری فلمیں بنارہا تھا‘ یہ میری زندگی کے ان 98 ناکام منصوبوں میں سے ایک تھا جن پر میں نے بے تحاشا توانائی‘ وقت اور سرمایہ خرچ کیا‘ میں نے جن کے لیے دن رات ایک کر دیے تھے لیکن یہ اس کے باوجود ناکام ہو گئے اور میں نے جن سے یہ سیکھا‘ آپ پر جب تک اللہ تعالیٰ کا کرم نہ ہو اس وقت تک کھیت‘ پانی‘ بیج اور شاندار موسم کے باوجود آپ کے سٹوں میں دانا پیدا نہیں ہوتا۔

’’سیلف میڈ‘‘ بھی ایک ناکام منصوبہ تھالیکن یہ شروع میں شاندار اسپیڈ سے چل رہا تھا‘ آئیڈیا اچھا تھا‘پرائیویٹ میڈیا کو ابھی صرف ایک سال ہوا تھا‘ ٹیلی ویژن چینلز کو سافٹ ویئر درکار تھے‘ میرے پاس فرصت بھی تھی اور وسائل بھی۔ ٹیم بنائی‘ ملک کے 34ایسے لوگوں کی فہرست تیار کی جنھوں نے انتہائی نامساعد حالات میں آنکھیں کھولیں لیکن یہ شبانہ روز محنت کرتے ہوئے بین الاقوامی شخصیت بن گئے‘ عبدالستار ایدھی اس فہرست میں پہلے نمبر پر تھے‘ یہ آج بھی پہلے نمبر پر ہیں‘ آپ ملک میں نامور لوگوں کی کوئی فہرست بنائیں‘ آپ کے ذہن میں سب سے پہلے عبدالستار ایدھی کا نام آئے گا‘ یہ صرف ساڑھے پانچ فٹ کے 60 کلو وزنی انسان نہیں ہیں‘ یہ پاکستان کے آئفل ٹاؤر ہیں‘ یہ پاکستان کی مدر ٹریسا ہیں‘ دنیا میں جس طرح آئفل ٹاور کے بغیر پیرس اور مدر ٹریسا کے بغیر انڈیا کا تصور ممکن نہیں بالکل اسی طرح پاکستان عبدالستار ایدھی کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔

ہم لوگوں نے فہرست کے پہلے نام سے کام شروع کیا‘ میں کھارا در گیا‘ ایدھی صاحب سے ملاقات ہوئی‘ایدھی صاحب کے بدن پر سیاہ ملیشیا کے گھسے ہوئے کپڑے تھے‘ سر پر میلی ٹوپی تھی‘ پاؤں میں پلاسٹک کے سلیپرتھے‘ دانت میلے اور ہاتھ کالے تھے اور جسم سے پسینے کی بو آ رہی تھی‘ میں نے گفتگو شروع کی‘ معلوم ہوا ایدھی صاحب نے پوری زندگی مُردوں کے کپڑے اور جوتے پہنے‘ لواحقین مُردوں کی ذاتی اشیاء استعمال نہیں کرتے‘ یہ ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیتے ہیں‘ بیس سال قبل میٹھا در کا کوئی پٹھان فوت ہوا‘ اس کے گھر سے ملیشیا کے دو تھان نکلے‘ ایدھی صاحب بیس سال سے ان تھانوں کے کپڑے سلوا رہے ہیں‘ ایک جوڑا دو سال نکال جاتا ہے‘ سلیپر بھی مُردوں کے پہنتے ہیں اور ٹوپی بھی ایک نعش کا ورثہ تھی‘لوگ انھیں حاجی صاحب کہتے ہیں‘ ہفتے میں صرف ایک بار نہاتے ہیں‘ حاجی صاحب کا خیال تھا پانی قیمتی سرمایہ ہے۔

اسے نہانے میں ضایع نہیں کرنا چاہیے چنانچہ نہانے کے خلاف ہیں‘ گجرات کاٹھیاوار کے گاؤں بانٹوا میں پیدا ہوئے‘ ماں کی دوسری شادی تھی‘پہلے خاوند سے بھی بچے تھے‘ ماں کو ہمیشہ دکھی اور پریشان دیکھا‘ کراچی آ کر کپڑے کا کاروبار شروع کیا‘ کپڑا خریدنے مارکیٹ گئے‘ وہاں کسی شخص نے کسی شخص کو چاقو مار دیا‘ زخمی زمین پر گر کر تڑپنے لگا‘ لوگ تڑپتے شخص کے گرد گھیرا ڈال کر تماشہ دیکھتے رہے‘ وہ شخص تڑپ تڑپ کر مر گیا‘ نوجوان عبدالستار کے دل پر داغ پڑ گیا‘ سوچا معاشرے میں تین قسم کے لوگ ہیں‘ دوسروں کو مارنے والے‘ مرنے والوں کا تماشہ دیکھنے والے اور زخمیوں کی مدد کرنے والے‘ نوجوان عبدالستار نے فیصلہ کیا‘ میں مارنے والوں میں شامل ہوں گا اور نہ ہی تماشہ دیکھنے والوں میں‘ میں مدد کرنے والوں میں شامل ہوں گا‘ کپڑے کا کاروبار چھوڑا‘ ایک ایمبولینس خریدی‘ اس پر اپنا نام لکھا‘ نیچے ٹیلی فون نمبر لکھا اور کراچی شہر میں زخمیوں اور بیماروں کی مدد شروع کر دی‘ وہ اپنے ادارے کے ڈرائیور بھی تھے‘ آفس بوائے بھی‘ ٹیلی فون آپریٹر بھی‘ سویپر بھی اور مالک بھی‘وہ ٹیلی فون سرہانے رکھ کر سوتے تھے۔

فون کی گھنٹی بجتی‘ یہ ایڈریس لکھتے اور ایمبولینس لے کر چل پڑتے‘ زخمیوں اور مریضوں کو اسپتال پہنچاتے‘ سلام کرتے اور واپس آ جاتے‘ ایدھی صاحب نے سینٹر کے سامنے لوہے کا گلا رکھ دیا ‘ لوگ گزرتے وقت اپنی فالتو ریزگاری اس میں ڈال دیتے تھے‘ یہ سیکڑوں سکے اور چند نوٹ اس ادارے کا کل اثاثہ تھے‘ یہ فجر کی نماز پڑھنے مسجد جاتے تھے‘ یہ ایک صبح مسجد پہنچے‘ پتہ چلا کوئی شخص مسجد کی دہلیز پر نوزائیدہ بچہ چھوڑ گیا‘ مولوی صاحب نے بچے کو ناجائز قرار دے کر قتل کرنے کا حکم جاری کر دیا‘ لوگ  بچے کو مارنے کے لیے لے جا رہے تھے‘ یہ پتھر اٹھا کر ان کے سامنے کھڑے ہو گئے‘ بچہ لیا اور بچے کی پرورش شروع کر دی‘ میرے کان میں بتایا ’’وہ بچہ آج کل ملک کے ایک بڑے بینک کا اہم افسر ہے‘‘ یہ نعشیں اٹھانے بھی جاتے تھے‘ پتہ چلا گندے نالے میں نعش پڑی ہے‘ یہ وہاں پہنچے‘ دیکھا لواحقین بھی نالے میں اتر کر نعش نکالنے کے لیے تیار نہیں ہیں‘ عبدالستار ایدھی نالے میں اتر گئے‘ نعش نکالی‘ گھر لائے‘ غسل دیا‘ کفن پہنایا‘ جنازہ پڑھایا اور اپنے ہاتھوں سے قبر کھود کر نعش دفن کر دی‘ بازار میں نکلے تو بے بس بوڑھے دیکھے‘ پاگلوں کو کاغذ چنتے دیکھا اور آوارہ بچوں کو فٹ پاتھوں پر کتوں کے ساتھ سوتے دیکھا تو اولڈ پیپل ہوم بنا لیا‘ پاگل خانے بنا لیے‘ چلڈرن ہوم بنالیے‘ دستر خوان بنا لیے اور عورتوں کو مشکل میں دیکھا تو میٹرنٹی ہوم بنا لیے‘ لوگ ان کے جنون کو دیکھتے رہے‘ ان کی مدد کرتے رہے‘ یہ آگے بڑھتے رہے ۔

یہاں تک کہ ایدھی فاؤنڈیشن ملک میں ویلفیئر کا سب سے بڑا ادارہ بن گیا‘ یہ ادارہ 2000ء میں گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی آ گیا‘ ایدھی صاحب نے دنیا کی سب سے بڑی پرائیویٹ ایمبولینس سروس بنائی تھی‘ عبدالستار ایدھی ملک میں بلاخوف پھرتے تھے‘ یہ وہاں بھی جاتے تھے جہاں پولیس مقابلہ ہوتا تھایا فسادات ہو رہے ہوتے تھے‘ پولیس‘ ڈاکو اور متحارب گروپ انھیں دیکھ کر فائرنگ بند کر دیتے تھے‘ ملک کا بچہ بچہ قائداعظم اور علامہ اقبال کے بعد عبدالستار ایدھی کو جانتا ہے‘ یہ زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہیں‘ نام کے حاجی اور نام کے مولوی ہیں‘ یہ خدمت کو اپنا مذہب اور انسانیت کو اپنا دین سمجھتے ہیں‘ سیاسی نظام سے مطمئن نہیں ہیں اور یہ لوگوں سے بھی شاکی ہیں‘ یہ ہر لحاظ سے فرشتہ صفت ہیں۔ میں پورا دن ایدھی صاحب کے ساتھ رہا‘ ہم نے اگلے ہفتے شوٹنگ شروع کی‘ تین دن ایدھی صاحب کے ساتھ رہے‘ ان کی تمام اچھائیاں کھل کر سامنے آ گئیں مثلاً ایدھی صاحب نے 2003ء تک گندے نالوں سے 8 ہزار نعشیں نکالی تھیں‘ انھوں نے 16 ہزار نوزائیدہ بچے پالے تھے‘ انھوں نے ہزاروں بچیوں کی شادیاں کرائی تھیں اور یہ اس وقت تک ویلفیئر کے درجنوں ادارے چلا رہے تھے۔

ہم جب بھی انھیں بازار یا سڑک پر لے کر جاتے تھے‘ لوگ ان کے ہاتھ چومتے تھے‘ عورتیں زیور اتار کر ان کی جھولی میں ڈال دیتی تھیں‘ ہمارے سامنے ایک نوجوان اپنی اکلوتی موٹر سائیکل انھیں دے کر خود وین میں بیٹھ گیا اور ایک دکان دار نے وہ موٹر سائیکل لاکھ روپے میں خرید لی‘ میں نے ایدھی صاحب کے ساتھ چار دن گزارے‘ وہ چار دن میری زندگی کا شاندار ترین وقت تھا‘ میں جب ان سے الگ ہونے لگا تو میں نے جھک کر ان کے پاؤں چھوئے‘ ایدھی صاحب نے مجھے کھینچ لیا‘ گلے لگایا‘ میرا ماتھا چوما اور جھولی پھیلا کر مجھے دعائیں دیں‘ میں آج بھی ان کی دعاؤں کو اپنا اثاثہ سمجھتا ہوں۔

یہ تھے عبدالستار ایدھی مگر ایدھی صاحب کے ساتھ کل 19 اکتوبر 2014ء کو کیا ہوا؟ 8 مسلح ڈاکوصبح10 بجے کھارا در ان کے دفتر داخل ہوئے‘ ایدھی صاحب کے سر پر پستول رکھا‘ ان سے کہا ’’ بڈھے تمہارے کلمہ پڑھنے کا وقت آ گیا‘‘ ایدھی صاحب کے لاکرز توڑے اور 5 کلو سونا اور کروڑوں روپے کی غیر ملکی کرنسی لوٹ کر لے گئے‘ ہمارے ملک میں روزانہ تین درجن بری خبریں جنم لیتی ہیں‘ ہم ان خبروں کو روٹین کی کارروائی سمجھ کر فراموش کر دیتے ہیں لیکن ایدھی صاحب کی خبر نے پورے ملک کو اداس کر دیا‘ ملک کا بچہ بچہ ڈپریشن میں ہے‘ہم سب دل سے سمجھتے ہیں‘ عبدالستار ایدھی کے ساتھ یہ نہیں ہونا چاہیے تھا مگر یہ بہرحال ہونا ہی تھا اور اگر یہ نہ ہوتا تو پریشانی ہوتی‘ کیوں؟ کیونکہ ہمارا ملک بے عزتی‘ بے آبروئی اور بے وفائی کے وائرس کا شکار ہے‘ جس ملک میں قائداعظم محمد علی جناح فٹ پاتھ‘ قائد ملت لیاقت علی خان اسٹیج اور قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو پھانسی گھاٹ پر مار دیے جائیں۔

جس میں حکیم سعید جیسے شخص کو گولی مار دی جائے‘ ڈاکٹر قدیر جیسے انسان کو مجرم بنا کر ٹیلی وژن پر پیش کر دیا جائے اور جس میں روز کنٹینروں ‘ اسٹیجز اورٹیلی وژن پر لوگوں کی پگڑیاں اچھالی جاتی ہوں اور جس میں آپ کی جگہ تم‘ تم کی جگہ تو اور تو کی جگہ اوئے نے لے لی ہو اور جس میں الزام قانون اور شک عدالتی فیصلہ بن گیا ہو اور جس میں سیاسی قائدین کا فرمان اللہ کے احکامات سے بڑا ہو چکا ہواور جس میں لوگ اللہ سے کم اور مولوی سے زیادہ ڈرتے ہوں اور جس میں جاوید ہاشمی ہار جاتے ہوں اور عامر ڈوگر جیسے لوگ جیت جاتے ہوں اس ملک میں ایسا بہرحال ہو کر رہتا ہے‘ اس معاشرے میں ایک ایک کر کے سب لوٹ لیے جاتے ہیں‘ دیمک لگی دہلیزیں فرشتے ہوں یا انسان کسی کا بوجھ برداشت نہیں کرتیں اور ہم دیمک زدہ معاشرے کے شہری ہیں‘ ہمارے معاشرے میں ایدھی صاحب کے ساتھ بہرحال یہ ہونا ہی تھا!۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔