بھارت میں ای شاپنگ کے صارفین کے حصول کے لئے کمپنیوں میں جنگ

ع محمود  اتوار 9 نومبر 2014
ساڑھے تین کروڑ بھارتی مردو زن ای شاپنگ کرتے ہیں فوٹو: فائل

ساڑھے تین کروڑ بھارتی مردو زن ای شاپنگ کرتے ہیں فوٹو: فائل

35 سالہ اکاؤنٹینٹ، غلام شبیر بھارتی شہر بھوپال کا رہائشی ہے۔ اس نے حال ہی میں ایک لیپ ٹاپ پچاس ہزار روپے اور ڈیجیٹل کیمرہ دس ہزار روپے میں خریدا۔ اسے گھر بیٹھے دونوں اشیا سستے داموں مل گئیں۔

فیض آباد کی گیتا گپتا نے بھی اپنی شادی کے لیے پسندیدہ زیورات منتخب کیے اور گھر منگوالیے۔ اسے بھی یہ زیورات عام مارکیٹ کی نسبت سستے پڑے۔ ای شاپنگ یا آن لائن خریداری کی دنیا میں خوش آمدید جو ہمارے پڑوس میں بڑی تیزی سے پھل پھول رہی ہے۔ اس حیرت انگیز دنیا میں آپ گھر بیٹھے کمپیوٹر پہ محض مائوس کی کلک یا انگلی ہلانے پر سوئی سے لے کر ہوائی جہاز تک خرید سکتے ہیں۔

ای شاپنگ کا آغاز امریکا اور یورپی ممالک میں ہوا۔ لیکن پچھلے عشرے کے دوران زبردست معاشی ترقی کی وجہ سے بھارت میں طاقتور متوسط طبقے نے جنم لیا، تو وہ بھی ای شاپنگ کی طرف متوجہ ہوا۔ آج ’’25 کروڑ بھارتی‘‘ دنیائے انٹرنیٹ سے وابستہ ہیں۔ اور ان میں سے ساڑھے تین کروڑ مردو زن ای شاپنگ کرتے ہیں۔اعدادو شمار کی رو سے فی الوقت بھارتی ای شاپنگ کی سالانہ مالیت 13 ارب ڈالر (13 کھرب روپے) ہے۔ اس عدد کو معمولی مت سمجھیے کہ پاکستان کا حالیہ سالانہ قومی بجٹ صرف ساڑھے تین ارب ڈالر کا تھا۔ تخمینہ ہے کہ 2018ء تک بھارت میں ’’13 کروڑ‘‘ شہری ای شاپنگ کریں گے۔ نیز اس کاروبار کی سالانہ مالیت ’’50 ارب ڈالر‘‘ تک جاپہنچے گی۔

ای شاپنگ کے کئی فوائد ہیں۔ پہلا تو یہی کہ اس نے اشیا کی خریداری کو آسان بنا دیا۔ آج کل خصوصاً شہروں میں کسی شاپنگ پلازہ یا اسٹور پر جانا کسی مصیبت سے کم نہیں۔ پہلے ٹریفک کی بھیڑ سے نمٹو، پھر گاڑی پارک کرنے کی جگہ ڈھونڈو، اس کے بعد دکانوں میں گھوم پھر کر پسندیدہ اشیا تلاش کرو۔ غرض اس مارا ماری کے دوران انسان کا پلیتھن نکل جاتا ہے۔

دوسری طرف خصوصاً بھارت میں ای شاپنگ سے وابستہ نیٹ کمپنیاں تقریباً ہر شے آن لائن فروخت کررہی ہیں۔ یہی نہیں، ہر شے مثلاً جوتے، ملبوسات، کار، موٹر سائیکل، کمپیوٹر، غرض ہر گھریلو چیز کی وسیع ورائٹی ویب سائٹوں پر دستیاب ہے۔ بس آپ گھر میں پُر سکون ماحول میں بستر پر لیٹیے یا دفتر میں کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر بیٹھیے حتی کہ بس یا کار میں بیٹھے صرف انگلی کی حرکت سے من پسند اشیا منتخب کیجیے اور آرڈر دے دیجیے۔ مقررہ مدت میں مطلوبہ اشیا آپ کے در پر ہوں گی۔

مزید برآں خصوصاً شہریوں کی زندگی بہت مصروف ہوگئی ہے۔ اشیا کی خریداری کے لیے وقت نکالنا اب کارے دارد بن چکا۔ سو لوگ کمپیوٹر پر چیزیں خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس امر نے بھی بھارت میں اسی شاپنگ کے کاروبار کو بڑھاوا دیا۔اُدھر جب بھارتی و غیر ملکی تاجروں اور کاروباریوں نے دیکھا کہ بھارت میں ای شاپنگ پھل پھول رہی ہے، تو وہ اس شعبے میں دھڑا دھڑ سرمایہ کاری کرنے لگے۔ راتوں رات نئی ویب سائٹس کھل گئیں اور وہ مختلف حیلے حربوں سے گاہکوں کو متوجہ کرنے لگیں۔ ان میں سب سے مؤثر اور کارگر حیلہ کم قیمت یا ڈسکائونٹ پر اشیا بیچنا ہے۔ اور اب بھارتی آن لائن شاپنگ سائٹس کے درمیان زیادہ سے زیادہ ڈسکاؤنٹ دینے کی زبردست جنگ چھڑچکی ہے۔

ہوا یہ کہ عالمی آن لائن شاپنگ کے بے تاج بادشاہ اورکھرب پتی کاروباری، جیف بیزوس نے پچھلے سال ’’ایمیزن انڈیا‘‘ ویب سائٹ کا آغاز کیا۔ تب تک بھارتی دنیائے نیٹ میں فلپ کارٹ، ای بے، جابونگ، سنیپ ڈیل، ہیپرفرائی، منترا شاپ وغیرہ ویب سائٹس شعبہ آن لائن خریداری میں قدم جماچکی تھیں۔ ایمیزن انڈیا راتوں رات بھارتیوں میں مقبول ہوگئی۔ اس کامیابی نے بھارتی آن لائن شاپنگ ویب سائٹس کو حسد میں مبتلا کردیا۔ چناں چہ انہوں نے گاہکوں کو لبھانے کی خاطر پھٹے چک دیئے یعنی وہ اشیا انتہائی کم قیمت پر فروخت کرنے لگیں۔ حتیٰ کہ انہوں نے خسارہ برداشت کرلیا، گاہک کو دوسرے کی چھتری تلے بیٹھا دیکھنا گوارا نہ کیا۔ اس ڈسکائونٹ جنگ کے باعث قدرتاً بھارتی صارفین کا سر کڑھائی، انگلیاں گھی میں ہیں۔

حالیہ دیوالی میں فلپ کارٹ اور ایمیزن انڈیا کے درمیان زبردست معرکہ ہوا اور صارفین کی چاندی ہوگئی۔ فلپ کارٹ نے ’’بگ بلین ڈے‘‘ (Big Billion Day) کے نام سے ڈسکائونٹ کا بم پھوڑا تو ایمیزن انڈیا نے ’’دیوالی دھماکہ‘‘ کے نام سے ڈسکائونٹ سیل لگائی۔ یقین جانیے، ان دونوں سیلوں میں یو ایس بی ڈرائیو ’’صرف ایک روپیہ‘‘ اور موبائل فون ’’99 روپے‘‘ میں دستیاب تھے۔ کئی مصنوعات مثلاً ٹی وی، کمپیوٹر، سمارٹ فون، ریفریجریٹر کی قیمتیں 40 فیصد تک کم کردی گئیں۔ گویا 30 ہزار کا ایل ای ڈی ٹی وی صرف 18 ہزار روپے میں فروخت ہوا۔

دونوں متحارب کمپنیوں نے اپنی سیلوں کا پہلے ہی اعلان کردیا تھا لہٰذا اشیا خریدنے کے دیوانے بھارتیوں کی دیوانگی حد سے بڑھ گئی۔ لاکھوں بھارتی رات دو بجے ہی نیٹ پر بیٹھ گئے تاکہ جیسے ہی سیل کا آغاز ہو، ویب سائٹ پر من پسند چیزیں خرید سکیں۔ ان کی بے چینی دیکھ کر ہی دنیاوی اشیا سے بیزار ایک شاعر کہہ اٹھا:

انسان کی ہوس نے جنہیں رکھا تھا چھپا کر

کھلتے نظر آتے ہیں بتدریج وہ اسرار

جیسے ہی فلپ کارٹ‘ ایمیزن انڈیا اور ای شاپنگ سے وابستہ دیگر چند ویب سائٹس میں ڈسکاؤنٹ سیل شروع ہوئی‘ لاکھوں بھارتی وہاں آ پہنچے۔ دباؤ پڑنے سے سائٹس کھلنے کی رفتار بہت آہستہ ہو گئی۔ حتیٰ کہ وہ کئی بار کریش بھی ہوئیں۔انہی بھارتیوں میں دہلی کا کاروباری‘ کرشنا راؤ بھی شامل تھا۔ وہ بتاتا ہے:

’’چند منٹ کے اندر اندر بہت سی اشیا فروخت ہو گئیں اور وہاں ’’آوٹ آف سٹاک‘‘ کا بورڈ لگ گیا۔ آخر میں صرف چمچ‘ برتن وغیرہ قسم کی چیزیں ہی رہ گئیں۔ لگتا تھا کہ من پسند اشیا خریدنے کے لیے گاہکوں کے مابین دوڑ لگی تھی۔ جس کے کنکشن کی سپیڈ عمدہ تھی‘ وہ جلد فیصلہ کرنے کی قدرت رکھتا اور دنیائے نیٹ میں خوب چلت پھرت کرتا تھا‘ وہی دوڑ جیت گیا۔‘‘

بعدازاں انکشاف ہوا کہ فلپ کارٹ پر صرف دس گھنٹوں میں ’’20 لاکھ‘‘ اشیاء فروخت ہوئیں۔ ان میں پانچ لاکھ موبائل‘ پانچ لاکھ ملبوسات و جوتے اور پچیس ہزار ٹی وی سیٹ شامل تھے۔ ان تمام اشیا کی مالیت ’’دس ارب روپے‘‘ تھی۔ ایمیزن انڈیا نے بھی اتنی ہی رقم کا بزنس کیا، لیکن ای شاپنگ کی دونوں بڑی کمپنیوںنے یہ بات پوشیدہ رکھی کہ انہیں منافع کتنا ہوا؟

ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ بھارتی ای شاپنگ ویب سائٹس گاہکوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے اشیا غیر معمولی ڈسکاؤنٹ پر دے رہی ہیں۔ یقینا کم قیمت پر دستیاب چیزوں کی کشش ہزاروں لاکھوں گاہکوں کو کھینچ لیتی ہے۔ مگر طویل المیعاد طور پر یہ روش بہت تباہ کن ہے۔

وجہ یہ کہ غیر معمولی ڈسکاؤنٹ دینے والی ای شاپنگ کی کمپنیاں خسارے میں جا رہی ہیں۔ اور یہ خسارہ جلد دور نہ ہوا تو انہیں لے ڈوبے گا۔ کاروباری و صنعتی دنیا میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ جس کمپنی نے گاہکوں کو راغب کرنے کی خاطر اپنی مصنوعات پر زبردست ڈسکاؤنٹ دیا‘ وہ آخر کار خسارے کا بوجھ برداشت نہیں کر سکیں اور دیوالیہ ہو گئیں۔

بھارت میں ای شاپنگ کے شعبے میں جاری کمپنیوں کی باہمی جنگ اب حقیقی دنیا میں بھی داخل ہو چکی ۔ حال ہی میں جیف بیزوس بھارت آئے‘ تو فلپ کارٹ نے ہوائی اڈے‘ شاہراہوں اور ایمیزن کے دفتر کے سامنے اپنی کمپنی کی تشہیر کرنے والے دیو ہیکل بل بورڈ لگوائے۔ مدعا یہی تھا کہ بیزوس کو مقابلے کی چنوتی دی جائے۔اس جنگ کا اونٹ اب نہ جانے کس کروٹ بیٹھے گا!

بھارت میں جاری ’’ای شاپنگ جنگ‘‘ سے بہرحال عیاں ہے کہ خریداری کا یہ نیا طریقہ کار عوام و خواص میں مقبولیت پا رہا ہے۔ اس کی مزید چند خوبیاںدرج ذیل ہیں:

1۔ گاہک مختلف ویب سائٹوں پر جا کر اشیا کی قیمتوں کا موازانہ کر سکتا ہے۔ چنانچہ جہاں چیز سستی ہو‘ وہاں سے خریدنا ممکن ہے۔ 2۔ ای شاپنگ کی سہولت چوبیس گھنٹے‘ ہر موسم میں دستیاب ہے۔ 3۔باتونی سیلز مینوں سے واسطہ نہیں پڑتا جنہیں کئی خریدار ناپسند کرتے ہیں۔4۔ ای شاپنگ کی کئی ویب سائٹوں پر اشیا پر تبصرے بھی درج ہوتے ہیں۔ چنانچہ تبصرے پڑھ کر گاہک اندازہ لگا سکتا ہے کہ مطلوبہ شے معیاری ہے یا غیر معیاری!

پاکستان میں ای شاپنگ

وطن عزیز میں بھی پچھلے چند سال کے دوران ای شاپنگ کا رجحان زور پکڑ چکا۔ بھارت کی طرح پاکستانی شہری بھی اس کی سمت متوجہ ہیں اور وجہ یہی ہے کہ مصروفیت کے باعث وہ کسی اسٹور میں جاکر من پسند اشیاء کی خریداری نہیں کر پاتے۔ جبکہ ای شاپنگ کے واسطے محض لیپ ٹاپ یا سمارٹ فون درکار ہے اور انٹرنیٹ کنکشن!

اب پاکستان میں بھی روزمرہ استعمال کی سیکڑوں اشیاء بذریعہ ای شاپنگ فروخت کرنے والی ویب سائٹس وجود میں آچکیں۔ تخمینہ ہے کہ وہ سالانہ تین ارب روپے مالیت کی اشیا فروخت کرتی ہیں۔ اس عدد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

پاکستانی ای شاپنگ کی ندرت یہ ہے کہ اس میں کریڈٹ کارڈ کا استعمال بہت کم ہے۔ لوگ کسی ویب سائٹ پر کوئی چیز پسند کریں‘ تو اسے گھر منگوا لیتے ہیں۔ وجوہ یہ ہیں کہ لوگوں کو خوف ہوتا ہے‘ کہیں کریڈٹ کارڈ چوری نہ ہو جائے۔ پھر وہ خریدی گئی چیز کی جانچ پڑتال کے بعد قیمت ادا کرنا چاہتے ہیں۔

پاکستانی ماہرین معاشیات کا خیال ہے کہ ای شاپنگ سے وابستہ جس کمپنی نے بھی کم از کم شہروں میں جا بجا اپنے دفاتر و مراکز قائم کر لیے‘ مستقبل میں وہ پھل پھول سکتی ہے۔ وجہ یہی کہ وہ زیادہ جلد اور باآسانی اشیاء گاہک تک پہنچا سکے گی۔

اوائل میں پاکستانی ای شاپنگ کمپنیوں نے موبائل فون‘ گھڑیاں‘ جوتے اور کتابیں فروخت کے لیے آن لائن پیش کیں۔ اب فیشن سے متعلق سیکڑوں اشیا بھی ویب سائٹوں پر دستیاب ہیں۔ گو بھارت کی طرح پاکستان میں ’’ای شاپنگ جنگ‘‘ نہیں چھڑی‘ تاہم مستقبل میں اس کے چھڑنے کا امکان ہے۔ فی الوقت پاکستانی ویب سائٹس اشیاء پر اتنا ہی ڈسکاؤنٹ دیتی ہیں جو انہیں وارے کھائے اور خسارے میں نہ لے جائے۔

سّکے کا دوسرا رخ

اکثر کاموں کی طرح ای شاپنگ کا عمل بھی منفی و مثبت ‘ دونوں قسم کی خصوصیات رکھتا ہے۔ اس کے بیشتر منفی پہلو انسانیت و اخلاقیات سے متعلق ہیں۔مثال کے طور پر پاکستان سمیت تمام مشرقی معاشروں میں گاہک اور دکاندار جان پہچان کا مخصوص رشتہ رکھتے ہیں۔ خصوصاً آج بھی متوسط اور غریب طبقوں کے محلوں میں دکان بیٹھک کی حیثیت رکھتی ہے۔ وہاں بڑے بوڑھے مل بیٹھ کر مختلف موضوعات پر باتیں کرتے اور میل ملاپ رکھتے ہیں۔ای شاپنگ سے یہ معاشرتی و انسانی تعلق ماند پڑ جائے گا۔

دوسرے ای شاپنگ لوگوں کو مادہ پرستی کی طرف بھی مائل کر سکتی ہے۔ آج ای شاپنگ کی ویب سائٹوں پر ہزار ہا اشیا دستیاب ہیں۔ چنانچہ سائٹ پہ گھومتے پھرتے انسان کادل کرتا ہے کہ وہ چیز خرید لے اور فلاں بھی۔اسی انوکھی انسانی اپچ کو مرزا غالب نے یوں بیان کیا:

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے

بہت نکلے مرے ارماں‘ لیکن پھر بھی کم نکلے

غرض اشیا کی بے محابا فراوانی نے انسانی لالچ و ہوس میں اضافہ تو کیا ہے۔ اور نت نئی چیزیں پانے کی جستجو میں بعض انسان کمائی کے ناجائز طریقے بھی اپنا لیتے ہیں۔ لہٰذا پچھلے زمانے کے طرز زندگی میں جو سادگی‘ قناعت‘ سکون اور متانت پائی جاتی تھی‘ اسے مادہ پرستی نے خاصا ضعف پہنچایا۔ اب زیادہ سے زیادہ چیزیں پانے کی ہڑک انسان کو بے چین رکھتی ہے۔کاروباری نقطہ نظر سے خصوصاً بھارت و پاکستان میں ای شاپنگ یہ منفی پہلو بھی رکھتی ہے کہ لوگوں کو ڈر ہوتا ہے، کمپنی انہیں جعلی یا دو نمبر چیز نہ پکڑا دے۔ ظاہر ہے‘ انسان جب کسی دکان میں جائے‘ تو اچھی طرح دیکھ بھال کر ہی چیز خریدتا ہے۔ لیکن وہ گھر پر کوئی شے منگوائے‘ تو لا محالہ وہ اسے خریدنی پڑتی ہے۔

ای شاپنگ سے وابستہ دیگر منفی پہلو یہ ہیں: 1۔ منگوانے (شپنگ) کا خرچ جو اکثر کمپنیاں مخفی رکھتی ہیں۔ لہذا پہلے یقین کر لیجیے کہ شے کی قیمت میں وہ شامل ہے یا نہیں۔2۔ چیزکبھی کبھی پہنچنے میں کئی دن لگا دیتی ہے۔3۔ خرابی کی صورت اسے واپس بھجوانے کی مصیبت۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔