’بابائے ڈی این اے‘ کو مالی پر یشانی کا سامنا

غزالہ عامر  منگل 9 دسمبر 2014
 متنازع سائنس داں نے نوبیل انعام فروخت کے لیے پیش کردیا۔ فوٹو: فائل

متنازع سائنس داں نے نوبیل انعام فروخت کے لیے پیش کردیا۔ فوٹو: فائل

امریکی سائنس داں جیمز واٹسن نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ڈی این اے کی ساخت دریافت کی تھی۔ اسی لیے اسے ’بابائے ڈی این اے‘ بھی کہا جاتا ہے۔

اس انقلابی دریافت پر 1962ء میں واٹسن، فرانس کرک اور مورس ولکنس کو مشترکہ طور پر طب کا نوبیل انعام دیا گیا تھا۔ نوبیل پرائز کا حصول سائنس دانوں کو عزت و شہرت بخشنے کے ساتھ ساتھ مالی طور پر بھی آسودہ کردیتا  ہے  لیکن اُن کے لیے اس انعام سے جُڑی عزت اور وقار ہی سب سے زیادہ  اہمیت  رکھتا ہے۔ وہ بڑے فخر سے نوبیل پرائز کے میڈل کو گھر میں سجا کر رکھتے ہیں۔ تاہم جیمز واٹسن نے اپنا نوبیل انعام فروخت کے لیے پیش کردیا ہے، اور اس کی ابتدائی قیمت 25 لاکھ ڈالر مقرر کی ہے۔

ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جب معروف شخصیات بالخصوص کھلاڑیوں نے معاشی مسائل کی وجہ سے اپنے حاصل کردہ تمغے فروخت کے لیے پیش کردیے مگر آج تک کسی نوبیل انعام یافتہ فرد نے یہ میڈل نہیں بیچا۔ آخر بابائے ڈی این نے یہ اقدام کیوں اٹھایا؟ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے 86 سالہ سائنس داں نے کہا کہ 2007 ء میں ان کی جانب سے نسلی امتیاز برتنے کے حوالے سے ایک روزنامے میں کچھ باتیں شائع ہوئی تھیں۔ ان باتوں کی وجہ سے سائنس داں کی ساکھ متاثر ہوئی اور رفتہ رفتہ اس کی آمدنی بھی کم ہوتی چلی گئی۔ سائنس داں کو امید ہے کہ نوبیل پرائز کی فروخت سے اس کی آمدنی بڑھے گی اور اس کے معاشی مسائل میں کمی آئے گی۔

جیمز واٹسن بلاشبہ ذہین سائنس داں ہے۔ اس کے تحقیقی کام کی وجہ سے دنیا اس کی مرہون منت ہے۔ 1953ء میں اس نے فرانسس کرک کے ساتھ مل کر ڈی این اے کی ساخت دریافت کی تھی۔ ان کے علاوہ روزالنڈ فرینکلن نامی خاتون نے بھی اس سلسلے میں قابل قدر تحقیق کی تھی مگر نوبیل پرائز ملنے سے ایک برس قبل اس کا انتقال ہوگیا تھا۔ اس طرح ڈی این اے کی ساخت دریافت کرنے کا کارنامہ واٹسن اور فرانسس ہی کے حصے میں آیا تھا۔ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ واٹسن کا کام کم اہمیت کا حامل تھا۔ ساخت دریافت کرنے کے بعد بھی واٹسن نے ڈی این پر کام جاری رکھا تھا، چناں چہ وہ نوبیل انعام کا پوری طرح حق دار تھا تاہم ضروری نہیں کہ عظیم سائنس داں، عظیم انسان بھی ہو۔

2007ء میں ایک امریکی روزنامے کو انٹرویو دیتے ہوئے جیمز واٹسن نے ان خیالات کا اظہار کیا تھا کہ کچھ قومیں موروثی طور پر دوسروں سے کم ذہین ہوتی ہیں۔ اس کا اشارہ افریقی قوموں کی طرف تھا۔ واٹسن کا کہنا تھا کہ امریکا کی تمام پالیسیوں کی بنیاد اس بات پر رکھی گئی ہے کہ ان کی ذہنی سطح بھی ہماری ذہنی سطح کے برابر ہے، جب کہ ایسا نہیں ہے۔ جو لوگ سیاہ فاموں کو ملازم رکھتے ہیں وہ اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہوتے ہیں۔

جیمز واٹسن کے خیالات کے عام ہونے کے بعد اس پر کڑی تنقید ہوئی تھی۔ تاہم واٹسن مُصر رہا تھا کہ اس نے جو کچھ کہا وہ صد فی صد درست ہے۔ 2007ء سے پہلے بھی جیمز واٹسن اپنے متنازع خیالات کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنتے رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔