- ڈکیتی کے ملزمان سے رشوت لینے کا معاملہ؛ ایس ایچ او، چوکی انچارج گرفتار
- کراچی؛ ڈاکو دکاندار سے ایک کروڑ روپے نقد اور موبائل فونز چھین کر فرار
- پنجاب پولیس کا امریکا میں مقیم شہباز گِل کیخلاف کارروائی کا فیصلہ
- سنہری درانتی سے گندم کی فصل کی کٹائی؛ مریم نواز پر کڑی تنقید
- نیویارک ٹائمز کی اپنے صحافیوں کو الفاظ ’نسل کشی‘،’فلسطین‘ استعمال نہ کرنے کی ہدایت
- پنجاب کے مختلف شہروں میں ضمنی انتخابات؛ دفعہ 144 کا نفاذ
- آرمی چیف سے ترکیہ کے چیف آف جنرل اسٹاف کی ملاقات، دفاعی تعاون پر تبادلہ خیال
- مینڈھے کی ٹکر سے معمر میاں بیوی ہلاک
- جسٹس اشتیاق ابراہیم چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ تعینات
- فلاح جناح کی اسلام آباد سے مسقط کیلئے پرواز کا آغاز 10 مئی کو ہوگا
- برف پگھلنا شروع؛ امریکی وزیر خارجہ 4 روزہ دورے پر چین جائیں گے
- کاہنہ ہسپتال کے باہر نرس پر چھری سے حملہ
- پاکستان اور نیوزی لینڈ کا پہلا ٹی ٹوئنٹی بارش کی نذر ہوگیا
- نو منتخب امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم نے اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا
- تعصبات کے باوجود بالی وڈ میں باصلاحیت فنکار کو کام ملتا ہے، ودیا بالن
- اقوام متحدہ میں فلسطین کی مستقل رکنیت؛ امریکا ووٹنگ رکوانے کیلیے سرگرم
- راولپنڈی میں گردوں کی غیر قانونی پیوندکاری میں ملوث گینگ کا سرغنہ گرفتار
- درخشاں تھانے میں ملزم کی ہلاکت؛ انکوائری رپورٹ میں سابق ایس پی کلفٹن قصور وار قرار
- شبلی فراز سینیٹ میں قائد حزب اختلاف نامزد
- جامعہ کراچی ایرانی صدر کو پی ایچ ڈی کی اعزازی سند دے گی
’بابائے ڈی این اے‘ کو مالی پر یشانی کا سامنا
امریکی سائنس داں جیمز واٹسن نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ڈی این اے کی ساخت دریافت کی تھی۔ اسی لیے اسے ’بابائے ڈی این اے‘ بھی کہا جاتا ہے۔
اس انقلابی دریافت پر 1962ء میں واٹسن، فرانس کرک اور مورس ولکنس کو مشترکہ طور پر طب کا نوبیل انعام دیا گیا تھا۔ نوبیل پرائز کا حصول سائنس دانوں کو عزت و شہرت بخشنے کے ساتھ ساتھ مالی طور پر بھی آسودہ کردیتا ہے لیکن اُن کے لیے اس انعام سے جُڑی عزت اور وقار ہی سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ وہ بڑے فخر سے نوبیل پرائز کے میڈل کو گھر میں سجا کر رکھتے ہیں۔ تاہم جیمز واٹسن نے اپنا نوبیل انعام فروخت کے لیے پیش کردیا ہے، اور اس کی ابتدائی قیمت 25 لاکھ ڈالر مقرر کی ہے۔
ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جب معروف شخصیات بالخصوص کھلاڑیوں نے معاشی مسائل کی وجہ سے اپنے حاصل کردہ تمغے فروخت کے لیے پیش کردیے مگر آج تک کسی نوبیل انعام یافتہ فرد نے یہ میڈل نہیں بیچا۔ آخر بابائے ڈی این نے یہ اقدام کیوں اٹھایا؟ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے 86 سالہ سائنس داں نے کہا کہ 2007 ء میں ان کی جانب سے نسلی امتیاز برتنے کے حوالے سے ایک روزنامے میں کچھ باتیں شائع ہوئی تھیں۔ ان باتوں کی وجہ سے سائنس داں کی ساکھ متاثر ہوئی اور رفتہ رفتہ اس کی آمدنی بھی کم ہوتی چلی گئی۔ سائنس داں کو امید ہے کہ نوبیل پرائز کی فروخت سے اس کی آمدنی بڑھے گی اور اس کے معاشی مسائل میں کمی آئے گی۔
جیمز واٹسن بلاشبہ ذہین سائنس داں ہے۔ اس کے تحقیقی کام کی وجہ سے دنیا اس کی مرہون منت ہے۔ 1953ء میں اس نے فرانسس کرک کے ساتھ مل کر ڈی این اے کی ساخت دریافت کی تھی۔ ان کے علاوہ روزالنڈ فرینکلن نامی خاتون نے بھی اس سلسلے میں قابل قدر تحقیق کی تھی مگر نوبیل پرائز ملنے سے ایک برس قبل اس کا انتقال ہوگیا تھا۔ اس طرح ڈی این اے کی ساخت دریافت کرنے کا کارنامہ واٹسن اور فرانسس ہی کے حصے میں آیا تھا۔ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ واٹسن کا کام کم اہمیت کا حامل تھا۔ ساخت دریافت کرنے کے بعد بھی واٹسن نے ڈی این پر کام جاری رکھا تھا، چناں چہ وہ نوبیل انعام کا پوری طرح حق دار تھا تاہم ضروری نہیں کہ عظیم سائنس داں، عظیم انسان بھی ہو۔
2007ء میں ایک امریکی روزنامے کو انٹرویو دیتے ہوئے جیمز واٹسن نے ان خیالات کا اظہار کیا تھا کہ کچھ قومیں موروثی طور پر دوسروں سے کم ذہین ہوتی ہیں۔ اس کا اشارہ افریقی قوموں کی طرف تھا۔ واٹسن کا کہنا تھا کہ امریکا کی تمام پالیسیوں کی بنیاد اس بات پر رکھی گئی ہے کہ ان کی ذہنی سطح بھی ہماری ذہنی سطح کے برابر ہے، جب کہ ایسا نہیں ہے۔ جو لوگ سیاہ فاموں کو ملازم رکھتے ہیں وہ اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہوتے ہیں۔
جیمز واٹسن کے خیالات کے عام ہونے کے بعد اس پر کڑی تنقید ہوئی تھی۔ تاہم واٹسن مُصر رہا تھا کہ اس نے جو کچھ کہا وہ صد فی صد درست ہے۔ 2007ء سے پہلے بھی جیمز واٹسن اپنے متنازع خیالات کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنتے رہا ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔