گم شدہ محبتیں

فرح ناز  ہفتہ 7 مارچ 2015
ffarah.ffarah@gmail.com

[email protected]

جس زمانے میں ہم اور آپ زندگی گزار رہے ہیں کہتے ہیں کہ ہم سب میں خود غرضی اس قدر زیادہ ہوگئی ہے کہ محبت جیسا جذبہ ناپید ہوتا جا رہا ہے۔ خود غرضی نہ صرف ہم میں سر سے پیر تک بڑھتی جا رہی ہے بلکہ اکثر شکلوں پر بھی برسنے لگی ہے۔ کچھ اجنبی لوگ جب ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور بعد میں اپنے کمنٹس دیتے ہیں تو اس میں اکثر یہ جملہ بھی سننے کو ملتا ہے کہ ہائے، کتنا خودغرض لگ رہا تھا۔

بہرحال جس طرح 2013 کے الیکشن ہوئے اور دھاندلی اور جعلی ووٹس کا معاملہ ہوا اور پھر عمران خان صاحب کا 126 دن کا اسلام آباد میں دھرنا ہوا، کیا پایا کیا کھویا؟ اللہ ہی بہتر جانے لیکن اب سینیٹ کے الیکشن میں جس طرح بولیاں لگیں جس طرح بریف کیس کا ذکر آرہا ہے کیا اس پر بھی Future میں دھرنے دیکھنے کا موقعہ ملے گا۔

لوگ کہتے ہیں کہ تاریخ کی بدترین ہارس ٹریڈنگ، خرید و فروخت کا سلسلہ اس سینیٹ کے انتخابات میں اس سے پہلے نہیں دیکھا گیا اللہ امان! مزے کی بات یہ ہے کہ تمام کی تمام پارٹیز کے رہنما کہتے ہیں ہاں، بدترین خرید و فروخت کا سلسلہ چلا سینیٹ کے انتخابات میں۔

کروڑوں روپے میں انسانوں کی خرید و فروخت! کیا کہیے کیا انسانیت مردہ ہوگئی ہے کیا ہر انسان برائے فروخت ہے؟ سب اعتراف کر رہے ہیں کہ سینیٹ کے انتخابات میں بدترین خرید و فروخت اور بے تحاشا روپے کا استعمال ہو رہا ہے، عقل حیران ہے کہ اتنی بڑی کرپشن سے لے کر چھوٹی چھوٹی کرپشن تک کون روکے گا ؟ کون ہوگا وہ؟ جو گندے ہاتھوں کو پکڑے گا۔

کون ہوگا وہ کہاں سے آئے گا جو اس خود غرضی اور انسانیت کے دشمنوں کو تخت سے اتار کر تختے تک لے جائے گا اور اشرف المخلوقات کو احساس دلائیگا کہ اللہ نے انسانوں کو تمام مخلوقات میں افضل رکھا ہے تو محبت کے قابل اور محبت کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں ۔

کیوں ان کو آگ کے کنوئیں میں دھکیلا جا رہا ہے؟پہلے محبتوں کا یہ عالم ہوتا تھا کہ انسانوں کے ساتھ ساتھ چیزوں سے اماں باوا کے وقتوں کے پرانے Antique سے بھی محبت ہوتی تھی، کچھ لوگ Coins جمع کرتے تھے کچھ ٹکٹس،کچھ کو پرانے برتنوں سے لگاؤ تھا توکچھ کو پرانے گھر، پچھلے وقتوں کی بنی ہوئی عمارات اچھی لگتی تھیں، اب خود غرضی کا یہ عالم ہے کہ انسان بھی زیادہ پرانا ہونے لگے تو برا لگنے لگتا ہے۔

ایک دوست کا کہنا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ یورپ اور امریکا کی طرح ہمارے ہاں میں Old House بنائے جائیں اب نئی جنریشن کا پرانی جنریشن کے ساتھ چلنا مشکل ہوگیا ہے۔ پتہ نہیں یہ لوگ بولتے وقت شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ پرانی اور نئی جنریشن کا فرق تو چلا آرہا ہے۔ لیکن کہیں بھی اس کا مطلب یہ نہیں کہ بڑے بڑے Dust Bins کو بھرا جانا بھی ضروری ہے۔

محبت تو ہمیشہ سے ایک لطیف اورخوبصورت جذبہ ہے جو کبھی بھی کروڑوں میں نہ خریدا جاسکتا ہے نہ بیچا جاسکتا ہے۔ نہ ایمانداری کو آج تک کوئی خرید سکا نہ خلوص و وفا کی قیمت لگ سکی تو پھر جو کچھ ہمارے اردگرد شور شرابا ہے وہ سب کیا ہے؟ اور کیوں ہو رہا ہے۔ کیا ہماری شکلیں بدل گئی ہیں کیا ہماری قسمتیں انسان نما لوگ لکھنے لگے ہیں کیا ہمیں زندہ میں بھی اور مرنے کے بعد بھی ان ہی انسان نما لوگوں کو جواب دینا ہے کیا یہی ہماری دنیا اور آخرت کو بھلائی دیں گے یا جہنم کی آگ کا ایندھن بنائیں گے۔

ایک جاننے والے جب اپنی ریٹائرمنٹ کی عمرکو پہنچے تو سوچا کیا کیا جائے؟ کیونکہ ان کا کام پبلک ڈیلنگ تھا کچھ سمجھدار لوگوں نے جو ان کے دوست ہی ہوں گے ان کو مشورہ دیا کہ آپ ایک NGOکھول لیں گھر میں بھی خوشحالی آئے گی اور لوگوں سے ملنا جلنا بھی رہے گا۔ آئیڈیا برا تھا یا اچھا لیکن کہنے والے کہتے رہیں گے اور عمل کرنے والے عمل بھی کرتے رہیں گے۔

مردوں کے ساتھ ساتھ بہت سی خواتین بھی اپنی Social Services کے لیے مشہور ہوتی ہیں جو ہمیشہ تاریخ میں یاد رکھی جائیں گی، باربرا میلکسکی کا تعلق امریکا سے رہا، سینیٹر رہی، Development of the harbor area جین آدمJane Addams1931 میں نوبل پرائز پانے والی سوشل ورکر، غریب لوگوں کے گھر جیسی سہولیات بنانے والی خاتون اور اس کے علاوہ بے تحاشا خدمت خلق۔

حرام و حلال ہی جس معاشرہ میں ناپید ہونے لگے یہ رنگینی حقیقتیں بن جائیں تو پھر کرپشن، کرپشن نہیں رہے گی پھر ایک دوڑ شروع ہوجائیگی جیسی کہ آج کل لگی ہوئی ہے، وہی اسمارٹ اور فیشن ایبل جو زیادہ کھلا کھلا۔ جو زیادہ کرپشن کے طور طریقوں سے واقف، جو دنیا و آخرت دونوں سے بے خوف ہو۔پہلے لوگ اسی خوف سے تھوڑے سدھرے ہوتے تھے کہ چار لوگوں میں بات نہ کھلے مگر الیکٹرانک میڈیا کے اس دور میں جہاں ’’رنگے ہاتھوں ‘‘ کی وڈیو تک جاری ہوجاتی ہے شاید ان کا چوکیدار اور دودھ والا بھی ان کے کرپشن کے کرتوت دیکھ رہا ہوتا ہے۔

نو پروبلم۔ اتنی ڈھٹائی سے یہ لوگ اپنے کالے کرتوتوں پر فخر کرتے ہیں کہ اللہ کی پناہ! اولاد بھی جانتی ہے کہ وہ جو کھا رہے ہیں جو پہن رہے ہیں، جس طرح رہتے ہیں وہ چوری، مکاری کا ہے مگر اولاد اس میں خوش ہے کہ چلو عیاشی تو ہو رہی ہے مگر اللہ کا نظام تمام اطوار کے لیے یکساں ہے، آج جو کروگے کل وہی بھرو گے۔

Bad Time Stories، اماں کا بالوں میں انگلیاں پھیرنا، اپنے حصے کا کھانا اپنے عزیز دوست کو کھلانا، ابا کا زور دینا کہ پڑھو، اگر کچھ بننا چاہتے ہو تو، ایک کمانے والا اور سارے کھانے والے، پھر بھی اس کے باوجود بڑے بڑے قابل نام سامنے آئے، بڑے بڑے کام ہوئے، بڑے بڑے ایوارڈ ہمارے ملک میں آئے۔اب بہت ساری سہولتوں کے باوجود ایک درندگی ہے جو بڑھتی ہی چلی جارہی ہے، ایک عریانیت ہے جو فیشن کے نام پر چھاتی جا رہی ہے۔

عورت اور مرد دونوں گھر کی ذمے داریوں کے ساتھ باہر کے کام بھی کر رہے ہیں ۔دونوں بے تحاشا پیسہ کمانے کی مشین بنے ہوئے ہیں بڑے بڑے نامی گرامی اسکول اور کالجز میں بچے تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں، نوکر چاکر، ساتویں آسمان پہ دماغ مگر نتیجہ کبھی کبھی بس ایک خبر، فلاں شخص فلاں شخص کی گولی کا شکار ہوگیا، یا معمولی جھگڑا جان ہی لے گیا، یا انا کا چھوٹا سا مسئلہ دو خاندانوں کو تباہی کے موڑ پر لے آیا۔

کہیں بیویاں اپنے شوہروں کے لیے ایک مہربان سائبان، کہیں شوہر بنے ہوتے ہیں لالچ کی دکان، ایک ایسی دکان جو بھرتی ہی نہیں اور بے چاری بیویاں اپنی سوشل ایکٹیویٹی سمجھتے ہوئے اپنے آپ کو نئے زمانے کی بیوی کہلانے پر خوش۔ ایک کامیاب جملہ ’’ہم ایک دوسرے کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کرتے۔‘‘ جاہل اور تعلیمیافتہ دونوں ہی خوش کہ وہ ایک ماڈرن دور میں جی رہے ہیں۔

جہاں بیوی گھر اور باہر دونوں جگہ Active اور مرد اس کو مختلف راستے دکھانے اور سکھانے میں Active۔ شاید دونوں ہی اپنا کام خیر و خوبی سے کر رہے ہیں اور ہم سب کہیں نہ کہیں محبتوں کے حصول کے لیے کوشاں، بے ایمانی یا چوری، بے شرمی، ہٹ دھرمی، غلامی یا بے وفائی سب کچھ کیا جائز ہے اس اکیسویں صدی میں؟ لمحہ بہ لمحہ برستی ہوئی محبتیں آج بھی کہیں نہ کہیں دروازہ کھٹکھٹاتی ہے جگاتی ہے اور اپنی طرف بلاتی ہیں جس نے سن لیا اس نے پا لیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔