ایسی جیت کی آخر کیا ضرورت ہے؟

نور پامیری  بدھ 18 مارچ 2015
ایسی خوشی اور اس کے بیہودہ اظہار پر،جو دوسروں کی زندگی اُجاڑنے کا سبب بن جائے، صدق دل سے تین حروف کیوں نہ بھیجے جائیں؟. فوٹو اے ایف پی

ایسی خوشی اور اس کے بیہودہ اظہار پر،جو دوسروں کی زندگی اُجاڑنے کا سبب بن جائے، صدق دل سے تین حروف کیوں نہ بھیجے جائیں؟. فوٹو اے ایف پی

یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں اپنے دوستوں کے ہمراہ کراچی کے ایک گنجان آباد علاقے میں تعلیم اور ملازمت کے سلسلے میں مقیم تھا۔ کالونی کی چھٹی منزل پر رہنے کا ایک فائدہ یہ ہوتا  کہ گلی میں ہونے والی لڑائیوں، خوشیوں کے اظہار اور اور دیگر سرگرمیوں پر نظر رکھنے کا موقع ملتا تھا۔ 

چھٹی کا دن تھا اور ہم سارے دوست گھر پر بیٹھے بات چیت میں مصروف تھے۔ گلی میں ہر روز گونجنے والی آوازوں میں آج بینڈ باجے کا شور بھی شامل تھا۔ غالبا کسی کی شادی ہورہی تھی۔ رقص و سرور، تالیوں اور بینڈ باجے کی آواز میں تیزی آئی تو ہم بھی کھڑکی سے نیچے  جھانکنے لگے۔

بارات آچکی تھی۔ شوروغل میں اضافہ ہورہا تھا۔ دلہن کو لے کر لوگوں کا ایک جمِ غفیر دلہے میاں کے گھر کے قریب پہنچا ہی تھا کہ اچانک فائرنگ کی آوازیں آنے لگی۔ ہم نے گھبرا کر سر اندر کرلیا اور کونے کھدروں سے گلی میں جھانکنے لگے۔ فائرنگ اور بینڈ باجے کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری رہا اور پھر اچانک ہی ساری آوازیں بند ہوگئیں۔ کچھ چیخیں بلند ہوئیں۔ عورتوں کے رونے کی آوازیں آنے لگیں۔

ہم گلی میں جھانکتے ہوئے معاملات کو سمجھنے کی کوشش کررہے تھے کہ اچانک سفید کپڑوں میں ملبوس ایک شخص خون میں لت پت ننھی منی سی جان کو گود میں اُٹھائے بھاگم بھاگ شادی والے گھر سے نکل آیا۔ اسکے سفید کپڑوں پر خون کے چھینٹے نظر آرہے تھے۔ جلد ہی وہ کچھ دیگر افراد کے ساتھ ایک گاڑی میں بیٹھ کر چلا گیا۔ اس کے بعد گلی سے زیادہ آوازیں نہیں آئیں۔ ہاں، کچھ پریشان حال افراد بے چینی پر ٹہلتے ضرور نظر آئے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ شادی کی خوشی میں ہوائی فائرنگ کرنے والے کسی نوجوان نے اپنی خوشی کے اظہار کے چکر میں ایک بچی کو نادانستہ طور پر گولی مار دی تھی۔ وہ تو شکر ہے اللہ کا کہ بچی کی جان بچ گئی۔ گولی شاید  ان کے جسم کو چھوتے ہوئے گزر گئی تھی۔ شادی اور شادمانی کے اس تہوار کو اچانک غم اور رنج کے دبیز بادلوں میں گھرے دیکھنے کے بعد اس روز میرے دل میں گولیوں اور بندوقوں سے نفرت مزید گہری ہوگئی۔

چند سال پہلے شادی کے جشن کے موقعے پر گولی کا شکار ہونے والے اس بچی کی جان خوش قسمتی سے بچ گئی تھی، مگر گزشتہ روز پاکستان کی آئرلینڈ کے خلاف جیت کے بعد جشن میں کی جانے والی فائرنگ کی زد میں آکر شہرِ کراچی کی رہائشی آٹھ سالہ مصباح اپنی گڑیوں سے کھیلتے کھیلتے موت کا شکار ہوگئی۔ میڈیا کے مطابق پاکستان کی جیت کے بعد پرانی سبزی منڈی میں واقع نشتر بستی میں من چلوں نے شدید فائرنگ شروع کردی تھی۔ اسی دوران اپنے گھر کے صحن میں کھیلتی مصباح اچانک زمین پر گرگئی اور اس کے جسم سے خون رسنے لگا۔ مصباح کو فوری طور پرقریبی اسپتال منتقل کردیا گیا، لیکن سر میں لگنے والی گولی مہلک ثابت ہوئی۔

نامراد من چلوں کی نامعقول اظہارِ خوشی نے محنت کش ماں باپ سے ان کی بیٹی چھین لی۔ پشاور سے شائع ہونے والے ایک روزنامے کے مطابق باجوڈ ایجنسی کے علاقے میں بھی پاکستان کی جیت کے بعد ہوائی فائرنگ کی گئی جس کی زد میں آکر ایک شخص جاں بحق ہوگیا۔

ہمارے ملک میں اور بعض دیگر ممالک میں لمبے عرصے سے جاری خوشی کے موقعوں پر ہوائی فائرنگ کی یہ بوسیدہ اور خونریز روایت اب تک سینکڑوں جانیں لے چکی ہے۔ سب سے شرمناک بات یہ ہے کہ ملک میں ہوائی فائرنگ کے خلاف قانون موجود ہے، لیکن اس پر عملدرآمد نہیں ہوپارہا۔ اور اس سے بھی شرمناک بات یہ ہے کہ بسا اوقات قانون کے نام نہاد رکھوالے، سیاست دان اور ان کے حواری بھی ہوائی فائرنگ کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ ملک کے بعض علاقوں میں شادی کے موقعوں پر ہوائی فائرنگ کی باقاعدہ تقریب منعقد ہوتی ہیں جس میں ہزاروں گولیاں ہوا میں فائر کی جاتی ہیں اور اس دوران متعدد بار بچوں، خواتین اور دیگر افراد گولیاں لگنے سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں یا پھر زخمی ہوجاتے ہیں۔

مصباح الیون (قومی ٹیم) کی جیت ہو، اولاد کی پیدائش، یا پھر کسی عزیز کی شادی، خوشی سب کو ہوتی ہے اور خوشی کے اظہار کی خواہش بھی سب کے دلوں میں موجیں مارتی ہے، لیکن خوشی کا ایسا اظہار کیوں؟ جس سے کوئی آٹھ سالہ پیاری اور معصوم  مصباح  اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے؟

قانون کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے ہوائی فائرنگ کرکے اپنی خوشی کو نادانستہ طور پر دوسروں کے لئے ماتم کا سبب بنانے والوں کو اپنی مجرمانہ حرکتوں اور بوسیدہ سوچ پر سنجیدگی سے نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ اظہارِ خوشی کے بہت سارے مہذب اور پُرامن طریقے بھی ہیں، جنہیں اپنا کر لوگوں کی زندگیوں کو محفوظ بنایا جاسکتا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی اپنے کردار اور اپنی کارکردگی پر نظر ثانی کرتے ہوئے سماج دشمن عناصر کے خلاف کارروائی تیز کرنی چاہیے، تاکہ پھر کوئی مصباح اپنے گھر کے آنگن میں کسی من چلے کی  اندھی گولی کا نشانہ نہ بنے۔

پرسوں پھر ایک بہت ہی اہم میچ ہے۔ پاکستان کا مقابلہ آسٹریلیا کی مضبوط ٹیم سے ہونے جارہا ہے۔ آپ شوق سے کرکٹ دیکھیے۔ کھیل سے لطف اُٹھائیں۔ سب کی دعا ہے کہ پاکستان صرف یہ کوارٹر فائنل ہی نہیں بلکہ ورلڈ کپ بھی جیت جائے، اور پے در پے سانحات کا شکار بننے والی عوام کے لئے خوشیوں کا موجب بنے۔ آئے دن دہشت گردی کے شکار افراد کی لاشیں اُٹھانے والی قوم کو کرکٹ کا عالمی کپ اُٹھانے کا موقع ملے اور بھلا کون ہوگا جس کی یہ خواہش نہیں ہوگی؟ لیکن نکتہ یہ ہے کہ ایسی خوشی کی آخر کیا ضرورت ہے جس کابیہودہ اظہار دوسروں کی زندگی اجاڑنے کا سبب بن جائے؟

کیا آپ بلاگر کی رائے سے اتفاق کرتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

 

نور پامیری

نور پامیری

مختلف سماجی اور سیاسی مسائل پر لکھتے ہیں۔ ایک بین الاقومی غیر سرکاری ادارے میں کمیونیکیش ایڈوائزر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ آپ سے ٹوئٹر @noorpamiri پر کے ذریعے رابطہ کیا جاسکتا ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔